دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شنگھائی تعاون تنظیم اور پاک بھارت تنازعہ
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شریک رہنماؤں کے اعزاز میں وزیر اعظم شہباز شریف کے ڈنر سے تنظیم کے سربراہی اجلاس کا آغاز ہو گیا ہے۔ بدھ کو باقاعدہ اجلاس میں وفود کے سربراہان خطاب کریں گے اور متفقہ امور پر اعلامیہ تیار کیا جائے گا۔ اس اہم اجلاس میں علاقائی سلامتی، تجارتی تعاون اور ماحولیات جیسے اہم امور کے علاوہ عالمی صورت حال بھی زیر غور آئے گی۔
یہ تنظیم بین الاقومی طور سے امریکہ کے زیر اثر کام کرنے والے اداروں کا متبادل پیش کرتی ہے۔ چین اور روس اس کے اہم رکن ہیں۔ اس لحاظ سے یہ تنظیم عالمی منظر میں مسائل کا متبادل حل پیش کر سکتی ہے۔ تنظیم کے کل 10 ارکان ہیں جن میں چین، روس، پاکستان، بھارت، ایران، قازقستان، کرغستان، تاجکستان، ازبکستان اور بیلا روس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 16 ممالک مبصر یا ڈائیلاگ پارٹنر کے طور پر شامل ہیں۔ اسلام آباد میں منعقد ہونے والا سربراہی اجلاس ہر سال منعقد ہوتا ہے اور ہر رکن ملک اپنی باری پر اس کی میزبانی اور صدارت کرتا ہے۔ اس طرح تنظیم کے معاملات میں توازن برقرار رہتا ہے اور ہر رکن کو مساوی اہمیت اور قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے۔

چین اور روس کو تنظیم کے بانی ارکان ہونے کے علاوہ دنیا کی بڑی عسکری و معاشی طاقت ہونے کی وجہ سے اس تنظیم کے معاملات میں کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ دونوں ممالک وسطی ایشیا اور ایشیا کے اہم ممالک کے ساتھ مل کر تجارت، لین دین اور سکیورٹی کے معاملات میں ایسا ٹھوس منصوبہ تیار کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں جس پر عمل درآمد سے سب ممالک استفادہ کرسکیں۔ 2017 میں پاکستان اور بھارت بیک وقت اس تنظیم کے رکن بنے تھے۔ اس وقت سے یہی امید کی جا رہی تھی کہ اس پلیٹ فارم سے ان دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان مواصلت و تعاون کا کوئی مناسب راستہ تلاش کیا جا سکے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے خاص طور سے اس تنظیم کو پہلے سے علاقائی تعاون و خوشحالی کے لیے کام کرنے والی تنظیم سارک کے مقابلے مٰیں رکھ کر دیکھا جانے لگا تھا۔ سارک میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ، نیپال، افغانستان، اور سری لنکا شامل تھے۔ البتہ اس تنظیم میں چونکہ پاکستان اور بھارت بڑے ممالک کی حیثیت رکھتے تھے۔ اور یہ دونوں ملک ’بڑے‘ ہونے کا ثبوت دینے کی بجائے اس اہم علاقائی فورم کو باہمی چپقلش ظاہر کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرنے لگے تھے۔ اسی لیے سارک اگرچہ موجود تو ہے لیکن عملی طور سے یہ باہمی معاشی تعاون اور علاقے کے ملکوں میں دوریاں کم کرنے کا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے موجودہ اجلاس کو بھی درحقیقت پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے تناظر میں ہی دیکھا جا رہا ہے۔ ایک تو یہ سربراہی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہونے کی وجہ سے یہ دلچسپی پیدا ہو گئی تھی کہ کیا بھارت کسی اعلیٰ سطحی وفد کو اس اجلاس میں بھیجے گا یا پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے محض سرکاری عہدیداروں کی سطح پر وفد بھیج کر علامتی شرکت کرے گا۔ بھارت کے وزیر اعظم تو اجلاس میں شریک ہونے کے لیے اسلام آباد نہیں آئے لیکن انہوں نے وزیر خارجہ جے شنکر کو بھارتی وفد کی قیادت کے لیے پاکستان بھیجا ہے جو آج سہ پہر اسلام آباد پہنچے اور رات کو وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے دیے گئے عشائیے میں بھی شریک ہوئے۔ اس طرح پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور عدم مواصلت کے باوجود بھارتی حکومت نے ایس سی او کے اجلاس میں وزیر خارجہ کو بھیج کر اس تنظیم کی اہمیت و ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔ یہی طرز عمل درحقیقت آگے چل کر تنازعات دور کرنے اور مواصلت مستحکم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

پاکستانی میڈیا میں اور خاص طور سے سوشل میڈیا مباحث میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس قسم کے اجلاس پر حکومت جس قدر شور مچا رہی ہے اور اسلام آباد میں سکیورٹی کے جیسے انتظامات کیے گئے ہیں، ان کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ یہ ایک علاقائی تنظیم کا رسمی اجلاس ہے جس کی عالمی تنازعات و امور میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کو اس میزبانی سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا البتہ حکومت وقت کو ضرور خود کو اہم قرار دینے کا موقع مل جائے گا۔ البتہ ایسی رائے کا اظہار محض عالمی امور اور دنیا میں ممالک کے درمیان تعلقات کے حوالے سے میکنزم سے نابلد لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ اول تو کسی بھی رکن ملک کے لیے ایک ایسی تنظیم کے اجلاس کی میزبانی اہم اور عزت افزائی کا سبب ہوتی ہے جس میں چین اور روس بلکہ بھارت جیسے بڑے ممالک شامل ہوں۔ دوسرے ایسے مواقع پر اگرچہ دو ارکان کے درمیان کوئی معاہدہ ہونے کا امکان نہیں ہوتا لیکن ایسے امور پر اتفاق رائے پیدا کیا جاتا ہے جو علاقے میں وسیع المدت استحکام لانے اور رکن ممالک کو اس سے استفادہ کرنے کی طرف آمادہ کرتا ہے۔

مثلاً ایس سی او دہشت گردی کے خلاف کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اور بھارت کو یکساں طور سے تشویش رہتی ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کرتے رہتے ہیں لیکن متعدد سیاسی و سفارتی وجوہات کی بنیاد پر دونوں ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست مواصلت اور معاملات طے کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے لیے پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ بھارت کو مسلسل شکایت رہتی ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دہشت گرد عناصر کی سرپرستی کرتا ہے بلکہ سرحد پار سے انتہا پسند عناصر کو بھارتی زیر انتظام علاقے میں گڑ بڑ کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت بلوچستان میں قوم پرست عناصر اور مسلح گروہوں کی سرپرستی و امداد کرتا ہے۔

یہ الزامات بھی لگائے جاتے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کرنے والے گروہوں کی تربیت کرنے اور انہیں مالی امداد اور اسلحہ فراہم کرنے میں پیش پیش ہے۔ ان باہمی شکایات پر دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت نہ ہونے کی وجہ سے صورت حال واضح نہیں ہوتی۔ اور معاملات بدستور تنازعہ کا شکار رہتے ہیں۔ البتہ جب یہ دونوں ملک شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے دہشت گردی کے خلاف کام کرنے کا عہد کرتے ہیں تو وہ ایک دوسرے ہی کو نہیں بلکہ اس تنظیم کے دیگر ارکان کو بھی اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے جوابدہ ہوتے ہیں۔ گویا یہ اہم ادارہ ان دونوں ممالک کے درمیان بنیادی اہمیت کے حامل ایک تنازعہ کے بارے میں عبوری حل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کا اعلان ہونے کے بعد ایک تقریب میں کسی صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ دو طرفہ معاملات پر بات کرنے اسلام آباد نہیں جا رہے بلکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شریک ہونے جا رہے ہیں کیوں کہ یہ تنظیم بھارت کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔ یہ جواب تکنیکی طور سے درست تھا اور اگر موجودہ حالات میں پاکستانی وزیر خارجہ ایسے کسی اجلاس میں شریک ہونے نئی دہلی جا رہا ہوتا تو وہ بھی یہی جواب دیتا۔ البتہ اس حوالے سوال سامنے آنے سے ہی یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام کے لیے ان دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کے حوالے سے دلچسپی اور تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ چین اور روس کے علاوہ پاکستان اور بھارت کی اس فورم میں موجودگی سے تنازعات کم کر کے مل جل کر ساتھ چلنے کے اصول کی کامیابی ہے۔ ورنہ ان میں سے کوئی بھی ملک اس تنظیم سے یہ عذر کر کے علیحدہ بھی ہو سکتا تھا کہ اس میں اس کا دشمن ملک موجود ہے۔ لیکن دونوں ملک جانتے ہیں کہ اہم علاقائی فورمز کے ذریعے اپنا اصولی موقف بیان کر کے ہی وہ درحقیقت پورے علاقے میں پائیدار امن کی ضمانت فراہم کر سکتے ہیں۔ امن ہی ہر ملک کی سلامتی اور تجارتی تعلقات میں وسعت کے لیے راستہ ہموار کر سکتا ہے۔

ایس سی او کا سربراہی اجلاس شروع ہونے سے ایک روز پہلے بھارت کی ممتاز صحافی برکھا دت نے مسلم لیگ (ن) کے لیڈر نواز شریف سے ملاقات کی۔ نواز شریف نے بھارتی صحافی کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ مستقبل قریب میں دونوں ملکوں کے درمیان مواصلت بہتر ہو سکے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کا حامی رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ پاکستان اور بھارت میں تعلقات بحال کرنے کے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم نریندر مودی خود ایس سی او کے سربراہی اجلاس میں شریک ہوتے لیکن مجھے امید ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کا جلد ہی موقع میسر آئے گا‘ ۔ ایک بھارتی صحافی کو پاکستان کے اہم لیڈر کی طرف سے ایسی پرامید باتوں کے تناظر میں دونوں ملکوں میں دوستانہ تعلقات کے حامی و مخالف میدان میں نکلے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں تو عام طور سے بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر اتفاق رائے ہے لیکن جنگ جوئی کی بات کرنے والے عناصر بھی سیاسی دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ البتہ بھارت میں مودی حکومت نے خود ہی سیاسی فائدے کے لیے پاکستان دشمنی کا ماحول پیدا کیا ہوا ہے اور متعدد وزیر اکثر پاکستان دشمن بیانیہ مستحکم کر کے نفرت کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسی حوالے سے بھارت کے بعض مبصر پاکستان کو بھارت کے لیے غیر اہم قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ بھارت کے لیے اپنے حجم اور علاقائی اہمیت کی وجہ سے پاکستان کی بجائے چین پر توجہ دینے اور بڑے عالمی فورمز پر کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اب بھارت کے لیے اہمیت نہیں رکھتا۔ اس نقطہ نظر کو پھیلانے والے اس حقیقت سے نظریں چرا رہے ہوتے ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت اور بھارت کا اہم ترین ہمسایہ ہے۔ اس کی جنگی تیاریوں کا محور اب بھی پاکستان ہی ہے۔ بھارتی حکومت بخوبی جانتی ہے کہ وہ عسکری لحاظ سے چین کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل پر مطمئن ہو کر کوئی بھی بھارتی لیڈر اس حقیقت کو فراموش نہیں کر سکتا پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور بھارت تو کیا دنیا کو کوئی اہم ترین ملک بھی پاکستان کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ دریں اثنا کشمیر کے حوالے سے جو تنازعہ دونوں ملکوں کے درمیان موجود ہے وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر سامنے آیا ہے۔ بھارت کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ماننے کے باوجود اب ان پر عمل کرنے سے انکار کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان ان قراردادوں کے مطابق تنازعہ حل کرنے پر زور دیتا ہے۔ بھارت کو یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے بہر حال پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنا ہوں گے۔نواز شریف نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے جو امید ظاہر کی ہے، وہی علاقے میں پائیدار امن اور دونوں ملکوں کے عوام کی خوشحالی کے لیے اہم ہے۔ پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی باہمی تعلقات کے حوالے سے سیاسی رائے تبدیل کرنے اور ذمہ دار حکومتوں کی طرح بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کا اقدام بے حد ضروری ہو گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم جیسے فورم دونوں ملکوں کو اس حوالے سے ایک اہم موقع فراہم کرتے ہیں۔

(بشکریہ کاروان ناروے)

واپس کریں