جموں ریجن میں فوج پرتابڑتوڑ حملے ، پاکستان میں مکمل خاموشی
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بھارتی فورسز نے مقبوضہ جموں وکشمیر کے جموں ریجن کے مسلم اکثریتی علاقوں میں گزشتہ دس روز سے سخت کرفیو لگا رکھا ہے، جہاں بھارتی میڈیا کے افراد کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق گزشتہ دو ڈھائی ماہ کے دوران جموں ریجن میں حریت پسندوں اور قابض بھارتی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں جن میں گزشتہ دس روز کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی فوج کئی ہزار اضافی نفری منگوانے اور مسلم اکثریتی اضلاع میں کئی روز سے کرفیو نافذ کرنے کے باوجود حریت پسندوں کے خلاف بڑی کامیابی یا قابو پانے میں بری طرح ناکام ہو چکی۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے فوج کو پہلے سے دیئے گئے لامحدود اختیارات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ شورش زدہ علاقوں میں بھارتی فورسز جو بہتر سمجھتی ہے وہ کریں ان کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ گویا بھارت فورس کو اجتماعی آبروریزی سے بھی زیادہ اختیارات دیئے گئے ہیں جن کے جرائم پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوج کو جو اختیارات دیئے ہیں وہ اسرائیلی فوج کو بھی حاصل نہیں۔ جب کہ فوج کے حوصلے کو بڑھانے کے لئے بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی ایمرجنسی میں جموں پہنچے ہیں انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور دیگر اعلی حکام کے ساتھ اجلاس منعقد کیا اور بعد ازاں مختلف علاقوں کا دورہ بھی کیا منوج سنہا بھی متاثرہ علاقوں میں ہیں۔ اس کے باوجود حریت پسند چھاؤنیوں، فوجی کیمپوں اور فوجی گاڑیوں پر حملہ کرتے اور بھارتی سینا کو بھاری مالی و جانی نقصان پہنچانے کے بعد آسانی سے واپس اپنے حفاظتی ٹھکانے تک پہنچ جاتے ہیں۔ بھارتی میڈیا، دفاعی تجزیہ کاروں اور سیاست دانوں کے بیانات کے مطابق ان حملوں میں بھارتی فورسز کے 55 سے زائد افسران اور جوان ہلاک ہو چکے، زخمیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے، جب کہ حیران کن طور پر بڑے پیمانے پر جاری فوجی آپریشن کے دوران فورسز کو مجاہدین پر قابو پانے کے حوالے سے کوئی بڑی کامیابی کی خبر سامنے نہیں آئی، البتہ بھارتی میڈیا نے چیخ چیخ کر چند آتنگ بادیوں کی ہلاکت اور چار کی گرفتاری کی خبر دی ہے۔ ان کو بھی دو مختلف دیہاتوں کے باسیوں نے پکڑ کر فورسز کے حوالے کیا۔
بھارتی فوجی کیمپ پر تازہ حملہ پیر کی رات ضلع راجوری کی تحصیل خواص کے علاقے گندہ میں کیا گیا جہاں ایک فوجی افسر سمیت پانچ اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کشمیر میڈیا سروس اور بھارتی چینل کے مطابق تباہ کن حملہ میں مجاہدین کی طرف سے کیمپ کو تابڑتوڑ فائرنگ اور دستی بموں سے نشانہ بنایا گیا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد قابض فوجی ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔ آخری خبر آنے تک مجاہدین اور قابض فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جاری تھا کہ پونچھ میں ہجیرہ کے قریب بٹل سیکٹر میں فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا، بھارتی میڈیا نے خبر دی ہے کہ بٹل میں مجاہدین ایل او سی عبور کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو بھارتی فورسز کے جوانوں نے ان کو روک جب کہ غیر جانبدار ذرائع کہتے ہیں کہ بٹل میں یہ دوطرفہ فائرنگ بھارتی حدود میں سرحد پار ہو رہی ہے جہاں مجاہدین نے فوجی کانوائے پر گرنیڈ اور دستی بموں سے حملہ کر کے شدید مالی اور جانی نقصان پہنچانے کے بعد فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ بھارتی چینلز نے معمول کی نشریات معطل کر کے تمام تر توجہ جموں ریجن کے ان اضلاع پر مرکوز کر رکھی ہے جہاں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے بھارتی فورسز کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ سارے بھارتی دفاعی تجزیہ کار، اینکرز اور ریٹائرڈ آرمی اور پولیس افسرز چیخ چیخ کر پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر مقبوضہ کشمیر میں گڑ بڑ شروع کر دی ہے، اس کے لیے اس مرتبہ جموں ریجن چنا گیا کہ جہاں پہاڑیاں اور گھنے جنگلات ہیں جو مجاہدین کی کارروائیوں کے لئے موافق ہیں۔ بھارتی فوجی اور پولیس ذرائع کہتے ہیں کہ 50 سے 55 آتنگ بادی جموں ریجن میں داخل کئے گئے ہیں جن کی اکثریت کا تعلق پاکستان کے صوبہ کے پی کے سے ہے، لیکن یہ سب بیانات اور دعوے مفروضوں پر مبنی ہیں۔ بھارتی سینا کی جانب سے کسی بھی ثبوت کے ساتھ کوئی بھی ٹھوس اور حقیقت پر مبنی بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
مجاہدین کے بروقت حملوں اور اس کے بعد احتیاط کے ساتھ ٹھکانے پر پہنچنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ علاقے کی جغرافیائی حدود اور صورت حال سے مکمل طور پر واقف ہیں۔ باہر سے گئے ہوئے افراد علاقوں سے اتنے واقف نہیں ہو سکتے کے تربیت یافتہ فوج اور انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاروں کو جھانسہ دے سکیں۔ تاہم بھارت کی پوری کوشش ہے کہ ماضی کی طرح اس مزاحمت کاری کو بھی دہشت گردی میں بدل کر پاکستان پر الزام لگایا جائے۔ سچ تو یہی ہے کہ مقبوضہ جموں ریجن گزشتہ دو ڈھائی ماہ سے شدید متاثر ہے اور فوج پیراملٹری فورسز پولیس سمیت تمام حکومتی ایجنسیز حملہ آوروں کی تلاش میں بھری طرح ناکام ہوئی ہیں، جو گھات لگا کر شہروں اور آبادی کے بھیچ میں آ کر فورسز کو نشانہ بناتے ہیں اور بڑی آسانی سے رفو چکر بھی ہو جاتے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار اب تسلیم کرنے لگے ہیں کہ ان حملوں کے بعد مودی جی کا یہ دعوی غلط ثابت ہو گیا کہ 5 اگست 2019ء کے اقدام کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں امن بحال ہوا اور لوگ خوش ہیں۔ بھارتی میڈیا رپورٹس اور اس پر بیٹھے تجزیہ کاروں کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ کئی عشروں بعد بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں مجاہدین کے ہاتھوں پریشان ہو رہا ہے اس کے ساتھ اچانک یہ ہوا ہے جو اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اس ساری صورت حال کے باوجود دوسری جانب مکمل خاموشی ہے جیسے سرحد پار کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ پاکستان میڈیا کے پاس عمران خان کے علاوہ کوئی اشو ہی نہیں ایک گروپ حمایت میں ہے اور دوسرا مخالفت میں، جب کہ حکومت اور ادارے بھی ایک ہی ایجنڈے میں لگے ہوئے ہیں۔
مجاہدین نے تو جموں ریجن میں پہ در پہ کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن بھارت نے فوری طور پر ہائبرڈ جنگ شروع کر دی ہے جو وہ جیتتا دیکھائی دیتا ہے۔1990 کی دہائی میں بھی یہی ہوا تھا کہ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں جنگ ہار گیا تھا لیکن پاکستان اور مجاہدین کے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ بلآخر آزادی کی جنگ کو دہشت گردی کے زمرے میں لا کھڑا کیا۔ بین الاقوامی دباؤ کے باعث مجاہدین کو بندوق پھینکنا پڑی تھی اور پھر بھارت نے سیاسی تحریک کو بھی ختم کر دیا۔ 1947ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ محاذ پر کامیاب ہوتے مجاہدین کو اچانک حکم ہوا کہ پیچھے آ جائیں۔ اب یہ تیسرا موقع ہو گا اگر پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومت، سیاست دان، سول سوسائٹی اور میڈیا پرسن نے فوری توجہ نہ دی تو بھارت گزشتہ دس روز سے مکمل فضاء بنا چکا کہ بین الاقوامی سطح پر ایک مرتبہ پھر پاکستان کو دہشت گردی کا الزام لگا کر دباؤ میں لائے اور جموں ریجن میں مجاہدین نے جو اسے گھیر رکھا ہے ان سے جان چھڑائے۔
پاکستان اور کشمیریوں کے پاس بہترین موقع ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دنیا بھر میں اٹھائیں۔ راج ناتھ سنگھ کا تازہ ترین بیان اور بھارتی فوج کے گزشتہ ریکارڈ کے مطابق اجتماعی آبروریزی کے واقعات سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جموں ریجن میں جہاں گزشتہ دس روز سے بھارتی فوج نے لاک ڈاؤن لگا کر کریک ڈاؤن شروع کیا ہوا ہے اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ یہاں کے دیہاتیوں کے ساتھ کنن پوش پورہ کے دیہاتوں جیسا سلوک نہیں کر رہا اس کی کیا ضمانت ہے کہ بھارتی فورسز کریک ڈاؤن کے علاقوں میں عصمت دری اور سول آبادی کے انسانی حقوق متاثر نہیں کر رہی۔ پاکستان بھارتی میڈیا اور وہاں کی سول سوسائٹی دفاعی تجزیہ کاروں کے پروپیگنڈہ کا فوری طور پر جواب دے کہ پاکستان کا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے کشمیری گزشتہ 77 برسوں سے حق خودارادیت کے لیے لڑ رہے ہیں پاکستان تو محض ان کی اخلاقی اور سیاسی سفارتی حمایت کرتا ہے۔پاکستان میڈیا اور سول سوسائٹی کو جموں و کشمیر کے مجاہدین کی حمایت اور ان حملوں کو بھارتی فورسز کے خلاف کشمیریوں کی مزاحمت اور دو طرفہ جھگڑے کے بجائے ایک قومی کی آزادی کی جدوجہد سے تعبیر کرنا چاہیے۔بصورت دیگر جموں ریجن میں چند ہفتوں کے دوران مجاہدین نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ ہائبرڈ جنگ میں پھر ہار جائیں گے۔ حریت کانفرنس اور آزاد کشمیر کے سیاست دان اس انتظار میں ہیں کہ ہمیں بھی کوئی بولے کہ ہم بولیں کیا۔ اس قوم کی قسمت پر رونا آتا ہے۔
واپس کریں