آزاد کشمیر کا معاشرہ غریب اور امیر میں تقسیم ہو چکا ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
(1)
بچپن کی یادیں تازہ کرنے کے لیے دس روز دیہات میں گزارے لیکن دیہاتوں والی بات اور رسم و رواج اب دیہاتوں میں بھی نہیں رہے۔ لہذا تھوڑی بہت تبدیلی کے علاوہ شہروں اور دیہاتوں میں اب کوئ زیادہ فرق نہیں رہا۔ آزاد جموں و کشمیر اور خاص طور پر پونچھ ریجن کا معاشرہ صدیوں قبائلی اور روایتی رہا۔ یہی روایات یہاں کے مکینوں کو کٹھن اور سخت مسائل کے باوجود زندگی گزارنے میں مدد اور آسانیاں دیتی تھیں۔ 50 سال پہلے تک جب ہمارا لڑکپن اور یہاں رہتے تھے، تمام لوگ مالی و سماجی طور پر مساوی تھے۔ نہ کوئی امیر نہ کوئی غریب سب برابر تھے اور سب کا اسٹیٹس ایک جیسا ہوتا، سوائے اکھا دکھا کسی نمبردار یا ڈوگرہ کے نوازے ہوئے جاگیر دار کے جن کے گھر باقی گھروں سے بڑے، قدر صاف ستھرے اور اور ان گھروں میں مفت کے نوکر چاکر ہوتے جو دو وقت کی روٹی پر بہت ساری مشقت بھی کرتے اور وقت بے وقت کی جھڑکیں اور ڈانٹ ڈپٹ بھی سنتے۔ کبھی کبھار روٹی بھی اپنے رومال سے نکال کر کھاتے جو صبح سویرے گھر سے نکلتے ہوئے گھر والوں نے باند کر دی ہوئی ہوتی۔ چادر کے کونے یا رومال میں سوکھی روٹی اور گڑ یا پیاز کی گانٹھ باند کر سفر پر نکلنا عام رواج تھا۔ جو سفر کے دوران لینچ کے کام آتی۔ دو چار آنے کس امیر کے پاس تھے جو ہوٹل کے کھانے کی عیاشیوں پر خرچ کرتا۔ اس زمانے میں چھ پیسے کا ایک انڈا تھا اور دس پیسے کا چائے کا کپ، ہمارے ایک اسکول ٹیچر جو دور دراز کا تھا، کا قیام اسکول میں ہی ہوتا۔ وہ اکثر انڈے خریدتا جس کو ناشتے اور لینچ ڈنر کے لیے استعمال کرتا۔ اسکول کے پاس چچا سعید عالم کی ہٹی تھی گاوں والے چچا سعید عالم کی ہٹی پر چھ پیسے میں انڈا فروخت کرتے اور چچا سعید عالم دو آنے میں بھیجتا۔ استاد محترم نے ایجنٹ کے ذریعے دس پیسے میں براہ راست خریداری شروع کی تو گاوں میں گہرام مچ گیا کہ ٹیچر مہنگائی کا طوفان لے آیا جب کہ وہ بیچارا تو دو پیسے بچانے کے لیے کوشاں تھا۔ ایسی فضا بنی کہ تمام گاوں والوں کو متنبہ کیا گیا کہ وہ، مہنگے انڈے بیچ کر معاشرے میں کساد بازاری کو فروغ نہ دیں۔ بعد میں سنا کہ حکام بالا کو دس روپے رشوت دے کر اس نے گھر کے قریب کسی اسکول میں تبالہ کرا لیا۔ استاد بہت لائق فائق اور پوری آٹھ جماعتیں پاس تھا، گاوں کے بڑوں اور سیانوں نے بڑی کوشش کی کہ ٹکا رہے لیکن اس کا کہنا تھا کہ وہ انڈا مافیا سے بہت تنگ ہے۔ اس زمانے میں دودھ، سبزیاں اور فروٹ وغیرہ فروخت کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لہذا سارے وسائل جاگیرداروں کے قبضے میں تھے۔یہ جاگیردار اور نمبردار دراصل ڈوگرہ حکمرانوں کی روایات کو زندہ رکھے ہوئے تھے جو رعایا سے بیگار اور ہفتوں مفت میں کام لیتے اور بعض اوقات وقت پر کھانا بھی نہ دیتے۔ اس مشقت کے لیے جاگیرداروں نے علاقے میں کچھ مخصوص گھر بسائے ہوتے، جو اقلیتی کنبہ یا جاگیرداروں کے مزارع کہلاتے۔ خانہ بدوشوں کی طرح رہتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ معاشرے کا اہم حصہ بن گئے اور زندگی کی گاڑی کا ایندھن بھی۔ یہ لوگ گاوں کےہنر مند کہلانے لگے، جیسے لوہار، و ترکھان ، نجار و بڑھئی، موچی اور نائی وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہنر مند دیہی زندگی کی جان ہوتے، لیکن اکثریتی برادری ان کو اچھوت ہی سمجھتی جن کو برابر بیٹھنے کا استحقاق نہ تھا۔ ان سب کا مرکز و محور کیسان ہی تھا، جو مٹی کو سونا بنانے کی صلاحیت اور طاقت رکھتا۔ جو بنجر زمین کو اپنی محنت و بہترین ہنر سے لہلہاتے کھیتوں میں بدلتا۔ جو اس زمین سے چاول پیدا کرتا جس کی خوش بو چار سو پھیل جاتی۔ جو سرسوں اگاتا جس کے پیلے پھولوں سے دھرتی مہک اٹھتی۔ جو گندم اگاتا جس کے ہر خوشہ سے سونے کی لڑیاں لٹک رہی ہوتی اور وہ کیسان اسی زمین سے مکئی پیدا کرتا جس کو کاٹتے مٹیاریں روایتی گیت گاتی اور چھپن چھپائی کھیلتی۔ فصل کٹائی کی خوشی و روایتی کھیل اور اس دوران گیت گانا، جموں و کشمیر کی پرانی روایت ہے۔ حبا خاتون اسی شغل میں مصروف تھی تو بادشاہ کشمیر یوسف شاہ چک کو اس کی یہ ادا، شاعری اور ترنم پسند آیا جو ملکہ بنانے پر باضد ہوا تھا۔ یہ حبا خاتون کا فن ثقافت تھا کہ بادشاہ وقت کی ضد پوری ہوئی اور ایک دیہاتن ملکہ عالیہ بنی۔ کشمیر کے کیسانوں کی زندگی بہت کھٹن ضرور ہوتی تھی لیکن زمین کو سنوارنے سجھانے میں انہیں ملکہ حاصل تھی۔ وہ کھیتی باڑی اور گلہ بانی کرتے تو دیگر پیشے چلتے اور خلق خدا آسودہ حال ہوتی۔ کھیتی باڑی صرف ذریعہ معاش ہی نہیں ہماری ثقافت اور تہذیب بھی تھی۔ موسم بہار میں جب کیسان بیلوں کی جوڑی کے ساتھ زمین میں ہل چلاتا تو اس کا منظر ہی مختلف ہوتا۔ بیلوں کے گلوں میں رنگ برنگے دھاگوں کے پٹوں میں پڑی ٹلیوں کی ٹن ٹن کی آواز ماحول میں سحر پیدا کر دیتی۔ اسی لمحے کیسان کے لیے کوئی خاتون خانہ، مکئی کی روٹی، پودینے کی چٹنی اور لسی لاتی تو کیسان ہل زمین میں گہرا ٹھونکتا تو بیل سمجھ جاتے کہ ہمیں اب کھڑا ہونا ہے۔ کیسان کی یہ خوراک شاہی دستر خواں پر پھیلی انواح و اقسام کے کھانوں اور مشروبات سے زیادہ لذیذ ہوتی کہ یہ خون پسینے کی کمائی کی لذت تھی اور اس کی تیاری میں اس کی بہن، بیٹی، بیگم یا ماں کا پاکیزہ پسینہ بھی شامل ہوتا۔ مجھے اپنا بچپن بہت یاد آتا ہے، اور یہ منظر میری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔ اس مرتبہ میں نے آزاد کشمیر میں زیادہ وقت گاوں میں گزارا اور انہی جگہوں پر گھومتا رہا جہاں میرے بابا ہل چلاتے ہوتے تھے۔ کبھی کبھار ہم بھی ان کے ساتھ رہتے۔ ہم نے قربانی کے جانور بھی خاص اسی مقام پر ذبح کئے جہاں بابا اور دادا بیلوں کے ساتھ زمین کا سینہ چیرتے۔ منوں غلہ پیدا ہوتا اور درجنوں لوگ اسی پر زندہ رہتے۔ آج وہ کھیت ویران اور بنجر ہیں کوئی پھل دار درخت بھی نہیں لگاتا کہ پرندوں کو خوراک ہی مہیا ہو جائے۔ دیسی درخت ناپید اور پردیسی درختوں کی بہتات ہے جس سے کینسر اور دمہ سمیت مختلف موزی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ان زمینوں پر جہاں ہمارے ابواجداد سونا اکلواتے تھے بے مصرف ہیں۔ بزرگوں کے قدموں کے نشان بھی مٹ گئے، ٹنوں سمیٹ اور منوں لوہے میں کیا قدم باقی رہ جائیں گے کیا غلہ اگئے گا اور کیا گلہ چرے گا، سب کچھ بدل گیا۔ لوگ شہروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ معلوم نہیں اس کشمیر اور اس پار بڈ شاہ کا دور کب آئے گا، صنعتیں لگیں گی، روزگار عام ہو گا،تعصب، نفرت بنیاد پرستی ختم ہو گی، عوام اپنے سونے وطن میں پلٹ آئیں گے۔ چمن خزاں رسیدہ میں بہار کب آئے گی۔ اسی انتظار میں لاکھوں مر کھپ گئے ہم بھی چلے چائیں گے۔ دنیا امید پر کھڑی ہے اور امید ہی قوموں کو کھڑا کرتی ہے۔ 50 سال پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں خوش حال زندگی گزارنے کے بعد اسی امید پر دیہات میں پلٹنے کی سوجی ہے کہ چمن خزاں رسیدہ ہی سہی کچھ یاد ماضی سے لطف اٹھائیں اور کچھ اسباب نکالیں روایات و ثقافت کی بحالی کے۔ عزیز دوست اور ساتھی سردار قدیر خان کا اصرار ہے کہ ائرپورٹ پر لاشیں وصول کر کر کے تھک گئے، تم زندہ ہی آ جاو تاکہ دفنائیں اعزاز و اطمینان کے ساتھ۔ لیکن میرا کراچی مجھے چھوڑتا نہیں۔۔۔۔۔ قومیں جب اپنا کلچر، رہہن سہن بھول جاتی ہیں، اپنی تہذیب بھول جاتی ہیں، اپنی زبان بھول جاتی ہیں اور خاص طور پر ابواجداد کے رسم و رواج بھول جاتی ہیں تو زندہ نہیں رہ سکتی، ہجوم میں ضم ہو جاتی ہیں۔ کشمیری بھی پاکستان اور ہندوستان میں ضم ہونے کی خواہش میں اپنا سب کچھ بھول گئے کچھ بھی باقی نہیں رہا وادی کشمیر والوں نے بیرونی ثقافتی سیلاب کے سامنے مزاحمت اور بند باندھنے کی کوشش میں بہت نقصان اٹھایا، ایک لاکھ جوانوں کی شہادت، ایک لاکھ چوبیس ہزار بچوں کی یتیمی، چوبیس ہزار بیوہ اور آٹھ ہزار آدھی بیوہ، 13 ہزار بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بنی یہ کیا تھا صرف قومی تشخص بچانے کی کوشش، لیکن آزاد کشمیر کے عوام حتی کہ اعلی تعلیم یافتہ شہری بھی مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے مصائب کو نہیں جانتے، کوئی نہیں بولتا۔ فراق گورکھپوری نے کیا خوب کہا کہ! "
مذہب کی خرابی ہے نہ اخلاق کی پستی
دنیا کے مصائب کا سبب اور ہی کچھ ہے"
پیار اور محبت کے پیکر محترم قدیر خان صاحب نے اپنے گاوں کے اعلی شان محل نما گھر پر دوستوں کی ایک پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا۔ طہ پایا کہ اس دعوت میں چیدہ چیدہ ان لوگوں کو مدعو کیا جائے جو اعلی تعلیم یافتہ یا اعلی عہدوں پر فائز رہے ہوں۔ چنانچہ، آزاد جموں و کشمیر کے سابق بیوروکریٹ سردار شفیق خان، این ایس ایف کے سابق صدر سردار محمد انور خان، سابق طالب علم رہنماء سردار محمد اسحاق خان، پروفیسر محمد رشید خان، ریٹائرڈ صدر معلم سردار عثمان خان، راولاکوٹ انجمن تاجران کے رکن سردار محمد صدیق خان، سول سوسائٹی کے متحرک رکن ماسٹر سردار محمد اعظم خان خود میزبان اور ناچیز شامل ہوئے۔ موقع کی مناسبت سے میں نے اس ایوان میں اپنے ایجنڈے کو پیش کیا اور اس پر طویل لیکچر بھی دیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام پر ہونے والے تشدد اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر آزاد کشمیر کے عوام کیوں خاموش ہیں۔ اس پر کسی نے ایک بات کی نہ اس کے اسباب پر لب کشائی کی۔ دانش و حکمت کے لحاظ سے سب کی گفتگو میری باتوں سے معیاری اور اعلی تھی لیکن مقصد کی طرف کوئی نہیں آیا البتہ اس پر اتفاق ہوا کہ آزاد کشمیر کا موجودہ اسٹیٹس بحال رہنا چاہئے اس میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کو امید کی کرن نظر آتی ہے۔ سردار قدیر خان صاحب کا دستر خواں وسیع ہے اور دعا ہے کہ اس دستر خواں میں اضافہ ہی ہوتا رہے، ڈئنگ ٹیبل پر چکن و مٹن کے لذیذ پکوان دیکھتے ہی منہ میں پانی آ گیا اور سب ٹوٹ پڑھے لیکن دیسی سبزی کی لذت و لطافت سب پر بھاری تھی۔ ننی منی بچیوں کی میزبانی بھی متاثر کن تھی جو ٹیبل کے اطراف گھوم پھر کر خالی ڈشوں کو بھرنے کا کام اور چچوں ماموں کی شکم پروری کے ساتھ اس محفل کو موبائل کیمرے میں محفوظ بھی کرتی رئیں۔ 50 سال پہلے کے کشمیر کے دیہاتوں کی بات ہو رہی تھی، تو اس زمانے میں گاوں کی کھڈیاں معروف کاروبار تھا جو دراصل کھریلو صنعت تھی جو اب ناپید ہو چکی۔ جب گلہ رہا نہ بانی تو کھڈی کا کیا کرنا، صرف میوزیم کے سواء اور کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن میوزیم کی طرف بھی کوئی نہیں سوچتا۔ گھریلو صنعت کے یہ ہنر مند اب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دیس بدیس ہوئے، بقول شاعر،
"ہیں دیس بدیس ایک گزر اور بسر میں
بے آس کو کب چین ملا ہے کسی گھر میں "
کھڈی ہماری قدیم ثقافت کا آئینہ دار اور کپڑا اہم ترین ضرورت تھی، وہ ہی تن ڈھانپنے کا سبب بنتا اور اسی سے اوڑھنا بچھونا ہوتا۔ کشمیرکی کھڈیوں میں اس زمانے میں لوہیاں اور پٹو بنے جاتے تھے جن کا تانا پیٹا ماںیں کاتتی اور یہ مشق رات دیر تک جاری رہتی۔ اس زمانے میں روشنی کا بھی کوئی بندوبست نہ تھا، بیاڑ کے درخت کی تیلیاں( دیلیاں) بلب کا کام دیتی تھیں۔ کشمیر کے دیہاتوں میں ہی کیا آج کے مشینی دور میں کھڈی پر کپڑا بننے کی روایت ترقی یافتہ معاشرے میں بھی ختم ہوتی جا رہی ہے لیکن اس ہنر سے جڑے افراد یہ فن ہمیشہ زندہ رکھنے کیلئے کوشاں ہیں۔ میں نے آذربائیجان اور ترکیہ کی دیہی زندگی میں اس کو بحال ہوتے دیکھا تو اپنا بچپن اور ماں جی کی مشقت یاد آ گئی۔ جب وہ چرخہ کاتتنے کے دوران ہماری شرارتیں اور باتیں بھی سہتی اور چرخے کی مشقت بھی جاری رہتی۔ چرخے پر چلتے ماں جی کے ہاتھ، آدھی صدی کی یاد سموئے ہوئے ہیں جو روح کے ساتھ ہی نکلے گی۔ اس منفرد فن کو آج بھی زندہ رکھنے کی ضرورت ہے لیکن کنڈی کون کھولے، سب کچھ بدل گیا زمانہ بہت آگئیں نکل گیا۔ وہ کچے کوٹھے ہی نہیں رہے جن میں یہ سب ہوتا تھا، نہ وہ لوگ رہے جن کے ساتھ محبتیں تھی۔چرخے پر سوت کاتنے کے لیے خاص مہارت چاہئے ورنہ ذرا سی غفلت سے دھاگہ الج جائے تو ساری محنت برباد ہو سکتی ہے۔ ہاتھوں کے فن کا مشین سے کیا مقابلہ، دستکاری میں سچائی ہے خلوص ہے۔ افسوس کہ یہ قدیم ہنر وقت کی دھول میں کہیں گم ہو گیا۔ کسی نے اس کو بچانا کی کوشش نہیں کی نہ سوچا۔ جب سب روایات اور ثقافت ہی ختم ہو جائے گی تو ہم کیا دعوی کریں گے ایک قوم کا۔ زبان و ثقافت کے بغیر بھی ہم ایک قوم ہیں۔ کچھ لوگ ابھی بھی زبان و ثقافت بچانے کی کوشش میں ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد صغیر خان پہاڑی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے گرانقدر خدمات انجام دے رہے ہیں یکم جولائی سے پابندی کے بندھن سے آزاد ہوئے اب بہتر اور آزادانہ کام کر سکیں گے۔ محترم عابد صدیق فن و ثقافت کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں۔ باقی آئندہ
واپس کریں