دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
لداخ سے دہلی پیدل مارچ لہہ سے شروع ہو گیا
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے

غیر قانونی طور پر ریاست جموں وکشمیر سے الک کر کے مرکز کا علاقہ قرار دئے جانے والے لداخ خطے کے عوام نے اپنے مطالبات اور جمہوری آزادی کے حق میں لہہ سے دہلی تک پیدل مارچ شروع کر دیا ہے۔ اس سے قبل لداخ کے دونوں مذائب مسلم اور بدھسٹ کی سیاسی تنظیموں نے جمہوری آزادی اور خطے میں انسانی حقوق کی بحالی کے لیے مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ کیا تھا۔ اپنے مطالبات کے حق میں جلسے جلوس اور مشترکہ پلیٹ فارم سے بھوک ہڑتا بھی کی لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا وعدہ ایفاء نہ ہونے پر پورے خطے کے عوام دہلی تک پیدل مارچ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ یہ انتہائی اور تکلیف دہ اقدام لداخی قیادت نے طویل بھوک ہڑتالوں کے سلسلے کے بعد کیا، جس میں وانگچک کی 28 روزہ اور اس کے بعد ہزاروں رضاکاروں کی 66 روزہ بھوک ہڑتال شامل ہے تاہم اس بھوک ہڑتال پر دلی سرکار کی جانب سے توجہ نہیں دی گئی۔

لداخی قیادت نے مطالبات پورے ہونے تک تحریک جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور دلی تک پیدل لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔ گو کہ پاکستانی میڈیا اور خاص طور پر آزاد کشمیر کے حکمران اور عوام اس پر توجہ نہیں دے رہے اور نہ اس میں ان کے لیے دلچسپی کا کوئی سامان ہے۔ ان کے اقتدار اور مفاد کا لداخی عوام کے اس پیدل مارچ کے سستھ دور دور سے واسطہ نہیں۔ ایک سازش کے تحت آزاد کشمیر کے عوام اور خاص طور پر پونچھ کے قبائل کو جن کی طرف مقبوضہ کشمیر کی بہنوں کی نظریں تھیں کو چھوٹے چھوٹے علاقائی مسائل میں الجا کر آپس میں دست گریبان کیا جا رہا ہے۔ تاہم جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس کو کشمیر کے اس خطے کے عوام کی تکلیف پر ردعمل ضرور دینا چاہیے تاکہ کسی جگہ تو ثابت ہو کہ حریت کانفرنس صرف وادی کشمیر ہی کی نہیں جموں و کشمیر کے ہر علاقے کی نمائندہ ہے تب ہی جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس ہے۔ لداخی عوام حق سچ کشمیری ہیں اور کل جماعتی حریت کانفرنس کو ان کو اون کرنا چاہیے جن کو جبر سے ہمارے ساتھ سے کاٹا گیا۔

مودی سرکار نے 5 اگست 2019ء کو جموں و کشمیر کے پہاڑی سلسلے لداخ کو ریاست سے کاٹ کر الگ کر لیا تھا جس پر وہاں کے عوام نے شدید احتجاج کیا۔ اس وقت ریاست میں یہ پہلا موقع تھا کہ غیر مسلم علاقے جہاں بدھسٹ آبادی کی اکثریت ہے احتجاج شدت اختیار کر گیا تھا۔ صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے اس وقت امیت شاہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لداخ پہنچا اور وہاں اعلان کیا تھا کہ لداخ کارگل اور دیگر پہاڑی علاقوں پر مشتمل الگ ریاست قائم کی جائے گی جس پر حالات معمول پر آئے تھے۔ اس وقت کے بعد کشمیر کے ان پہاڑی علاقوں کے عوام مطالبہ کر رہے ہیں کہ امیت شاہ کے وعدے کا ایفاء کیا جائے۔ لیکن امیت شاہ لداخ میں وعدہ کیسے ایفاء کرے گا کبھی نہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے سری نگر لال چوک پر کشمیری کے ساتھ کیا ہوا وعدہ کون سا پورا کیا تھا جو امیت شاہ سے شکایت کی جائے۔

پنڈت جواہر لعل نہرو کو تو بخشی غلام محمد کی صورت میں ایک ہی ایجنٹ مل گیا تھا جس اکیلے نے وہ کام گیا کہ شیخ محمد عبداللہ کی سوچ اور ویژن کا یک مشت ڈھڑم تختہ ہو گیا۔ 20 سال قید بند اور مشکلات کی زندگی گزارنے کے بعد بلآخر پاکستان ٹوٹنے کے بعد شیر کشمیر کو کچھ مطالبات سے پیچھے ہٹنا پڑا جیسے جموں و کشمیر میں صدر ریاست گورنر اور وزیر اعظم کے عہدے کو وزیر اعلٰی میں تبدیل کر کے عملی طور پر جموں و کشمیر کو بھارت میں مرج کر دیا گیا۔ تاہم اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے اندرہ، عبداللہ معاہدہ کے خلاف 28 فروری 1975ء کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منانے کا اعلان کیا۔ اس دور کی میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ احتجاج اس قدر سخت تھا کہ پورا پاکستان اور آزاد کشمیر بند ہو گیا اور لوگوں نے اپنے مویشیوں کو پانی تک نہیں پلایا۔ خواتین اور بوڑھے بھلک بھلک کر روتے رہے۔ مجھے خود یاد ہے کہ اس دن ہمارے گھر میں روزہ تھا۔ اس لیے کہ دادا جی کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ اس روز ہمارے گھروں کے چولہے میں آگ نہیں جلے گی۔ یہ دن منانے کی تجویز وزیر اعظم بھٹو کو دینے والوں میں آزاد جموں و کشمیر کے اس وقت کے صدر و بانی صدر سردار محمد ابراہیم خان پیش پیش تھے۔ دادا جی سردار محمد ابراہیم خان کے عقیدت مندوں میں سے تھے اور تحریک آزادی کشمیر کے سخت حمایتی بھی۔ وہ اکثر کہا کرتے کے کشمیریوں کا ایک ہی مشن ہونا چاہیے تحریک آزادی کشمیر۔۔ برحال اس ہڑتال نے شیخ عبداللہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا کیوں کہ سری نگر اور جموں کے علاقوں میں بھی اس کے اثرات نمایاں ہوئے تھے۔ اس کے جواب میں شیر کشمیر لال چوک کے اسی مقام پر ایک مرتبہ پھر گھنٹوں دھاڑتا اور پاکستان کو کوستا رہا کہ ہم نے اتنی تکلیف اور کشت کاٹی،

"پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں، تُو بھی تو دِلدار نہیں!

تم نے ہماری ریاست میں قبائلی نہ داخل کئے ہوتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی اور ہمیں بھارت سے مدد کی درخواست نہ کرنا پڑتی اور بھارت کبھی ہماری ریاست پر قبضہ نہ کر پاتا۔ تاہم شیر کشمیر کے گرجنے برسنے اور قائد عوام کے چیخنے چلانے سے کشمیریوں کو اس وقت کچھ فائدہ ہوا اور نہ اب کچھ راحت ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو اصلا نسلا کشمیری تھا اور شیخ محمد عبداللہ نسلا پنڈت، کس نے کس کے ساتھ دھوکہ کیا کون جال میں پھنس گیا اور کس نے حملہ کر کے کشمیر پر بے جا قبضہ کرنے کی کوشش کی یہ اب تاریخ کا حصہ ہے اور ہر کوئی تاریخ کو گھر کی لونڈی سمجھتا ہے کہ جیسا وہ چاہے اس کی تشریح کرے۔ البتہ کشمیریوں کا ایک گروپ مانے یا سارے انکار کر دیں شیر کشمیر قوم پرست کشمیری تھا جو کو مافیا اور مفاد پرستوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا اس نے بھی بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مصداق بھارتی دستور میں دفعہ 370 شامل کرایا کہ کچھ آنسوؤں پونچھنے کا سبب بنے۔ سرے دست تاریخ تو یہی کہتی ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو اور اس کے جانشینوں نے کشمیریوں کے ساتھ کئے وعدے کی ایفاء نہیں کی تو انتہائی متعصب ہندو امیت شاہ کیو کر لداخ کے عوام کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کا ایفاء کر سکتا ہے۔ البتہ لداخ کے عوام نے کشمیریوں کی طرح 77 سال تک انتظار نہیں کیا پانچ سال بعد ہی نکل پڑھے جب دیکھا کہ انہی ہی کی ریاست جموں وکشمیر میں چناو کا اعلان ہو چکا اور ان کو ریاست سے کاٹ کر جمہوری آزادی سے محروم کر دیا گیا ہے۔

لداخ سے دہلی کی طرف پیدل مارچ پیر 2 ستمبر کو لہہ سے شروع ہوا جو ایک ماہ تک جاری رہنے کے بعد 2 اکتوبر کو دہلی پہنچے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مارچ میں سینکڑوں افراد شریک ہیں۔لہہ ایپکس باڈی کے چیئرمین تھوپسن چھیوانگ نے مارچ کو ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا جس میں شریک چیئرمین چیرنگ دورجے اور دیگر اہم شخصیات بھی شامل ہیں۔لہہ اپیکس باڈی کے زیرِاہتمام 30 روزہ پُرامن مارچ کا مقصد امیت شاہ کے وعدے کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے جس میں لداخ کو ریاست کا درجہ دینا بھی شامل ہے۔ معروف ماہرِ ماحولیات سونم وانگچک مارچ کی قیادت کر رہے ہیں۔شرکاء میں مذہبی رہنما ، سماجی کارکن اور عام شہری شامل ہیں۔ مارچ میں شامل 75 سالہ تسیرنگ نمگیال نے لداخ کے مستقبل پر تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا۔ مارچ کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے اور توقع ہے کہ کرگل ڈیموکریٹک الائنس کے ارکان بھی دہلی میں مارچ میں شامل ہونگے۔ کیا بھاجپا قیادت لداخ کے عوام کے مطالبات تسلیم کرے گی جب کہ گزشتہ لوگ سبھا انتخابات میں لداخ کے عوام نے بھاجپا کو بری طرح شکست سے دوچار کیا۔ بھاجپا تو ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کرے گی تاہم بھارت کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں ایک اور مقدمہ دائر ہو جائے گا، انسانی حقوق سلب کرنے کا حق خودارادیت نہ دینے کا اور وعدہ خلافی کا۔

واپس کریں