سید مجاہد علی
اسے جمہوریت کا حسن کہنا چاہیے کہ تحریک انصاف کے لیڈروں نے آج پھر اپنے شدید سیاسی دشمن مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔ اور اسد قیصر کے بقول، ان سے اسپیکر و وزیر اعظم کے عہدوں کے لئے تحریک انصاف کے امید واروں کو ووٹ دینے کی درخواست کی۔ سب پارٹیوں کے منتخب ہونے والے ارکان قومی اسمبلی اور ان کے لیڈر اگر آنے والے وقت میں ایسے ہی مثبت اور تعمیری طرز عمل کا مظاہرہ کریں تو سب مل کر پارلیمنٹ کو مضبوط اور غیر منتخب طاقتوں کے اثر و رسوخ کو کم کر سکتے ہیں۔تاہم آج قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے دوران میں اور بعد ازاں یہ سوال زیر بحث رہا کہ نئی قومی اسمبلی کس حد تک موثر ادارے کے طور پر سامنے آئے گی اور کیا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکان اسے حقیقی معنوں میں ایسا فورم بنا سکیں گے جہاں عوامی مسائل پر بات ہو اور ان کے حل کے لیے جو بھی مناسب تجویز سامنے آئے اسے منظور کیا جائے۔ فیصلے کرتے ہوئے یہ نہ دیکھا جائے کہ یہ تجویز اپوزیشن کے بنچوں سے دی گئی ہے یا اسے حکومت نے پیش کیا ہے۔ البتہ اس پہلو کو پیش نظر رکھا جائے کہ کیا اس اقدام سے عوام کو وسیع تر بنیادوں پر فائدہ ہو گا یا ان کے مفادات پر زک لگے گی۔
انتخابات کے انعقاد کے بعد ابھی تک جذبات قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران میں بھی اس کا مظاہرہ کیا گیا۔ تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان کے چہرے والے ماسک پہن کر اجلاس میں شریک ہوئے اور مخالفین کے خلاف مسلسل ’چور چور‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ یہ طریقہ حکومت سازی کا عمل مکمل ہونے تک تو قابل فہم ہو سکتا ہے کہ انتخابات میں ناکامی اور دھاندلی کی شکایات کی وجہ سے تحریک انصاف کو پریشانی لاحق ہے۔الیکشن کمیشن نے ابھی تک مخصوص نشستوں کا فیصلہ بھی نہیں کیا ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے آزاد ارکان کو سنی اتحاد کونسل کا رکن بنوانے کے بعد الیکشن کمیشن سے اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستوں میں حصہ دینے کی درخواست کی تھی۔ الیکشن کمیشن نے یہ سیٹیں ابھی تک کسی پارٹی کے نام نہیں کی ہیں اور نہ ہی سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر فیصلہ جاری کیا گیا ہے۔سنی اتحاد کونسل کے ذریعے مخصوص سیٹوں کا کوٹہ لینے کے حوالے سے سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ سنی اتحاد کونسل کا کوئی رکن قومی اسمبلی کا رکن منتخب نہیں ہوا اور نہ ہی اس پارٹی نے مخصوص نشستوں کے لیے اپنے نامزد امیدواروں کے نام مقررہ وقت میں الیکشن کمیشن کے پاس جمع کروائے ہیں۔ اصولی اور قانونی طور سے الیکشن کمیشن یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے سے انکار کر سکتا ہے۔ البتہ اس سے دھاندلی اور مینڈیٹ چوری کے موجودہ ماحول کی تلخی میں اضافہ ہو گا۔ الیکشن کمیشن نے اگر سنی اتحاد کونسل کے نام سے تحریک انصاف کو یہ سیٹیں دینے کا فیصلہ کیا تو سیاسی لحاظ سے تو اسے درست فیصلہ کہا جائے گا لیکن اس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھتے رہیں گے۔
اس سے پہلے تحریک انصاف کے انتخابی نشان کے حوالے سے بھی یہی صورت حال پیدا ہوئی تھی۔ قانونی لحاظ سے الیکشن کمیشن کی پوزیشن مضبوط تھی اور اس نے اسی کے مطابق فیصلہ کیا اور سپریم کورٹ کو بھی اس فیصلہ کو تسلیم کرنا پڑا تھا کیوں کہ تحریک انصاف اس بات کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکی تھی کہ انٹرا پارٹی الیکشن منعقد ہوئے تھے اور پارٹی سیکرٹری کی طرف سے اس بارے میں جعلی حلف نامہ جمع نہیں کروایا گیا تھا۔ البتہ اس فیصلہ کے سیاسی مضمرات کا خمیازہ تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ ملکی سیاست کو عام طور سے بھگتنا پڑا ہے۔پوری انتخابی مہم کے دوران یہی نعرہ عام کیا جاتا رہا کہ تحریک انصاف سے ناجائز طور پر انتخابی نشان واپس لے کر اسے انتخابات میں مساوی موقع دینے سے انکار کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف مسلسل یہ ماننے سے انکار کر رہی ہے کہ اس کا قانونی مقدمہ کمزور اور سیاسی فیصلے بے وقت اور غلط تھے، جس کے نتیجے میں اسے انتخابی نشان سے محروم ہونا پڑا۔البتہ انتخابی نشان کے بغیر بھی تحریک انصاف کے ’آزاد‘ ارکان متفرق انتخابی نشانوں پر قومی اسمبلی کی 90 سے زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان نتائج پر پارٹی نے اطمینان کا اظہار کر کے جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کا قصد کرنے کی بجائے اس طاقت کو حسب سابق ہنگامہ آرائی اور احتجاجی سیاست کے لیے استعمال کیا۔ اب تک تحریک انصاف اپنی تمام صلاحیتیں محض خود کو درست اور دوسروں کو غلط قرار دینے پر صرف کر رہی ہے۔
ملک میں اقتدار کے لئے سیاسی رابطوں کے حوالے سے بھی یہی صورت حال دیکھنے میں آئی ہے۔ عمران خان کی ہدایت پر پارٹی قیادت نے مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ بات چیت سے انکار کر دیا البتہ سنی اتحاد کونسل جیسی بے نام جماعتوں کے ساتھ پینگیں بڑھانا ضروری سمجھا۔ اب یہی فیصلہ شاید مخصوص نشستوں کے حصول میں بھی مشکلات کا سبب بنے۔ تحریک انصاف اگر آزاد ارکان کا گروپ بنا کر یا انہیں اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم پر جمع کر کے مخصوص نشستیں طلب کرتی تو شاید الیکشن کمیشن اس سے انکار نہ کر سکتا کیوں کہ تحریک انصاف بطور پارٹی بہر حال موجود ہے اور الیکشن کمیشن میں رجسٹر بھی ہے۔ لیکن اس آسان راستہ کی بجائے پارٹی نے یہی مناسب سمجھا کہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو کر اپنی پارلیمانی طاقت میں اضافہ کیا جائے۔ یہ فیصلہ کس حد تک پارٹی کے لیے سود مند ہوتا ہے، اس کا اندازہ آنے والے وقت میں ہو گا۔البتہ مخصوص نشستوں کی تقسیم مکمل نہ ہونے کے سوال پر تنازعہ کھڑا کر کے صدر عارف علوی نے آخری وقت تک قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کیا۔ جب وزارت پارلیمانی امور نے آج صبح دس بجے اجلاس بلا لیا تو چند گھنٹے پہلے صدر نے بھی اجلاس بلانے کی سمری پر دستخط کر دیے۔ عارف علوی نے یہ اقدام خوشی سے نہیں کیا تھا لیکن انہیں بھی یہ خوف لاحق ہو گا کہ اگر انہوں نے اجلاس بلانے سے متعلق اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہ کی تو شاید انہیں بعد از وقت قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے۔
اب تحریک انصاف کی طرف سے وزارت عظمی کے امید وار عمر ایوب نے حلف برداری کے بعد قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا کیوں کہ ان کا دعویٰ تھا کہ پارٹی کو درحقیقت 185 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن دھاندلی کرنے والے جعلی ارکان کو اسمبلی میں بلا لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مخصوص نشستیں تقسیم نہ ہونے کے حوالے سے بھی دلیل دی۔ البتہ یہ مطالبہ ماننے کا مقصد یہ ہوتا کہ 8 فروری کے انتخاب کے بعد شروع ہونے والا حکومت سازی کا عمل تعطل کا شکار رہے اور ملک میں بدستور بے یقینی رہے۔ تحریک انصاف کو شاید اسی میں اپنا فائدہ دکھائی دے رہا ہے لیکن وہ یہ سمجھنے سے مسلسل انکار کر رہی ہے کہ اگر یہ بحران کسی غیر جمہوری دست اندازی پر منتج ہوتا ہے تو جمہوریت کا راگ الاپنے والا ہر گروہ پریشان ہو گا اور ملک میں جمہوری عمل کا راستہ مسدود ہو سکتا ہے۔تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں قابل ذکر نمائندگی حاصل ہے۔ اس پارلیمانی طاقت کو ملک میں مثبت تبدیلی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ اسی وقت ممکن ہو گا اگر تحریک انصاف کے لیڈر یہ ادراک کرسکیں گے کہ موجودہ آئینی انتظام چلتے رہنے میں ہی سب کا فائدہ ہے۔ ان سب میں تحریک انصاف بھی شامل ہے۔ لیکن اگر پارلیمنٹ میں نمائندگی کی قوت کو بدستور تخریبی سیاست کے لیے استعمال کیا گیا تو اس سے پارلیمنٹ کمزور رہے گی۔ ایک تو مسلسل ہنگامہ آرائی میں قانون سازی یا اہم معاشی فیصلے کرنے کا کام نہیں ہو سکے گا۔ دوسرے متعدد دوسرے امور میں پارلیمنٹ کردار ادا نہیں کرسکے گی۔ ایسے ہی ماحول میں غیر جمہوری قوتیں یا اسٹبلشمنٹ موثر اور طاقت ور ہوتی ہے۔
تحریک انصاف اگر ایک مشکل سیاسی ماحول میں مولانا فضل الرحمان سے راہ و رسم بڑھانے اور ووٹ مانگنے کا اقدام کر سکتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس نے پیپلز پارٹی یا ایسے ہی دیگر گروہوں سے مواصلت کا راستہ بند کیا ہوا ہے جو شاید پی ٹی آئی کو سیاسی سپیس دینے پر راضی تھے۔ بلاول بھٹو زرداری کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے جزوی طور سے شہباز شریف کو وزارت عظمی کے لیے ووٹ دینے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کیوں کہ تحریک انصاف نے ان سے اپنے امیدوار کے لیے ووٹ مانگا ہی نہیں۔عمران خان اور تحریک انصاف کے لیڈروں کو سمجھنا چاہیے کہ سیاست میں بڑی انتخابی کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اگر بروقت درست سیاسی فیصلے نہ کیے جائیں تو بعد از وقت اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہی دیکھ لیا جائے کہ تحریک انصاف کا وفد انتخابات کے بعد دوسری مرتبہ مولانا فضل الرحمان سے ملا ہے کیوں کہ وہ کم تر پارلیمانی نمائندگی کے باوجود بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کو مولانا سے صرف ووٹ ہی نہیں مانگنے چاہئیں بلکہ سیاسی حکمت عملی کا سبق بھی سیکھنا چاہیے۔
فی الوقت اگرچہ یہ لگ رہا ہے کہ پارلیمنٹ کی کارکردگی کا انحصار تحریک انصاف کے رویہ پر ہو گا۔ لیکن اگر پی ٹی آئی نے مسلسل منفی سیاست کی اور آئی ایم ایف کو خط لکھنے جیسی غلطیاں دہرائی جاتی رہیں تو پارلیمنٹ میں موجودگی کے باوجود اس کی اہمیت کم ہو جائے گی۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ منتخب ہونے والی حکومت درست اقدامات کر کے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ یوں بھی تحریک انصاف ایک بڑی پارٹی ہے، اسے جماعت اسلامی کی طرح اس بچگانہ تصور سے باہر نکلنا چاہیے کہ فوری طور سے ملک میں نئے انتخابات منعقد ہوسکتے ہیں۔ اس کی بجائے سب سیاسی قوتوں کو مل کر کوشش کرنی چاہیے کہ موجودہ پارلیمنٹ اور منتخب ہونے والی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے اور ملک کو موجودہ بے یقینی اور بحران سے باہر نکال سکے۔
(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں