دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نوجوانوں کے قبرستان، ہمیں مسئلہ کشمیر بھولنے نہیں دیتے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
جموں و کشمیر جنوبی ایشیا میں ایک مرتبہ پھر مرکزی نگاہ بنا ہوا ہے، حریت پسندی کی وجہ سے نہیں، جمہوریت کی بحالی کی وجہ سے۔ دس سال بعد ریاستی اسمبلی کا انتخابی شیڈول کیا جاری ہوا کہ سیاسی میدان میں حل چل بھرپا ہے۔ یہ جاننے کے باوجود بھی کہ اب کشمیر کے وزیر اعلٰی کے پاس پولیس کانسٹیبل تبدیل کرنے کے اختیارات بھی نہیں رہے۔ جمہوریت کی بحالی ہو یا وائسرائے کی حکومت، جموں و کشمیر کا ہر فیصلہ دلی کے ایوانوں میں ہو گا، جس کے اطلاق کے لیے وائسرائے کو مقرر کیا ہوا ہے۔ اس کے باوجود مین سٹریم پارٹیاں ہوں یا بھارتی قومی سیاسی جماعتیں میدان میں اتر چکی، البتہ جماعت اسلامی کو خواہش کے باوجود انتخابی عمل میں حصہ لینے کی فی الحال اجازت نہیں ملی۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے کہا تھا کہ جماعت پر سے پابندی اٹھا لی جائے تو پرانی روش چھوڑ کر ہندوستان کی وفا داری کا حلف اٹھانے کے لیے تیار ہیں لیکن لگتا ہے کہ حلف برداری کی اس تقریب میں تاخیر ہے، مودی سرکار نے قبولیت نہیں بخشی۔

بھارت کی دو بڑی جماعتیں بھاجپا اور کانگریس آمنے سامنے اور علاقائی پارٹیوں کو آغوش میں لینے کی تک و دو میں ہیں۔ راہول گاندھی انڈین گھٹ بندن کو کشمیر تک توسیع کرنے سری نگر پہنچے اور پرانے خاندانی حلیفوں سے ملاقات کی اور کشمیریوں کے دل موہ لینے جیسے بیانات دے کر اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کر لیا۔ نیشنل کانفرنس کے ساتھ گھٹ بندن کا اعلان تو ہوا مگر ابھی بھی گومگو کی کیفیت ہے۔ یہ انتخابات کشمیریوں کے لیے راحت کا سماں باندھتے ہیں یا دشواریاں اس کا اندازہ تو ابھی نہیں لگایا جا سکتا۔ البتہ جموں و کشمیر کے سیاسی کارکن ہی نہیں عام آدمی بھی مطمئن نظر آتا ہے کہ کم از کم دس سال بعد کچھ بولنے کا موقع تو ملا۔ سیاسی گہماگہمی میں ہر کوئی اپنی بڑھاس نکال تو رہا ہے۔ بقول نعیمہ احمد مہجور کشمیر بدل چکا۔ 1990 کی دہائی میں جو صورت حال تھی وہ اب نہیں ہے۔ کشمیریوں کو بڑی بے دردی سے کچلا گیا۔ ان کے پاس اب نہ معشیت رہی نہ زبان و ادب اور نہ کلچر رہا، حتی کہ نوجوانوں کی ایک نسل قبرستانوں میں ہے اور آج کی نسل کو نشے کا عادی بنا دیا گیا۔ دس سال سے کشمیریوں کی زبان بندی ہے اور اس گھٹن کے ماحول میں آدھے سے زیادہ آبادی نفسیاتی مریض بن چکی۔

کشمیریوں کی زبان بندی کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب پرویز مشرف نے اچانک یو ٹرن لیا اور کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مزاحمت کاری بند کر دی جائے۔ حالاں کہ پرویز مشرف اس وقت اس پوزیشن میں تھا کہ امریکہ سے کم از کم یہ منوا لتا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بند اور گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔ مذاکرات کے دروازے کھولے چائیں اور مسئلہ کشمیر پر پیش رفت کی جائے۔ امریکہ کو اس وقت افغانستان پر قبضہ کرنا تھا اور اس مدے میں پرویز مشرف امریکہ کا صف اول کا سہولت کار تھا۔ پکے سچے پاکستانیوں کو بھارت کے ٹارچر سیلوں میں ہی چھوڑ کر پاکستان کا مُطْلَقُ الْعِنان حکمران پلو جھاڑ کر نکلا اور امریکی اتحادی بن گیا۔ اس دلالی میں ہزاروں پاکستانیوں کو شہید، ملک کو اربوں کا اور قومی ہمیت کو بہت بڑا نقصان پہنچایا۔ تاہم اس کے جانشینوں نے بھی اس پالیسی کو جاری رکھا بلکہ چندقدم آگئیں بڑھ کر ماضی بھول جانے کا مشورہ دیا۔ گویا پاکستانی جھنڈے میں لپٹے قبرستانوں میں آسودہ خاک ایک لاکھ نوجوانوں کو کشمیری بھول جائیں۔ لیکن بقول محبوبہ مفتی شہدوں کے قبرستان مسلہ کشمیر ہمیں بھولنے نہیں دیتے۔

مشورہ تو یہی تھا کہ سری نگر کی گلیوں اور بازاروں میں افسردہ 23 ہزار بیواوں اور 12 ہزار ریپ زدہ معصوموں، بھارت جیلوں میں بند ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے والوں کو بھول کر آگئیں بڑیں اور مودی کو گلے لگا لیں۔ کہنے والا جتنا بھی بڑھا ہو اسے سوچنا چاہیے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے جسم پر لگے گہرے زخم کو بھول کر زخم لگانے والے کے پاوں میں بیٹھ جائیں۔ یہ مشورہ نہیں حکم تھا، جس سے جموں و کشمیر کے دونوں جانب کا نوجوان ناراض ہوا، بلکہ سید علی گیلانی بھی مایوسی اور سکتے کے عالم میں انتقال کر گئے۔۔ پھر کیا تھا مودی جی کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بلا رکاوٹ اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی۔ جب آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے احتجاج کرنے کی کوشش کی تو بیرون ملک طویل دورے پر بھیج دیا گیا۔ جموں و کشمیر کے عوام گزشتہ 77 برسوں سے دکھ برداشت کر رہے ہیں لیکن 5 اگست 2019ء کے بعد جو کچھ ان کے ساتھ ہوا اور مسئلہ کشمیر کو جس بے دردی کے ساتھ لپیٹنے کی کوشش کی گئی وہ ناقابل فراموش ہے۔ البتہ جنرل آصم منیر کا شکریہ کہ چارج سنبھالنے کے دوسرے روز ہی ایل او سی پر پہنچے اور اعلان کیا کہ مسئلہ کشمیر زندہ ہے اور ہم کشمیریوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت جاری رکھیں گے۔

کشمیریوں کے جسم میں کچھ جان پڑی لیکن مودی گہرے زخم لگا چکا تھا۔ لاغر جسم کو سنبھلنے اور زخمیوں کو بھرنے میں کتنا وقت لگتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن جموں ریجن میں حریت میں کچھ جان پڑی جو وادی والوں کو پھر دعوت دے رہے ہیں کہ تم بھی اٹھو اہل وادی ہم بھی تمارے ساتھ ہیں۔ جنرل آصم منیر کی اس اخلاقی حمایت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مین سٹریم پارٹیاں بھی کہنے لگی ہیں کہ مسلہ کشمیر زندہ ہے۔ شیخ عبداللہ کی آل اولاد آج بھی دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کر کے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی بات کرتی تو ہے جیسا کہ انہوں نے اپنے منشور میں اس کو شامل بھی کیا، لیکن اپنے جد امجد شیخ عبداللہ کے ویژن کے مطابق بھارت کے ساتھ اندرونی خود مختاری پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ اسی باعث کانگریس کے ساتھ گھٹ بندن کی گانٹھ ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ اس کی وجہ سیٹوں کی بندربانٹ کا جھگڑا تو ہو سکتا ہے، لیکن راہل گاندھی کو ہندوستان میں جواب دینا مشکل ہو گیا کہ نیشنل کانفرنس ترنگا کے مقابلے میں سرخ رنگ میں سفید ہل کو بلند کرنا چاتی ہے کانگریس اس میں اس کے ساتھ ہے؟ حالاں کہ کانگریس کے صدر ملک ارجن کرکے کہہ چکے کہ سرخ زمین پر سفید ہل والا جھنڈا ترنکے کے ہم پلہ نہیں بغل بچہ ہو گا لیکن امیت شاہ کے دس سوالات نے راہل گاندھی کے دورہ کشمیر کی کامیابیوں اور فاروق عبداللہ کی خوشیوں کو ملیا میٹ کر دیا۔ دونوں جماعتوں کی مشترکہ بیٹھک میں ہونے والے فیصلوں کے بعد اب پھر دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔

تازہ خبروں کے مطابق نیشنل کانفرنس کی اعلی قیادت سر جوڑ کر بیٹھی ہے کہ نئی صورت حال میں کیا کیا جائے۔ جب کے کانگریس کی اعلی سطح کا ایک وفد سری نگر پہنچا ہے۔ جو پارٹی عہدیداروں سے ملاقات کے علاوہ نیشنل کانفرنس سے گھٹ بندن پر اَز سَرِ نَو غور کرے گا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا سارا زور جموں ریجن پر ہو گا جہاں ہندو انتہا پسندی کا زور ٹوٹ رہا ہے۔ جموں کے پنڈت ہوں یا شودر یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی داخلی خودمختاری کے خاتمے سے کشمیریوں کا اجتماعی نقصان ہوا اور سب سے زیادہ نقصان جموں وال کو ہوا جہاں باہر سے لائے گئے لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے تاہم بھاجپا پھر ہندوں کو دھرم کے خطرے کی دوہائی دے رہی ہے۔ البتہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اندرونی انتشار کے باعث فی الحال دھڑن تختہ ہو چکا۔ ہر بدمعاش کا یہ دعوی ہے کہ کشمیر اس نے فتح کیا اور ٹکٹ کا بھی اس کا حق ہے۔

ولیج گارڈ کے نام سے جن غنڈوں کو سرکاری بندوق تھمائی گئی تھی اکثریت میدان میں ہے کہ الیکشن لڑیں گے اور بندوق کے زور پر کامیاب ہو کر جموں و کشمیر کی فتح کا جشن منائیں گے۔ بھاجپا نے انتخابی امیدواروں کی پہلی فہرست کا اعلان کیا تو کشمیریوں کو قتل کرنے کی غرض سے پالتو غنڈوں نے پارٹی دفتر پر قبضہ کر لیا۔ شدید ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور پارٹی کے خلاف نعرے بازی کی تو بڑے ٹھاکرجان بچا کر رفوچکر ہو گئے۔۔ حالات اتنے کشیدہ تھے کہ ایک گھنٹے کے اندر ہی جاری فہرست کو واپس لینا پڑا ۔ دوسری اور تیسری فہرست جاری ہوئی لیکن غنڈہ گردی کے عادی عناصر کو کہاں اطمینان اس پر بھی اختلاف۔ بھاجپا ابھی تک محض 16 ناموں پر ہی اتفاق کر پائی۔ لیکن غنڈہ عناصر کا غم و غصہ کم ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کے مقابلے میں راہل گاندھی نے یہ کہہ کر کارکنوں کو ٹھنڈا رکھا کہ گھٹ بندن ہو گا لیکن کانگریس کے کارن کاروں اور رہنماؤں کی عزت کے ساتھ۔۔ اسی باعث بھاجپا کے مقابلے میں کانگریس کے کارکن صبر و تحمل سے کام لے رہے ہیں۔ ممکن ہے اس میں کچھ صیاد آپ جال میں آ ہی جائیں لیکن یہ بات تو طہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں متوقع اسمبلی انتخابات میں کوئی ایک پارٹی حتمی کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔۔ البتہ محبوبہ مفتی نے جو انتخابی منشور دیا کشمیریوں کی سمجھ میں آ جائے تو اسی طرح کا یک طرفہ عمل کریں جو انجینئر عبدالرشید کے حلقے میں کیا۔پیلپز ڈیموکریٹک پارٹی کا منشور یاسین ملک کے منشور کے قریب تر ہے۔ اس پر الگ کالم کی ضرورت ہے آئندہ کالم میں محبوبہ مفتی کے منشور کو ملاحظہ فرمائیں ۔

واپس کریں