دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جنرل فیض حمید کی گرفتاری: فوجی نظام و ملکی سیاست کے لیے اہم
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
پاک فوج نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور پشاور اور بہاولپور کے سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو گرفتار کرنے اور ان کا کورٹ مارشل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یوں تو انہیں ایک ہاؤسنگ سوسائیٹی کے مالک کو ہراساں کرنے اور ان سے مالی فائدہ اٹھانے پر گرفتار کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی آئی ایس پی آر نے اطلاع دی ہے کہ سابق جنرل کے خلاف آرمی ایکٹ کی متعدد دفعات کی خلاف ورزی کا الزام بھی ہے۔آئی ایس پی آر کی طرف سے ہونے والے اعلان میں کہا گیا ہے کہ فوج نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر سابق جنرل کےخلاف تحقیقات کا آغاز کیا تھا اور اسی کے نتیجہ میں آج انہیں گرفتار کرکے کورٹ ماشل شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ واضح رہے سہ رکنی بنچ نے نومبر 2023 میں ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک معیز احمد خان نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر اختیارات کے غلط استعمال کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ البتہ عدالتی بنچ نے درخواست گزار کو وزارت دفاع اور دیگر مناسب فورمز سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا کیوں کہ ان کی درخواست انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتی تھی۔

تاہم اسی حکم میں عدالت عظمی نے فوج سے سابق فوجی جنرل کے معاملات کی تحقیقات کرکے کسی بے قاعدگی کی صورت میں ان کا احتساب کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر یہ الزامات درست ثابت ہو گئے تو ملکی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے۔ اس درخواست پر جس سہ رکنی بنچ نے سماعت کی تھی، وہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تھا۔ البتہ عدالتی فیصلے کا یہ حصہ آبزرویشن پر مشتمل تھا جسے باقاعدہ حکم کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ اس لیے اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ کے خلاف کارروائی اور ان کی گرفتاری کا فیصلہ متعدد پہلو سے قابل توجہ ہے۔

ایک تو یہ پہلا موقع ہوگا کہ آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ کے خلاف فوج کا داخلی نظام احتساب بروئے کار لایا جائے گا۔ سابقہ جرنیلوں حتی کہ فوج کے سربراہان پر ماضی میں متعدد الزامات عائد ہوتے رہے ہیں لیکن فوج نے ہمیشہ اپنے سابقہ افسروں کا دفاع کیااور انہیں تحفظ فراہم کرنے کا اقدام کیا۔ خاص طور سے ماضی قریب میں سابق فوجی سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے الزام میں مقدمہ کی سماعت کے دوران ان کی سہولت کاری کی گئی۔ اور اسی دوران میں انہیں حکومت پر دباؤ ڈال کر بیرون ملک فرار ہونے کا موقع فراہم کیا گیا۔ بعد میں خصوصی عدالت نے انہیں سزائے موت کا حکم دے دیا تھا لیکن اس کے باوجود ان کی میت کو پاکستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ اس تناظر میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کرپشن اور دیگر بےقاعدگیوں کے الزام میں کورٹ مارشل کارروائی کا آغاز فوج کی اندرونی حکمت عملی میں قابل توجہ تبدیلی کا اعلان ہے۔ اس فیصلہ سے فوجی قیادت یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ شدید سنگین قانون شکنی میں ملوث کسی سابق جنرل کو بھی نشان عبرت بنایا جاسکتا ہے۔

جنرل فیض حمید کے خلاف کارروائی اس حوالے سے بھی قابل توجہ ہے کہ ان کے خلاف سیاسی معاملات میں مداخلت کا دو ٹوک اور کھلم کھلا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف اور پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز متعدد بار فیض حمید پر تحریک انصاف کی حمایت میں مسلم لیگی قیادت کے خلاف اقدامات کا الزام لگاتی رہی ہیں۔ ان دونوں کا یہ مؤقف بھی رہا ہے کہ ان کے خلاف مقدمات بنوانے اور انہیں بدعنوانی کے الزامات میں طویل مدت تک قید میں رکھنے کا کام بھی جنرل فیض حمید ہی کی نگرانی میں انجام پایا تھا۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ پر تحریک انصاف کا حامی ہونے اور درپردہ ان کی حمایت کا الزام بھی عائد ہوتا رہا ہے۔ گزشتہ سال 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے وقت اگرچہ فیض حمید ریٹائر ہوچکے تھے لیکن ان کارروائیوں میں جن عسکری عناصر کے ملوث ہونے کا شبہ کیا جاتا ہے، ان میں فیض حمید کا نام بھی شامل رہا ہے۔ اس لیے اب فوجی کورٹ مارشل اور تحقیقات کے دوران میں اگر اس حوالے سے بھی تحقیقات کی گئیں تو ان کے لیے اپنی پوزیشن واضح کرنا مشکل ہوجائے گا۔

اس وقت ملک میں ’غیر جانبدار‘ تجزیہ نگاروں کی طرف سے جس قدر یہ دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے لیڈروں کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کیا جائے، سیاسی مواصلت کا راستہ ہموار ہو اور قومی افہام و تفہیم کا ماحول پیدا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ فوج کی طرف سے اسی شدت سے سانحہ 9 مئی کی سنگینی پر اصرار کرتے ہوئے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور اس روز فوج پر حملہ کرنے والوں اور اندرونی طور سے انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرنے والوں کا ہر صورت احتساب کیا جائے۔ گزشتہ روز پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے صدر اور تحریک انصاف کے ساتھ مل کر قائم کی گئی تحفظ آئین تحریک کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی یہ کہتے ہوئے 9 مئی کو ہونے والے ’جرائم‘ نظر انداز کرنے کا مشورہ دیا تھا کہ اس دن ہونے والے وقوعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ موجودہ حکومت اس مؤقف سے متفق نہیں ہے کیوں کہ عمران خان کے انکار اور تجزیہ نگاروں و متعدد سیاسی عناصر کی طرف سے مفاہمانہ حکمت عملی کے تحت اس دن کو بھلانے کے مشوروں کے باوجود آئی ایس پی آر نے بار بار اعلان کیا ہے کہ فوج کسی صورت سانحہ 9 مئی کو نہیں بھول سکتی۔

البتہ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ تحریک انصاف کے متعدد لیڈروں کو ان الزامات میں گرفتار کیا گیا اور عدالتوں سے ضمانتیں ہونے کے باوجود انہیں بہر صورت قید رکھنے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ بلکہ اب عمران خان اور ان کی اہلیہ سمیت متعدد اہم لیڈروں کے خلاف بھی اس روز ہونے والے واقعات کی منصوبہ بندی کرنے اور لوگوں کو اکسانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے فوج کی سنجیدگی کی سب سے بڑی وجہ یہ تاثر ہے کہ اس روز درحقیقت بعض عناصر کی مدد سے ہجوم کو استعمال کرکے فوج میں پھوٹ ڈالنے اور اسے آپس میں لڑانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگر اس تھیوری کو درست مان لیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تحریک انصاف کے کارکنوں کو بعض عسکری حلقوں کی امداد حاصل تھی تو یہ کارروائی یک طرفہ طور سے کیوں کی جارہی ہے۔ فوجی عناصر کے خلاف اسی شدت اور تندہی سے کارروائی کیوں دیکھنے میں نہیں آئی۔

بظاہر اس کا جواب فوج نے بعض اعلیٰ افسروں سمیت فوجیوں کا کورٹ مارشل کرکے یا انہیں نوکری سے نکال کر دیا ہے لیکن اس حوالے سے سامنے آنے والی خبروں میں یہ واضح نہیں تھا کہ کس شخص کو کس الزام میں سزا دی گئی۔ یہ بھی کوئی راز نہیں ہے کہ سانحہ 9 مئی سے پہلے متعدد ریٹائرڈ فوجی افسر تحریک انصاف کی حمایت میں مباحث میں شریک ہوتے اور ملک میں مسلط کیے جانے والے نظام یا تحریک عدم اعتماد سمیت متعدد اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے بالواسطہ طور سے فوجی قیادت کو شریک جرم قرار دینے کی کوشش کرتے۔ 9 مئی کے سانحہ کے بعد یہ عناصر ’خاموش‘ ضرور ہوگئے لیکن کسی بھی شخص کے خلاف کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اب اگر جنرل فیض حمید پر اس حوالے سے بھی الزام عائد ہوتے ہیں اور کورٹ مارشل کے دوران میں انہیں فوج میں انتشار پیدا کرنے کی کوششوں کا معاون سمجھا جاتا ہے تو یہ فوج او رملکی سیاسی قیادت کے لیے بہت اہم اور سخت پیغام ہوگا۔

اس طرح فوج یہ واضح کرسکے گی کہ سانحہ 9 مئی ایک سنگین معاملہ تھا جس میں ملوث کوئی بھی شخص معافی کا اہل نہیں ہے خواہ وہ سیاسی طور سے متحرک ہو یا اس کا تعلق فوج سے رہا ہو۔ فیض حمید کو سزا ملنے سے یہ بھی واضح ہوگا کہ موجودہ عسکری قیادت بعض اہداف حاصل کرنے میں بہت واضح ہے اور وہ ان پر کسی قیمت پر مفاہمت نہیں کرے کرے گی۔ ان میں فوجی ڈسپلن کے علاوہ فوج کے احترام و وقار کا معاملہ بھی شامل ہے۔ حال ہی میں ایک تقریر میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ جو عناصر فوج اور عوام کے تعلق میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سانحہ 9 مئی بھی اسی لیے ناقابل معافی سمجھا جاتا ہے۔ اب ایک سابق اہم فوجی جنرل پر اگر ایسے ہی الزامات عائد ہوتے ہیں کہ سیاسی وابستگی یا کسی دوسری وجہ سے انہوں نے ملک میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی اور فوج کے وقار پر سمجھوتہ کیا تھا تو اس سے عمران خان سمیت سب سیاسی لیڈروں کی پوزیشن کمزور ہوگی جو یہ سمجھتے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات کو سیاسی دباؤ یا قومی مفاہمت کا نام لے کر نظر انداز کرنا ممکن ہے۔

فیض حمید کو ملنے والی سزا سے ہی یہ تعین ہوسکے گا کہ فوج نے درحقیقت مستقبل کے لیے کیا حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ اگر معاملہ محض ایک ہاؤسنگ سو سائیٹی کے معاملات میں مداخلت تک ہی محدود رہا تو شاید کارروائی کا اس کے سوا کوئی اثر نہ ہو کہ فوج کرپشن کو برداشت نہیں کرتی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ رائے بھی مستحکم ہوگی کہ موجوہ آرمی چیف نے ایک سابق جنر ل کو سزا دلوا کر اپنا’ انتقام ‘لینے کی کوشش کی ہے۔ جنرل فیض حمید موجودہ آرمی چیف سے جونئیر تھے اور نومبر 2022 میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے لیے جو نام وزیر اعظم کوبھیجے گئے تھے، ان میں فیض حمید کا نام بھی شامل تھا۔ البتہ قرعہ فال جنرل عاصم منیر کے نام نکلا۔ جونئیر جنرل کے طور پر فیض حمید کو اس تقرری پر اصولی یاروائیتی طور سے استعفیٰ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن انہوں نے دسمبر 2022 میں استعفی دے دیا تھا۔ اس استعفیٰ پر بھی یہی چہ میگوئیاں سامنے آئی تھیں کہ عمرا ن خان کا حامی ہونے کی وجہ سے انہوں نے فوج سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا ۔کورٹ مارشل کی صورت میں کسی سابق فوجی افسر سے رینک واپس لینے، سہولتیں ختم کرنے یا قید و موت کی سزا دینے کا حکم دیا جاسکتا ہے۔ ایسی کسی سزا پر آرمی چیف حتمی حکم جاری کرتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل کے ذریعے دیے گئے اشاروں سے پاک فوج کے اندرونی نظام کے علاوہ ملکی سیاست کا رخ متعین ہوسکتا ہے۔

بشکریہ کاروان نیوز ناروے
واپس کریں