سید مجاہد علی
تحریک انصاف ڈی چوک پسپائی کے بعد اپنے زخم چاٹ رہی ہے اور حکومت کا غصہ کسی طور کم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن اس بیچ سب سے اہم سوال مسلسل نظر انداز ہورہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت کس کی حکمرانی ہے ، کون فاتح اور کون شکست سے دوچار ہؤا ہے۔ اس سوال کا جواب یوں پیچیدہ ہوجاتا ہے کہ ملکی سیاست کے کھیل میں ملوث کردار حسب ضرورت دونوں طرف دکھائی دیتے ہیں۔ملک میں دو تاثر عام ہیں۔ اسے سوشل میڈیا پروپیگنڈا کا کمال کہا جائے یا عوام کی محرومیوں کا نتیجہ لیکن یہ تاثرات اتنے گہرے ہیں کہ کوئی بھی متوازن سوچ کا حامل شخص ان کی موجودگی سے انکار نہیں کرسکتا۔ ایک یہ کہ ملک پر بالواسطہ فوج کی حکمرانی ہے اور موجودہ حکومت کٹھ پتلی کی حیثیت رکھتی ہے۔ دوسرا تاثر یہ ہے کہ شہباز شریف کو جعل سازی کے ذریعے اس عہدے پر سرفراز کیا گیا ہے ورنہ انتخابی نتائج میں مسلم لیگ (ن) کو اتنی واضح کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی کہ وہ اس منصب جلیلہ پر فائز ہوجاتے۔
ان تاثرات کی بنیاد پاکستان میں آباد عام لوگوں کی محرومیوں سے جڑی ہے کیوں کہ مہنگائی، بدانتظامی، بدعنوانی، امن و امان کی مسلسل بگڑتی صورت حال، تشدد اور دہشت گردی میں اضافہ اور علاقائی محرومیوں کی شکایات کے علاوہ نظر ملک بھر میں بے بسی کا احساس فزوں تر ہے۔ تحریک انصاف کے حامی ضرور فروری کے انتخابات میں ناکامی پر چیں بچیں ہیں اور ہر معاملہ کو انتخابی دھاندلی سے جوڑنا درست سمجھتے ہیں ۔لیکن یہ مایوسی و بے چینی محض تحریک انصاف تک محدود نہیں ہے۔ یہ پریشانی ہر پاکستانی کو لاحق ہے۔ یہ ملک کے تقریباً ہر گھر کا مسئلہ ہے۔ اس تشویش میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور روزگار کے محدود تر مواقع اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ہو، اپوزیشن ہو یا سیاسی و معاشی معاملات میں دلچسپی لینے والی فوجی قیادت، انہیں یکساں طور سے اس عوامی محرومی کا ادراک ہونا چاہئے اور اسے دور کرنے کے لیے کسی لائحہ عمل پر غور کرنا چاہئے۔
یوں تو یہ نعرہ یا اصول درست ہے کہ جمہوریت ہی پاکستان کے مسائل کا واحد حل ہے۔ عوام کی منتخب حکومت ہی ان کے مسائل و ضرورتوں کو سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن یہ اصول اس وقت تک فعال نہیں ہوسکتا جب تک زمینی حقائق کا جائزہ لے کر تمام لوگ اپنے حصے کا بوجھ اٹھانے یا اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر آمادہ نہ ہوں۔ بدقسمتی سے پاکستانی جمہوری سیاست میں دو عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا: ایک ) سیاسی پارٹیاں صرف ان لوگوں کو انتخابی دوڑ میں شامل کرتی ہیں جو کسی حلقے یا علاقے میں ذاتی یا برادری و قبیلہ کے اثر و رسوخ کی بنیاد پر کامیاب ہونے کی ’صلاحیت ‘رکھتے ہوں۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری اہلیت قابل قبول نہیں ہوتی۔ اس طرح بنیادی انتخابی عمل میں ہی ان لوگوں کی اجارہ داری مسلمہ ہوجاتی ہے جو ذاتی، علاقائی یا گروہی مفادات کے لیے سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔ عوام کی بہبود یا علاقے کی بھلائی ان لوگوں کے ایجنڈے پر صرف اسی حد تک موجود ہوتی ہے کہ انہیں کسی اگلے انتخاب میں ایک بار پھر اپنے حلقے کے لوگوں کو بتانا ہوتا ہے کہ وہ ان کے مفادات کے محافظ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹر بھی ایسے امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں جن کے بارے میں قوی یقین ہو کہ وہ کامیاب ہوسکتے ہیں اور کامیابی کے بعد وہ علاقے کے بااثر لوگوں کے ذاتی مفادات کا تحفظ کریں گے، جن میں کچہری تھانے کے معاملات اور زمین جائداد کے جھگڑے سر فہرست ہوتے ہیں۔ اس سارے عمل میں جمہوریت یا ملکی سطح پر نظام کی درستی مباحث کا حصہ نہیں ہوتی۔
دوئم) ملکی اقتدار تک حصول میں اسٹبلشمنٹ یا عسکری قیادت کی حمایت و سرپرستی کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ ملکی سیاسی تفہیم میں یہ ’حقیقت‘ قبول کی جاچکی ہے کہ کوئی پارٹی کیسی ہی عوامی مقبولیت کی حامل ہو ، عسکری قیادت کی تائد و حمایت کے بغیر اقتدار حاصل نہیں کرسکتی۔ ہر سیاسی پارٹی فوجی قیادت کو بعض بنیادی ضمانتیں فراہم کرنے پر مجبورہوتی ہے۔ ان میں سر فہرست ہمسایہ ممالک بھارت و افغانستان کے ساتھ معاملات، ملکی معیشت میں فوجی اداروں کو حاصل مراعات کاتحفظ اور قومی اہمیت کے بنیادی معاملات میں عسکری قیادت کی فیصلہ کن مشاورت تسلیم کرنا شامل ہے۔ چونکہ سیاسی پارٹیوں میں اس نام نہاد سچائی کو تہ دل سے قبول کرلیا گیا ہے کہ اقتدار تک پہنچنے کے لیے فوج کو راضی رکھنا ضروری ہے، اس لیے ہر سیاسی لیڈر اس اصول پر پوری طرح عمل کرنا چاہتا ہے۔ ملکی تاریخ میں بار بار مسلط کی گئی فوجی حکومتوں کے ادوار نے اس ذہنیت کو راسخ کیا ہے۔ لہذا ملک کی سیاسی پارٹیوں اور قیادت میں بلاتخصیص اس رویہ کو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے اسٹبلشمنٹ سے روابط استوار کیے جائیں۔
فوجی آمر پرویز مشرف کے بعد قائم ہونے والی ’جمہوری‘ حکومتوں کے ادوار میں خاص طور سے یہ محسوس کیا گیا ہے کہ فوجی قیادت ، سیاست دانوں پر یہ واضح کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتی کہ حکومت کرنے بلکہ کسی حد تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے عسکری قیادت کو اعتماد میں لینا یا مطمئن رکھنا ضروری ہے۔ 2008 اور 2013 میں بالترتیب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں قائم ہوئیں لیکن ان پر عسکری قیادت کا کنٹرول نمایاں رہا۔ کسی پارٹی نے اگر ’خود مختاری‘ سے فیصلے کرنے کا ارادہ کیا تو اس کے لیے نت نئے مسائل پیدا کیے گئے۔ میمو گیٹ اور ڈان لیکس کے معاملات ابھی قومی حافظے میں راسخ ہیں۔ اقتدار کے دوران ان دونوں پارٹیوں کی حتی المقدور خدمت گزاری کے باوجود دونوں پارٹیوں کو نہ صرف اپنے ایک ایک وزیر اعظم کی قربانی دینا پڑی بلکہ 2018 میں ہائیبرڈ نظام کے تحت انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کا اہتمام کیا گیا تاکہ ملکی سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اہمیت ختم کی جاسکے۔
ایک تو عسکری قیادت کا دل اپنے ہی منتخب کیے ہوئے وزیر اعظم سے کچھ عرصہ کے بعد اوب جاتا ہے ۔ دوسرے تحریک انصاف بوجوہ ملکی معاملات مناسب طریقے سے چلانے میں کامیاب نہیں رہی۔ لہذا اسٹبلشمنٹ نے اپنے ہی بنائے ہوئے ہائیبرڈ نظام کو ختم کرنے اور اس تجربہ کو سمیٹنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے محروم کیا گیا اور پھر 8 فروری 2024 کے انتخابات میں ایک بار پھر من پسند نتائج حاصل کرکے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوانے کا اہتمام کیا گیا۔ اسی لیے موجودہ حکومت کو ہائیبرڈ ۔2 کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ملکی جمہوریت کی شفافیت میں ہائیبرڈ سوچ کی آلودگی شامل کرنے والوں کو یہ احساس تک نہیں ہوسکا کہ اگر ذبردستی مسلط کی ہوئی ایک حکومت کامیاب نہیں ہوسکی تو اسی طرح کا دوسرا تجربہ کیسے خوشگوار ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اس وقت ’حقیقی آزادی‘ کے گھوڑے پر سوار، ملک اور بیرون ملک اپنے جاں نثاروں کی پرجوش حمایت کے زور پر اسٹبلشمنٹ کو باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ صرف وہی ملک پر حکمرانی کے اہل ہیں اور عسکری قیادت کے پاس ان کے ساتھ ’ڈیل‘ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
یہ عنصر شاید فوجی افسروں کی تربیت کا حصہ بن چکا ہے کہ صرف وہی قوم و ملک کے مفادات کے حقیقی محافظ ہیں۔ اسی لیے عسکری قیادت شاید یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوتی ہے کہ اہم معاملات میں ان کی رہنمائی، ہدایت یا فیصلے ہی درست اور قابل عمل ہوتے ہیں۔ البتہ یہ اصرار کرتے ہوئے یہ فراموش کردیا جاتا ہے کہ ملک پر وقفوں وقفوں سے چار فوجی جنرل مطلق العنان حاکم رہے لیکن ہر دور کا اختتام کسی نہ کسی بڑی ناکامی پر ہؤا۔ اگر فوج ملکی معاملات چلانے میں ایسی ہی یکتہ روزگار ہوتی تو یہ چاروں فوجی حاکم بہترین نتائج کے ساتھ رخصت ہوتے اور ملک زوال کی بجائے ترقی کی طرف گامزن ہوتا۔ فوجی قیادت کو یہ باور کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی ، سفارتی ، معاشی یا انتظامی معاملات کو دیکھنا ان کی تربیت کا حصہ نہیں ہوتا ۔ نہ ہی کوئی فوج کسی ملک کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے استوار کی جاتی ہے۔ فوج کو اس زعم سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے کہ وہی اس ملک کا بھلا سوچنے والا واحد ادارہ ہے اور باقی سب لوگ بدعنوان، نااہل یا ناکارہ ہیں۔ ملک کا ہر شہری وفادار اور اپنے وطن سے محبت کرنے والا ہے۔ ہر شخص کو اس کی صلاحیت و اہلیت کی بنیاد پر قومی خدمت کا موقع ملنا چاہئے۔ فوج کا کام سول حکومت کی نگرانی میں سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اس کی ساری توجہ اسی ایک ذمہ داری کی تکمیل پر صرف ہونی چاہئے۔
تاہم گزشتہ دو دہائیوں سے ملک کے سیاسی لیڈروں نے فوج اور سیاست کے درمیان حد فاصل قائم کرنے کی روش ترک کرکے عسکری قیادت کو اقتدار میں حصہ دار کے طور پر قبول کیا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ ہر سیاسی لیڈر خود کو ہی باقی سب سے بہتر سمجھتا ہے، اس لیے اس کا خیال ہوتا ہے کہ فوج کو صرف اسی کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں موجودہ اتحادی حکومت کے لیڈر یہی مطالبہ کرتے تھے۔ اور اب عمران خان اسی کوشش میں ڈی گراؤنڈ کی طرف مارچ کی آخری کال دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ فوج آخر ان سے بات کیوں نہیں کرتی۔ حالانکہ مسئلہ فوجی قیادت کے ساتھ سانجھے داری سے حل نہیں ہوگا بلکہ اس سانجھے داری کے طریقے کو ختم کرنے سے ملک میں مایوسی و ناامیدی ختم کرنے کا امکان پیدا ہوسکے گا۔بدقسمتی سے جو سیاسی قوتیں مل کر فوج کو سیاست سے گریز پر مجبور کرسکتی ہیں ، وہی ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ تحریک انصاف حکومتی پارٹیوں کو قابل اعتبار نہیں سمجھتی کیوں کہ وہ فوج کی اعانت سے زمام اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔ اور حکومت تحریک انصاف سے خوفزدہ ہے کیوں کہ اس کا ایجنڈا بھی فوجی قیادت کو رجھانا اور اقتدار حاصل کرنا ہے۔ اس کشمکش میں جمہوریت، عوام، ملکی مفاد اور امن و امان ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ۔ البتہ انہیں حسب ضرورت نعروں کے طور پر استعمال کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے ہر سیاسی پارٹی صرف جمہوریت اور آئینی انتظام ہی کو جزو ایمان سمجھتی ہے۔
حکومت یافوج اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش نہیں کرتیں کہ وہ ایک پیج پر ہیں۔ لیکن اس انتظام کو آئینی تعاون کا نام دیا جاتا ہے۔ البتہ مشکوک انتخابات کی شفافیت کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کے ساتھ فوج کا غیر مشروط اشتراک ، بے چینی بڑھانے کی اضافی وجہ بن رہا ہے۔ اب صورت حال اس حد تک دگرگوں ہے کہ کسی حد تک معتدل مزاج اور نظام دوست مولانا فضل الرحمان بھی سیاسی و انتخابی عمل میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کو مسائل کی بنیادی وجہ قرار دے رہے ہیں اور جماعت اسلامی جیسی قدامت پسند اور اسٹبلشمنٹ دوست جماعت بھی ہائیبرڈ نظام کے موجودہ تال میل کو ناجائز قرار دے رہی ہے۔اس مشکل سے نکلنے کے لیے سیاسی قوتوں کے درمیان وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ ہر سیاسی پارٹی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرکے ملک کے بہتر مستقبل کے لیے باہم تعاون کا قصد کرے۔ فوج اور سیاست میں حد فاصل قائم کرنے پر اتفاق رائے ہی ملک میں جمہوریت کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اور دھیرے دھیرے مایوسی کے بادل چھٹ سکیں گے۔
بشکریہ کاروان نیوز ، ناروے
واپس کریں