دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
حریت ریلی میں"ن" غائب ، کشمیر پالیسی تبدیل یا تاجروں کو شٹ اپ
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
آل پارٹیز حریت کانفرنس جموں و کشمیر کی نومنتخب باڈی ہفتہ رفتہ کراچی میں کامیاب شو کرنے کے بعد اسلام آباد روانہ ہو گئی لیکن کراچی کی فضاؤں میں ایک پیغام چھوڑ گئی کہ بھارت تحریک آزادی کشمیر کو ختم ہونے کا اعلان کر رہا ہے لیکن جب تک ایک بھی کشمیری زندہ ہے نہ تحریک آزادی ختم ہوتی ہے اور نہ ہی کشمیر پر بھارتی قبضہ بحال ہو سکتا ہے۔ تاہم حریت کانفرنس کر اچانک متحرک ہونے پر اور پہلی مرتبہ کراچی میں کامیاب شو کرنے پر کراچی کے علمی ،ادبی اور صحافتی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ چکی کہ ایسا کیا ہوا کہ آٹھ سال بعد برہان وانی اچانک ہر سیاسی جماعت سے نمودار ہوا اور آنا فانا سب کراچی کی سڑکوں پر آل پارٹیز حریت کانفرنس کے ساتھ ہم قدم ہو گئے۔ جب کہ یہ وہی کراچی ہے جہاں 5 فروری یوم کشمیر کے موقع پر بھی لوگ نکلنا بند ہو گئے تھے۔ اگر برہان وانی کی آٹھویں برسی کے موقع پر کراچی میں یہ بڑی اور اجتماعی ریلی کشمیر پالیسی میں ایک مرتبہ پھر تبدیلی کی علامت ہے تو اس میں حکومتی جماعت کہاں غائب ہے۔ نمائندگی کے لیے کم از کم نہال ہاشمی جیسے کسی لیڈر کو تو اسٹیج پر بلا کر تقریر کرائی ہوتی یا پھر ماورائے مسلم لیگ ن کوئی نئی کشمیر پالیسی بن رہی ہے، جس میں شریفوں کو شٹ اپ کال دی گئی ہے جو تاجروں کی آڑ میں بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں ۔

مسلم لیگ ن کے لیڈروں نے مانگے تانگے کے اقتدار میں آنے کے فوری بعد بیانات دینا شروع کر دئیے تھے کہ پاکستان کے تاجر بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس طرح کا مطالبہ کراچی میں تاجروں کے ایک اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی کیا گیا تھا۔ لیکن کون نہیں جانتا کہ عارف حبیب کے منہ سے کون بول رہا تھا اور بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی کس کی خواہش ہے۔سنجیدہ حلقوں اور خاص طور پر کشمیر پالیسی سے وابستہ افراد نے اس دو رخی پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ یہ کیسا ملک اور قوم ہے یہ کیسے حکمران ہیں، ایک طرف تو فلسطینیوں کے قاتلوں کی مصنوعات کا بائی کاٹ کر رہے ہیں اور دوسری جانب کشمیریوں کے قاتل کے ساتھ تجارت بحال کرکے منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیا پاکستان کے تاجروں اور خاص طور پر شریفوں اور ان کے رشتہ دار اسحاق ڈار کو کنن پوش پورہ کے متاثرین کا ذرہ برابر خیال نہیں آتا۔ ان 33 خواتین کا بھی کوئی غم نہیں جو تہاڑ جیل میں ہیں۔ یہ کیسے کشمیر نژاد ہیں، حضرت آیت اللہ خمینی انقلاب ایران کے بعد بھی اپنے کشمیر النسل ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے، لیکن کشمیر سے کل آئے پہنجاب میں آباد کشمیر نژاد مسلم لیگ ن کو کچھ احساس ہی نہیں۔ مہمانوں کو کشمیری شال کا تحفہ دے دینے سے تو کوئی کشمیری نہیں ہو جاتا، مشکل کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے اور ان کا درد بانٹنے سے ہی ان کی غم خواری ہو گی۔ لیکن لگتا ہے جہاں احساس ہونا چاہئے تھا وہاں ہے اور تجارت بحالی بیانات کا کسی حد تک نوٹس بھی ہوا، کہ تجارت معشیت کے لیے لازمی ہے لیکن حدود و قیود کے اندر۔ اسی باعث آل پارٹیز حریت کانفرنس سڑکوں پر نکل آئی ہے یا نکالا گیا ہے۔

صورت کوئی بھی ہو کشمیر سے محبت کرنے والوں کے لیے نیک شگون ہے کہ پاکستان کے عوام کو بھی معلوم ہو گا کہ کشمیریوں کی کوئی حریت کانفرنس بھی ہے۔ کنوینئر غلام محمد صفی کی آف اور آن دی ریکارڈ گفتگو سے انداز ہوا کہ کچھ ہل جل ہو رہی ہے۔ بھارتی میڈیا کی کوکم کوک اور نالہ و فغاں سے بھی جہاں آئے روز 90 کی دہائی جیسا شور ہو رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آتنگ بادی پھر سے سر اٹھا رہے ہیں لیکن اس بار وادی کشمیر کے بجائے وادی چناب اور پیر پنجال نشانے پر ہے۔ ممکن ہے اس ریجن کے لوگوں نے فیصلہ کیا ہو کہ وادی کے عوام کو حوصلہ دیا جائے کہ تم بھی اٹھو اہل وادی ہم بھی تمارے ساتھ ہیں۔ممکن ہے آل پارٹیز حریت کانفرنس بھی انہی سر اٹھاتے مجاہدین آزادی کے حوصلے بلند کرنے نکل پڑی ہو۔ صورت حال جو بھی ہو یہ کہا جا سکتا ہے کہ حریت قیادت نے کراچی میں مصروف دن گزارے جس کا نتیجہ مثبت ہی ہونا تھا۔ آرٹس کونسل میں یوتھ فورم فار کشمیر کے زیر اہتمام برہان وانی کی آٹھویں برسی کے موقع پر سیمینار حاضری کے لحاظ سے تو کامیاب تھا لیکن حسب سابق ایک مقرر بھی نہیں ایسا نہیں بلایا گیا جو مسئلہ کشمیر پر بات کر سکتا ہو، محض نمائشی اور خانہ پوری کی گئی اور موقع کی مناسبت سے غلام محمد صفی نے بھی اپنی صدارتی تقریر میں توحید خالص پر پانچ سات منٹ کا لیکچر دیا تاہم آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی سے کراچی پریس کلب تک ریلی کامیاب رہی جس میں تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور قیادت نے شرکت کی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اس کی نمائندگی بھی زیادہ تھی۔ سردار نزاکت اور صوبائی وزیر سعید غنی کراچی کے ڈپٹی مئیر عبداللہ مراد سمیت بڑی تعداد میں کارکنوں نے ریلی میں شرکت کی۔ تاہم غلام محمد صفی نے ریلی میں بھی واضح پیغام نہیں دیا کہ اچانک یہ حرارت کیسی اور کیوں ہے دار ہوئی، اور پیرانہ سالی میں یہ کشت کاٹنے نکلنے کا پس منظر کیا ہے۔ البتہ کراچی پریس کلب کے عشائیہ میں انہوں نے کھل کر بتا دیا کہ کئی سال سے اسلام آباد کے ایک بنکلے میں بند کشمیر کی حریت اچانک سڑکوں پر کیسے نکلی آئی اور میدان عمل کی طرف کیوں گامزن ہے۔ فرمایا ہم پاکستان کے عوام سے رابطہ بحال کرنے نکلے ہیں جو کشمیر بھول چکے اور جن کے ساتھ کشمیریوں کا رابطہ ٹوٹ چکا، پاکستانی عوام کے پاس یہ پیغام لے کر آئے ہیں کہ
سرسبز رکھیو کشت کو اے چشم تو مری

تیری ہی آب سے ہے بس اب آبرو مری" غلام محمدصفی نے کہا ہے سفارتی محاذ پر کافی کوتاہی ہوئی اور گزشتہ دور میں ہمارے ساتھ جو ہوا اس پر بھی شکایت موجود ہیں، اس کے باوجود کشمیریوں کے لیے، بھارت اور پاکستان برابر نہیں ہو سکتے۔ بھارت ہمیں قتل کرتا ہے ہمارے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتا جب کہ پاکستان ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ بھائیوں کے درمیان شکایت کو دور کیا جا سکتا ہے دشمن کو دوستی تک پہنچنے میں نشیب و فراز اور کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں وقت لگتا ہے۔ ہم کشمیر کا کوئی ایسا حل قبول نہیں کریں گے جو کشمیریوں کی منشا کے بغیر ہو، ہم تیسرے اور اہم فریق ہیں ہمارے اس حق کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ دنیا بھارت کو مذاکرات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسلہ کشمیر حل کرنے کے لیے تیار کرے ہمارا دنیا سے یہی مطالبہ ہے۔ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا خطہ پر امن نہیں ہو سکتا۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں مظالم ڈھا رہا ہے، آج بھی نہتے عوام کو شہید کیا جارہا ہے، لیکن بھارت کی کوئی بھی سازش کشمیریوں کی جدوجہد کو نہیں دبا سکتی، ہر محاذ پر کشمیری اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے سنئیر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو بتایا کہ بھارت اس تحریک کو دنیا میں دہشت گرد تحریک قرار دلانا چاہتا تھا لیکن وہ اس کوششں میں ناکام ہوگیا۔ اب ڈرائو دھمکائو سے کشمیریوں کو تحریک سے باز رکھنا چاہتا ہے، دس لاکھ فوج کی نگرانی میں انتخابات کرائے گئے لیکن کشمیری اس کے باوجود خوفزدہ نہیں ہوئے کشمیریوں نے بھاجپا یا اس کے حمایتی کے بجائےان امیدواروں کو ووٹ دیئے جو جیل میں قید ہیں۔ یہ دنیا کو پیغام ہے کہ کشمیریوں نے مودی کی پالیسی کو مسترد کر دیا۔ ایک سوال کے جواب میں حریت رہنما نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلحہ جدوجہد دوبارہ شروع کرنے کا تاثر اس لیے صحیح نہیں کہ وہاں جنگ نہیں ہو رہی 10 لاکھ فوج کے ساتھ جنگ کے لیے اتنی ہی فوج اور اسلحہ چاہئے۔ مقبوضہ کشمیر میں مزاحمت کی تحریک ہے جو 1988 میں شروع ہوئی تھی اور ابھی تک جاری رہے اور آزادی تک جاری رہے گی۔ یاسین ملک، مسرت عالم، شبیر شاہ، قاسم فکتو، آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی اور سینکڑوں رہنما بدنام زمانہ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں لیکن بھارت کے سامنے دست بردار نہیں ہو رہے۔حریت رہنما نے کہا کہ نوجوان طبقہ بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر تیار ہے ہمارے پاس واپسی کا راستہ نہیں رہا۔ لاکھوں لوگ شہید ہوئے ہیں، اس کے باوجود ہر محاذ پر جدوجہد جاری ہے اور رہے گی انہوں نے کہا کہ برہان مظفر وانی نے جنگ بندی لائن عبور نہیں کی تھی بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا تھا۔برہان مظفر وانی کی شہادت بھارت کے لیے زیادہ بھیانک ثابت ہوئی۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں وہی کچھ کررہا ہے جواسرائیل نے فلسطین میں کیا، انسانی حقوق کے ادارے کشمیریوں پرظلم وستم کانوٹس لیں،بھارتی قبضے کے خاتمے اور حق خود ارادیت تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ 5 اگست کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کہیں سے بھی آوازیں اٹھی تو اس کو دبا دیا گیا، جیل کے دروازے کھول دیئے گئے اور اس وقت ہزاروں کی تعداد میں حریت قائدین گرفتار ہیں صرف اس لیے کہ وہ جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ نہیں سمجھتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عوامی رابطہ مہم کراچی سے شروع کی ہے تاکہ یہاں سے ملک بھر اور آزاد کشمیر میں پیغام جائے۔ جب کہ آئندہ پروگرام 19 جولائی کو لاہور میں ہو گا۔ حریت قیادت نے اعلان کیا کہ وہ جلد آزاد کشمیر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کا بھی دورہ کر کے آزاد کشمیر کے عوام کو بھی اعتماد میں لیں گے۔
واپس کریں