دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آرکائیوز۔ ماضی اور مستقبل کے درمیان مقناطیسی کشش
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے

آثار قدیمہ کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لیے کام کرنے والی کراچی کی ایک غیر سرکاری تنظیم " نمائش " کے زیر اہتمام 10 اگست 2024ء کو کراچی کے تاریخی فریئر ہال میں بعنوان " آرکائیوز کے ذریعے ماضی کی بحالی " سیمینار منعقد ہوا، جس میں ماہرین نے اپنی رائے اور مقالے پڑھنے کے علاوہ ملٹی میڈیا پر پریزینٹیشن بھی دی۔ راقم کو بھی اس سیمینار میں ابتدائی خطیب کے طور پر موضوع پر گفتگو کے لیے بلایا گیا تھا۔ نمائش کی روح رواں، پروفیسر ڈاکٹر دریہ قاضی کا شکریہ کہ انہوں نے پاکستان کے بڑے شہر کی تاریخ، ہیریٹیج اور آرکائیوز پر گفتگو کے لیے ناچیز کو کی اسپیکر کے طور پر مدعو کیا اور حاضرین کا بھی شکریہ کہ انہوں نے میری گفتگو بلکہ پڑھنت کو توجہ سے سنا اور بعد ازاں وفقہ کے دوران اس موضوع پر سوال و جواب اور میرے آراء سے اتفاق بھی کیا۔مقالہ جو میں نے اس نشست میں پڑھا دوستوں کے لیے پیش ہے تاکہ اس پر تبصرہ و گفتگو خاص طور پر نقاد دوستوں کے لیے کہ اس میں اصلاح ہو۔

معزز خواتین و حضرات !
آرکائیوز کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس قومی زبان میں بہتر لفظ "دفتر خانہ" یا " محافظ خانہ"ہے، جس کا مفہوم، پرانی اور نایاب دستاویزات، کتابیں، مخطوطے، پمفلٹ، اخبارات و رسائل ، نقشے اور وہ سارا مواد جس کا تعلق سماجی ارتقائی تاریخی سفر اور اس ادوار کے سماجی و معاشرتی تعلقات کی مختلف جہتوں کو محفوظ کرنا ہے۔ جو دراصل ماضی اور مستقبل کو جوڑنے کی مقناطیسی کشش ہے۔
گویا اطلاعات و معلومات کا کوئی وسیع ذخیرہ، دفتر خانہ یا محافظ خانہ ہوا، زبان زد عام میں آرکائیوز کہلاتا ہے جو انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ چوں کہ ہم 77 سال سے ایسی اشرافیہ کے زیر اثر ہیں، جو خطے پر تقریباً تین سو سال کے طویل کلونیل اقتدار نے پیدا کی۔۔۔ آزادی کے بعد معاشرے پر اس کے اثرات میں کمی کے بجائے خاصا اضافہ ہوا۔ اس کا رہن سہن اور زبان انگریزوں کی نقال اور اسی پر اس کو فخر ہے۔۔۔ ہم عام آدمی اسی کے سحر میں گرفتار ہیں۔ لہذا فی زمانہ یہ زیادہ بہتر ہے کہ آج ہم دفتر خانہ یا محافظ خانہ کے بجائے آرکائیوز کی اہمت اور افادیت پر بات کریں۔حالاں کہ یہ سچ ہے کہ قومی زبان کی بے توقیری اور ماضی کے قابضین کی زبان سے چمٹے رہنے سے ہم 77 سال گزرنے کے باوجود آزادی کی لذتوں سے محظوظ نہیں ہو سکے۔ نہ عام آدمی کو انصاف مل رہا ہے نہ بنیادی حقوق۔ غیر ملکی زبان سے عدم واقفیت کے باعث عام آدمی ابھی تک آرکائیوز جیسی ضروری اور لازمی سہولت کی افادیت کو ہی نہیں سمجھ سکا تو وہ حکومت یا صاحب اختیار سے اس کی حفاظت اور مضبوطی کا مطالبہ کیا کرے گا۔

خواتین و حضرات!
یہ عوام کا حق ہے کہ اس کو ایک ہی چھت کے نیچے ماضی حال اور مستقبل کی وہ تمام معلومات میسر آئیں جو اس کی ضرورت ہوں۔ آج کی معزز دنیا میں آرکائیوز کا قیام فیشن نہیں ضرورت بن چکا۔ ماضی کو محفوظ رکھنے اور آنے والی نسلوں کو درست معلومات فراہم کرنے کا اس سے بہتر کوئی دوسرا ذریعہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک نے آرکائیوز کے قیام پر خصوصی توجہ دی۔ سرمایہ دار اور امیر ممالک نے ان میں جدت لائی، اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ۔۔۔تاکہ ریکارڈ خواہ مطبوعہ ہو یا غیر مطبوعہ محفوظ کرنے کی تمام جدید سہولتوں کی دستیابی ممکن ہو سکے۔ اس ریکارڈ کی حفاظت اس لے بھی ضروری ہے کہ آنے والی نسلوں کے لیے تحقیق کا سامان و خزانہ موجود اور محفوظ رہے۔ وہ محقق جو بنیادی ماخذ کی تلاش میں رہتے ہیں ان کے لیے آرکائیوز بہترین حوالہ جات کا بمبا ہے۔ جب کہ اور بھی بے شمار مسائل ہیں جن کے حل میں ان آرکائیوز میں محفوظ کی گئی دستاویزات بہت سود مند ثابت ہو سکتی ہیں۔ اسی باعث دنیا میں قائم بہت سے آرکائیوز کو عالمی شہرت حاصل ہو چکی۔ لندن میں واقع ’انڈیا آفس لائبریری، علم و معلومات کا بہت بڑا خزانہ ہے۔ کیلیفورنیا میں قائم پارٹیشن آرکائیو 1947ء مرگ انبوہ سے متعلق بہت سے واقعات اورہیروشیما پیس میموریل سے متاثر ہو کر عمل میں لایا گیا، جہاں برصغیرکی آزادی اور تقسیم کے دوران ہونے والے سچے واقعات کو محفوظ کیا گیا ہے۔ اسٹونین لوک داستان آرکائیوز، میں لوگ داستانوں کا ریکارڈ محفوظ کیا جا رہا ہے اور سان فرانسسکو میں انٹرنیٹ آرکائیوز جس کا اعلان ہے "ذخیرہ علم تک دنیا کی رسائی۔ ڈیجیٹل کتب خانہ ہے۔ یہ آرکائیوز دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کے مرکز بن چکے۔

خواتین و حضرات!
پاکستان میں تاریخ،ثقافت کے ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے لیے1951ء میں ادارے کا قیام عمل میں آیا اور وہی ادارہ ترقی کرتے ہوئے آج نیشنل آرکائیوز آف پاکستان بن چکا۔ انتظامیہ کا دعوی ہے کہ نیشنل آرکائیوز، لاکھوں نادر کتابوں، اخبارات اور جرائد کی صورت میں تاریخ کا بیش قیمت خزانہ اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ سندھ آرکائیوز انگریزوں کے قائم کردہ آرکائیوز کا ہی تسلسل ہے، جو آرکائیوز کا غیر معمولی ذوق رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہاں سرکاری کاغذات اور دستاویزات خاص طور پر گزٹ اور محکمہ مال کا ریکارڈ محفوظ کرنے کا نظام واضح کیا تھا۔ جس سے آنے والوں کو بڑی سہولت حاصل ہوئی۔۔۔سندھ آرکائیوز جب سے کلفٹن کی نئی عمارت میں منتقل کیا گیا کچھ نیا بھی ہو گیا اور کام میں بھی تیزی آئی ہے۔ اسی باعث ان کا دعوی ہے کہ یہاں تاریخی معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔۔۔ جن میں 13مارچ 1843 کا وہ گزٹ نوٹیفیکشن بھی شامل ہے ۔۔۔جس میں میجر جنرل چارلس نیپئر کو سندھ کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔۔۔۔۔ اسی گزٹ کے ذریعے برطانوی پارلیمنٹ کے قوانین بھی سندھ میں نافذ کیے گئے۔ اس کے بعد سندھ باضابطہ طور پر برطانیہ کی کالونی بن گیا۔
لیکن پاکستان میں یہ روایت بھی رہی ہے کہ سچ کو عوام تک نہ پہنچنے دیا جائے ۔۔۔اس لیے حقیقت پر مبنی تاریخ کی ترتیب و حفاظت اور زبان و ثقافت سمیت اہم ترین واقعات، خاص طور پر وہ جو حکومت کے اپنے مفاد میں نہ ہوں ان کو من و عن محفوظ رکھنے میں سرکار کا اخلاص مشکوک ہے۔۔۔ لہذا جن معاشروں میں سچ کے بجائے، نظریہ ضرورت اور حقیقت کے بجائے مصلحت کاری غالب رہے، وہاں کی تاریخ اور آرکائیوز بہترین ہی کیوں نہ ہو، لوگ کیسے یقین کریں کہ یہاں سچ ملے گا۔
معزز حاضرین !
انگریزوں کے دور حکومت کو ہم دور غلامی کے دور کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن اس کا دوسرا پہلو دیکھیں تو ان کی آمد سے قبل اس خطے اور خاص طور پر کراچی میں، انسانی زندگی کی آسائش اور ترقی کے حوالے سے ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جو قابل ذکر ہو۔۔۔ یا جو ہمارے آرکائیوز میں اضافے کا باعث بنے۔۔۔ سوائے کھارا در اور میٹھا در کے درمیان قلعہ کے جو کراچی آنے والے پہلے مہاجر بھوجومل نے 1729 میں تعمیر کرایا تھا۔ 1813 کی مردم شماری کے مطابق اس قلعہ کے اندر 3250 مکانات تھے۔یہ قلعہ جیسا بھی تھا، کراچی کا بطور شہر آغاز اس دیوار کے اندر آباد ہونے والوں سے ہوا، جو انگریزوں کے آنے تک بوسیدہ ہو کر اس کی بیرونی دیوار طبعی عمر پوری کر چکی تھی ۔۔۔دوا دارو نہ ہونے کے باعث لاغر بھی تھی ، جسے جدید شہر کی تعمیرات کی شروعات میں انگریزوں نے دفن کر دیا۔۔۔ لیکن ہمیں اس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتی کہ وہ کیسا شہر تھا سوائے چند چیزوں کے۔۔۔ تلاش کیا جائے تو ضرور کئی نہ کئی کچھ مل ہی سکتا ہے کہ وہ شہر کیسا تھا اس کی گلیاں کیسی تھیں اور اس کے گھر کیسے تھے۔

3 نومبر 1839 کو اس خطے پر انگریزوں کا باضابطہ قبضہ ہوا۔۔ 1947 تک 108 سالہ حکومت کے دوران انہوں نے کچھ کام بھی کئے یا جس ویران ریگستان میں آئے تھے ویسے ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ خاص طور پر پرانہ کراچی جو برباد ہونے کے باوجود آج بھی آثار قدیمہ کا بہترین نمونہ نظر آتا ہے۔۔۔ اس کا آرکائیوز کہاں ہے۔ یہ سوال محقق ہی نہیں ہر ذی شعور فرد کا ہو سکتا ہے جو اپنی مٹی سے محبت کرتا ہو اور اس کی سنہری تاریخ کو محفوظ کرنے کا خواہش مند بھی ہو۔۔۔ لیکن افسوس کہ اس حوالے سے ہمیں کوئی بھی چیز یکجا نہیں ملتی اس کی کوئی امید بھی نہیں کہ اس پر کوئی کام ہوگا۔ ۔۔ان تاریخی عمارتوں کو جس طرح توڑ توڑ کر ٹاور کھڑے کئے جارہے ہیں وہ وقت جلد آئے گا کہ ان کا نام و نشان بھی نہیں ہوگا۔۔۔جب ہمارے پاس اس کا آرکائیوز بھی نہیں ہوگا تو پھر کراچی کی تاریخ آہستہ آہستہ دفن ہوجائے گی۔ 1843ء جب سندھ کا دارالحکومت منتقل ہوا تو اس سے قبل ایک نوجوان انگریز فوجی افسر مسٹر رچرڈ برٹن نے اس کا سندھ کے دارالحکومت کے لیے انتخاب کیا۔ پھر چارلس نیپئر نے اس فوجی افسر کے انتخاب کی منظوری دی ۔۔۔اور جدید کراچی کی پہلی اینٹ رکھی۔ اس کے بعد شہر وسیع ہوتا گیا۔۔۔1947 تک ایک خوبصورت شہر بن چکا تھا۔۔۔ان چیزوں کی پہل کیسے اور کس نے کی اس نوعیت کی تاریخ معلومات اس شہر کے باسیوں اور اس پر تحقیق کرنے والوں کو مہیا ہونا ان کا حق ہے، لیکن دستیاب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی پر جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں یا تو وہ کسی فرد واحد کی یادشتیں ہیں یا سطحی معلومات ہے وہ مکمل معلومات یا آرکائیوز پر پورا نہیں اترتی۔

خواتین و حضرات!
دنیا بھر میں بلدیاتی ادارے تیسرے درجے کی حکومت اورکسی بھی ملک و قوم کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ اہم ہیں، جو شہروں کی دیکھ بھال اور مرمت سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ذمہ دار ہیں ۔۔۔اور یہ ریکارڈ کو محفوظ رکھنا بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ لیکن بلدیہ کراچی کے پاس اس کا کوئی مناسب انتظام نہیں۔ ایسا ادارہ کیا خدمات انجام دے سکتا ہے جو اپنے ہی ملازمین کا مبینہ طور پر 12 ارب روپے کا مقروض ہو اور ان کو وہ رقم واپس کرنے کی سکت بھی نہ رکھتا ہو۔۔۔ حالاں کہ بلدیہ کراچی اس شہر کی ماں ہے اس شہر میں جو بھی شہری ادارہ یا سہولت موجود ہے ۔۔۔وہ بلدیہ کراچی ہی سے تخلیق ہوئی۔ 1846ءمیں اس کے پہلے تین ممبر بھوجومل کے صاحبزادے، ناومل ہوت چند،۔۔ مسٹر پریڈی کلکٹر کراچی اور مسٹر جان میکلوڈ کلکٹر کسٹم اور ان کا چئیرمین چارلس نیپئر بلدیہ کراچی کی پہلی انتظامیہ ہے۔ اس کے بعد کا سو سال کا سفر اور اس دوران بلدیہ کے قدم بہ قدم تاریخ بکھری پڑی ہے اور اس تاریخ کے مخطوطات ہی دراصل کراچی کے آرکائیوز کا بہترین خزانہ ہیں جو درست تاریخ اور سال کے ساتھ کسی ایک جگہ محفوظ ہونا چاہیے۔۔۔ بلدیہ کراچی کو چوں کہ مفلوج کر دیا گیا ہے اور اس کی بحالی کے لئے شہریوں یا سول سوسائٹی کا کوئی ایسا مطالبہ بھی نہیں لہذا کسی بہتری کی امید بجی نہیں کی جا سکتی ۔ اگر 1935ء میونسپل ایکٹ کے تحت ہی بلدیہ کراچی کو اختیار دے دئیے جائیں تو تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ فرزند شہر کی ذمہ داری کی انجام دہی کے طور پر میں نے اپنی سی کوشش کی اس کے نتیجے میں " بلدیہ کراچی سال بہ سال " سامنے آئی۔ میرا ہرگز یہ دعوی نہیں کہ یہ کتاب کراچی کا کل آرکائیوز ہے، لیکن یہ کتاب بلدیہ کراچی اور شہر کے دستیاب مخطوطات کا مجموعہ ہے۔۔۔ جب کہ اس کا دوسرا حصہ آپ کے لیے اور بھی دلچسپ ہو گا جس میں میرا آنکھوں دیکھا ، کانوں سنا حال تحریر ہو گا جس کے حرف بہ حرف سچ ہونے کی پوری ضمانت بھی ہو گی اور گواہی بھی۔

بلدیہ کراچی سال بہ سال میں کراچی کی اس نایاب آرکائیوز کو جمع کرنے کے حوالے سے ایک ادنا سی کوشش ہے، جو 15 سال کے دوران بلدیہ کراچی کی عمارت کے میناروں اور کونے کُھدروں میں پڑھے پرانے بورں میں ڈھونسے کاغذات کی ردی سے بڑی عرق ریزی سے حاصل کی گئی۔ مختلف ادوار میں 30 ناموں سے پکارے جانے والے اس خطہ زمین کو "کراچی " کا نام کب دیا گیا اور کب ہوا اس کا عالم میں انتخاب۔ برصغیر کا بہترین اور صاف ستھرے شہر سے ملکہ مشرق تک اور یہ خطاب پہلی بار کس نے اور کیوں دیا، صاف ستھرے شہر کے کتنے ایوارڈ اس بلدیہ نے جیتے وہ کون تھا جس نے کہا تھا کراچی تو ملکہ مشرق ہو گی لیکن معلوم نہیں میں ہوں گا کہ نہیں۔ کون تھا وہ کراچی کے شہریوں کے غم میں جس کے سر کے بال ایک رات میں کالے سے سفید ہو گئے اور وہ کون تھا، جس نے دریا لیاری کا رخ بدل کر ، گارڈن سے لی مارکیٹ اور وہاں سے کیماڑی جماعت خانہ تک ایک شہر آباد کیا۔ وہ بھی اسی کراچی کا حاکم تھا زخمی گدھا نظر آیا تو اسے اسپتال میں داخل کرنے خود چلا گیا۔ اس کتاب میں ملے گا۔۔۔

خواتین و حضرات!
ہم نے سڑکوں، محلوں اور عمارتوں کے نام تبدیل کر کے تاریخ کو تبدیل کردیا اور بھی بہت ساری تاریخ تبدیل ہوئی، جب تاریخ ہی بدل جائے اس کا آرکائیوز کیسے اصل رہ سکتا ہے۔ بندر روڈ سے آپ گزرتے ہوں گے۔ دو رویہ سڑک جامع کلاتھ کے کونے پر یک رویہ کیوں ہو جاتی ہے۔۔۔ یہ بھی ایک معمہ ہے۔ انجینئر کو کہا گیا کہ تم نے بلا ضرورت سڑک کو اتنا چوڑا کر کے میونسپلٹی کے وسائل کو ضائع کیا۔ اس نے جواب دیا " میں ڈیڑھ سو سال کے لیے منصوبہ بندی کر رہا ہوں " ملازمت چھوڑ دی مگر سڑک کی چوڑائی پر سودے بازی نہیں کی۔ وہ سڑک وہاں ہی رک گئی جہاں وہ انجینئر چھوڑ کر گیا تھا۔۔ اس کی تفصیل تو آج کے شہری کو ملنا چاہیے۔ بلکہ اس جگہ اس انجینئر کا بورڈ لگنا چاہئے دو سو سال پہلے ہمارے لیے سوچا تھا۔ اس کے ویژن کے مطابق آج ہم یہ سہولت استعمال کر رہے ہیں۔ کراچی کے ہندو اور پارسی تاجروں نے صحت اور تعلیم کی عمارتیں تعمیر کر کے بلدیہ کے حوالے کیں بلدیہ کراچی نے ان کے دروازے شہریوں کے لیے کھول دئے۔ اس کا ریکارڈ تو ہونا چاہیے۔ ٹاور سے جمشید گوارٹر تک انگریزوں کے تعمیر کردہ 8 کوارٹر کی عمارتوں اور گلیوں سمیت مکمل معلومات، دیکھنا شہریوں کا حق ہے جو آج کسی جگہ محفوظ نہیں۔۔ ۔ اس میں حکومت تو بالکل سنجیدہ نہیں کہ کراچی کی تاریخ آرکائیوز اور ہیریٹیج کو بحال اور محفوظ کیا جائے تاہم آج سیمینار کے تواسط سے، ایک قرار داد منظور کی جائے جس کی روشنی میں سول سوسائٹی کا ایک وفد مئیر کراچی اور حکام بالا سے ملاقات کر کے اس صورت حال سے آگاہ کرے اور جو لوگ تاریخ، آرکائیوز اور ہیریٹیج پر پہلے سے کام کر رہے ہیں،پریشر گروپ کے ساتھ ساتھ وہ رضاکارانہ خدمات پیش کریں تو، بلدیہ کراچی کے مختلف دفاتر کی پرانی اور بوسیدہ فائلوں اور پرانی عمارتوں کی دیواروں پر ابھی بھی بہت کچھ مل سکتا ہے۔ جو ضائع ہونے کے دھانے پر ہے۔اگر اس میں کامیابی ہوتی ہے تو یہ کراچی کے آرکائیوز کو محفوظ کرنے کی ایک بہترین کوشش ہو گی۔۔ بصورت دیگر بلڈر یہ پرانی عمارتیں بھی گرا کر پلازے تعمیر کر دیں گئے تو کراچی کے پاس کنکریٹ کے جنگل کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔۔۔بہت بہت شکریہ۔۔
واپس کریں