دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دو نکاتی سوال نامہ
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
پاکستان کے گمبھیر مسائل کے بارے میں دو ہی سوال ہیں۔ سوال دونوں آسان ہیں ۔ البتہ ان کا جواب دینا اتنا آسان نہیں۔ کیوں کہ جن لوگوں کو ان سوالوں کا جواب دینا ہے، وہ سب کے سب اپنی اپنی انا ، ضرورتوں یا مفادات کی قید میں ہیں۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان سوالوں کے جواب تو ہزاروں ہیں لیکن کوئی انہیں تلاش کرنے کی جستجو نہیں کرنا چاہتا۔ خواہش یہی ہے کہ جیسے مسائل نے ہمیں گھیرا ہے، ویسے ہی ان کا حل بھی پاؤں پاؤں چل کر ہمارے پاس چلا آئے۔یہ خواہش قوموں کو زندہ رکھنے اور پھلنے پھولنے میں رکاوٹ بنتی ہے لیکن پاکستان کے ہر گلی کی نکڑ اور ہر محلے بازار میں ایسے چورن فروش موجود ہیں جو عوام کو یقین دلاتے رہتے ہیں کہ انہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس وہ کسی خاص عقیدے یا طریقے پر عمل کریں ، ان کے مسئلے وہی حل کرے گا جس نے انہیں اس مشکل میں ڈالا ہے۔ گویا مسئلہ تو ایک ہی ہلے میں ’حل ‘ کردیا گیا۔ نہ اپنی غلطیوں کا ادراک ، نہ راستہ کھوٹا ہونے کی خلش اور نہ یہ احساس ذمہ داری کہ غلط کاریوں کی وجہ سے جومعاملات خراب ہوئے ہیں، انہیں درست کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے جائیں۔ تاہم جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہاتھ پاؤں مارنے کا آغاز اسی وقت ہوسکتا ہے جب یہ احسا س پیدا ہو کہ جس راستے پر ہم بگٹٹ بھاگے چلے جارہے ہیں یہ تو منزل کی طرف جاتا ہی نہیں۔ اس کے آخر میں تو کھائی ہے۔ منزل کا نشان پانے کے لیے یہ تعین تو کرنا پڑے گا کہ ہم بطور قوم آخر چاہتے کیا ہیں؟

مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو بتایا تھا کہ وہ ایک ہزار برس کی مدت تک جن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہ رہے تھے۔ خوشی غمی کے ساتھی اور نسل در نسل ہاتھ پکڑ کر سہارا بن رہے تھے، وہ تو ہم سے بالکل مختلف ہیں۔ مسلمان تو علیحدہ عقیدہ کے حامل ایک الگ قوم ہیں۔ یہ اس وقت کا سیاسی بیانیہ تھا۔ تاہم اس کے درپردہ انگریزوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی تھی کہ ان کے آنے سے پہلے برصغیر میں جمہوریت نہیں تھی اور نہ ہی انگریز کسی جمہوری طریقے سے یہاں آکر حکمران بنا تھا۔ اب جب لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ عوام کے ووٹ سے ہوگا اور اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کرنے والے اکثریتی عقیدہ کے لوگ ہوں گے تو اقلیتی عقیدے والوں کی حق تلفی ہوگی۔ یہ ایک جائز اور سنجیدہ سوال تھا ۔ بدقسمتی سے یا تو مسلم لیگ مناسب طریقے سے اپنا مقدمہ ہندوؤں کی سیاسی جماعت کانگرس کے سامنے پیش نہیں کرسکی یا اس کا یہ مقصود ہی نہیں تھا کہ ان لوگوں سے بات کرلی جائے جن کے ساتھ عقیدے اور رہن سہن کے بعض اختلافات کے باوجود ہم سینکڑوں برسوں سے مل جل کر رہتے چلے آئے تھے۔ مسلم لیگ نے بدیسی حکمرانوں سے بات کرنا اور ان سے ہی مسئلہ کا حل طلب کرنا مناسب سمجھا۔ یہ مطالبہ برصغیر میں علیحدہ ملک کے قیام کی صورت میں سامنے آیا۔

مؤرخ اور سیاسی تجزیہ نگار اب سر کھپاتے ہیں کہ آخر ایسا کیا تھا کہ ایک بیرونی طاقت کے خلاف آزادی کی جد و جہد میں ایک ملک کے لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کی بجائے آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ ہر کوئی اپنی صوابدید اور تفہیم کے مطابق اس صورت حال میں ہیرو اور ولن تلاش کرلیتا ہے۔ کسی کے نزدیک کانگرس کی قیادت نام نہاد سیکولر تھی ۔ وہ درحقیقت انگریزوں کےجانے کے بعد مسلمانوں کو ’غلام‘ بنا کر ان سے پانچ سو سالہ حکمرانی کا انتقام لینا چاہتے تھے ۔ یہ تصور کرتے ہوئے البتہ یہ فراموش کردیا گیا کہ جب مسلمان حملہ آوروں نے ہندوستان میں حکومتیں قائم کی تھیں ، اس وقت حکمرانی کا کوئی دوسرا تصور متعارف نہیں تھا۔ طاقت ہی سب سے بڑا اور فیصلہ کن فیکٹر ٹھہرتا تھا۔ اس کے علاوہ علیحدگی کا مطالبہ کرتے ہوئے بالواسطہ ہی سہی، مسلم لیگی لیڈروں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ مسلمان حکمرانوں نے اقلیتی عقیدہ ہونے کے باوجود اکثریتی عقیدہ کی آبادی کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا۔ حالانکہ ہر دور کی تاریخ اس الزام کی تصدیق نہیں کرتی۔ بیشتر مسلمان حکمرانوں نے عقیدہ و مذہب کی تخصیص کے بغیر لوگوں کو مواقع بھی دیے، سہولت بھی فراہم کی یا ان کے حقوق غصب کیے۔ یعنی وہی طریقہ اختیار کیا جو مطلق العنان حاکم اپناتے تھے۔ جب وہ ظلم کرنے پر آتا ہے تو وہ عقیدہ نہیں اپنی ضرورت دیکھتا ہے۔ مسلمان بادشاہوں کے ان ادوار میں اگر ظلم ہؤا تو اس کا نشانہ مسلمان بھی ویسے ہی بنتے رہے جیسا کہ ہندو آبادی یا کسی دوسرے عقیدے کے ماننے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائیندگی کرنے والوں نے بنیادی طور سے مسلمان اقلیت کے معاشی حقوق کی ضمانت اور سیاسی پوزیشن کی حفاظت کو پیش نظر رکھا تھا۔ ہندوؤں کے لیڈر مسلمانوں کے اس عدم تحفظ کو محسوس کرنے میں ناکام رہے۔ یا شاید مسلمانوں میں کسی نہ کسی سطح پر ماضی کی حکمرانی کے سبب احساس جرم بھی موجود ہو کہ انہوں نے ایسا کوئی پلیٹ فارم تلاش کرنے کی اتنی ہی شدت سے کوشش نہیں کی جتنی قوت سے انہوں نے ایک خطہ، دو ممالک کا مطالبہ پیش کرنے اور منوانے کی جد و جہد کی۔ گو کہ جناح نے مسلمانوں کو علیحدہ قوم ثابت کرنے میں ہر دلیل استعمال کی اور زور بیان صرف کیا لیکن پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے 11 اگست 1947 کو نئی مملکت کے آئین کا جو خاکہ پیش کیا، اس میں عقیدے کی بنیاد پر تقسیم، نفرت اور تعصب کی بجائے مل جل کر کام کرنے اور عقیدے کو سیاسی امور سے دور رکھنے کا سنہری اصول پیش کیا۔ اس تقریر میں بانی پاکستان کا کہنا تھا کہ اب عقیدہ ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے، آج کے بعد ہم سب پاکستانی بن کر ایک ملک تعمیر کریں گے۔

یہ نظریہ، قیام پاکستان کی جد و جہد کے دوران پیش کیے گئے دلائل سے بظاہر مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ حتی کہ قائد اعظم کے قریب ترین ساتھیوں کے لیے بھی اس ’ تضاد بیانی‘ کو ہضم کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس موقع سیاسی جد و جہد کی ضرورتوں اور امور ریاست کے لیے درکار عمل پسندی کے تقاضوں کا فرق واضح نہیں کیا جاسکا۔سمجھنے سمجھانے کا مرحلہ تو بعد میں آتا۔ محمد علی جناح کو زندگی نے زیادہ مہلت نہیں دی کہ وہ اس فرق کو صراحت سے پیش کرکے نئی مملک کی راہ متعین کرنے میں رہنمائی کرسکتے۔ ادھر 11 ستمبر1948 کو ان کی آنکھ بند ہوئی ، ادھر دو قومی نظریہ کو ریاستی منشور کے طور پر پیش کرنے کی مہم جوئی پورے زور سے شروع ہوگئی۔ جناح کے انتقال کے ٹھیک 6 ماہ بعد 12 مارچ 1949 کو دستور ساز اسمبلی میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی پیش کی ہوئی ’قرار داد مقاصد‘ تمام اقلیتی ارکان کے شدید احتجاج کے باوجود منظور کرلی گئی۔ قرار داد کی رو سے’ اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔ مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں‘۔

اب ’ہندو بھارت‘ کے مقابلے میں مسلمانوں کا پاکستان پورے طمطراق سے وجود میں آچکا تھا۔ مفاد پرست بیورو کریسی نے روز اول سے اس ’نظریاتی مملکت‘ کی حفاظت کا ایسا بیڑا اٹھایا کہ وہ ایک بار دو لخت ہونے کے بعد اب مزید ٹوٹ پھوٹ سے بچنے کی خواہش و کوشش میں مصروف ہے۔ سیاست امکانات کا کھیل ہے۔ اس عمل میں امکانات کے لیے مواقع پیدا کیے جاتے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اس میں دلیل، حجت اور وسیع تر ضرورتوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ لیکن یہ سارے اصول عمومی ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں۔ نظریاتی ریاستوں کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ لہذا جوں جوں پاکستان کو نظریاتی ریاست بنانے ، کہنے اور قرار دینے پر اصرار ہؤا توں توں یہاں جمہوریت غیر ضروری محسوس ہونے لگی۔ آج تک محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ہر آنے والی حکومت نہ مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے پر آمادہ ہوتی ہے اور نہ ہی اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ دکھایا جاتا ہے۔ بلکہ منظر نامہ میں تبدیلی و آزادی کے نعرے لگانے والے جتنے عناصر بھی سرگرم دکھائی دیتے ہیں ،وہ درحقیقت اپنے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں تاکہ وقت آنے پر مخالفین کا قافیہ تنگ کرسکیں۔

اب اس مشکل سے کیسے نکلا جائے۔ یہ مشکل دو سوالوں میں بیان کی جاسکتی ہے۔ ایک: ملک کو کیسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے؟ دوئم: یہ کام کون کرسکتاہے؟ سوال سادہ اور آسان ہیں۔ ان کا حل مگر پیچیدہ اور صبر آزما ہوسکتا ہے ۔ لیکن ملک کو جو قائدین نصیب ہوئے ہیں، عوام کی سہولت کے لیے انہوں نے اسے آسان کردیا ہے۔ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ’ پاکستان کو میں ٹھیک کرسکتا ہوں۔ مجھے اقتدار دے دیا جائے‘۔ بس مسئلہ صرف اتنا ہے کہ اس ایک جواب کا پرچم درجنوں لیڈروں نے اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے۔ معاملہ اگر لیڈروں سے عوام کی سطح تک لایا جائے تو یہ تعداد لاکھوں یا کروڑوں میں بھی ہوسکتی ہے۔جس ریاست میں مل جل کر مسائل سمجھنے اور انہیں حل کرنے کا رویہ ترک کردیا گیا ہے، اس انوکھی ریاست کا نام پاکستان ہے۔ کہتے ہیں کہ ملک کا آئین جمہوری نظام کا تقاضہ کرتا ہے اور ملک میں ایک منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے امور حکومت انجام دئے جارہے ہیں۔


بشکریہ کاروان ناروے
واپس کریں