دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبوضہ کشمیر میں انتخابات ، جماعت اسلامی مین سٹریم شمولیت میں تیار
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے

الیکشن کمیشن نے دس سال بعد بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا جو تین مراحل میں ہوں گے۔ نئی دہلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے کہا کہ پہلے مرحلے میں 18 ستمبر کو پلوامہ، اسلام آباد، شوپیاں، کولگام، رام بن، کشتواڑ اور ڈوڈہ اضلاع میں پولنگ ہو گی۔ 25 ستمبر کو دوسرے مرحلے میں گاندربل، سری نگر، بڈگام، پونچھ، ریاسی اور راجوری کے اضلاع میں جب کہ یکم اکتوبر کو تیسرے مرحلے میں بانڈی پورہ، کپواڑہ، بارہمولہ، اُودھم پور ، جموں، سانبہ اور کٹھوعہ اضلاع میں پولنگ ہو گی۔ نتائج کا اعلان 4 اکتوبر کو کیا جائے گا۔ مین سٹریم پارٹیوں کا روز اول سے ہی یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ ریاستی اسمبلی کا چناو عمل میں لا کر اقتدار عوامی نمائندوں کے حوالے کیا جائے ۔ تاہم مودی سرکار ایک عشرے تک لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے ریاستی انتظام چلا رہی ہے۔

1947ء کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں یہ سب سے طویل شخصی دور حکومت رہا جو براہ راست نئی دہلی کی کنٹرول میں ہے۔ جب کہ مودی سرکار کا فی الحال کوئی ارادہ بھی نہیں تھا کہ اسمبلی کے انتخابات کرائے جائیں۔ لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے 30 ستمبر کا وقت دے رکھا تھا۔ انتخابی شیڈول تو جاری کیا گیا ہے لیکن اس سے قبل ہی مودی جی نے وہ سارا انتظام کر لیا جس کے ذریعے وہ اپنا پرانے کھیل جاری رکھ سکیں گے جو گزشتہ دس سال کے دوران لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے کھیلا جا رہا ہے۔ منتخب حکومت اور اسمبلی قائم ہونے کے باوجود طاقت کا سرچشمہ لیفٹیننٹ گورنر ہی رئیں گے۔ گویا 2014ء اور 2024ء کی اسمبلی اور حکومت میں بہت زیادہ فرق ہو گا۔ پوری اسمبلی اسکول کے اچھے بچوں کی طرح لیفٹیننٹ گورنر کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہے گی حتی کہ کابینہ کا کوئی رکن بھی اپنے محکمہ کے افسران کے ساتھ اجلاس بلانے کے دو دن قبل گورنر سے تحریری اجازت لینے کا پابند ہو گا۔ اس صورت حال میں قائم ہونے والی منتخب اسمبلی اور اس کے وجود سے برآمد ہونے والی حکومت کی نہ کوئی وقت ہو گی اور نہ اہمیت۔ وزیر اعلی اور اس کی کابینہ کے پاس نہ سرخ زمین پر سفید ہل والا جھنڈا ہو گا اور نہ ریاستی اسمبلی دستور ساز اسمبلی ہے۔ کیا یہ اسمبلی مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے مسائل میں کمی لانے کی پوزیشن میں ہو گی جو ایک جیل کی طرح کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے سیاست دانوں کے لیے یہ ایک بڑا امتحان ہو گا جن پر بھارتی سرکار اور خاص طور پر بھاجپا کا اعتماد بھی نہیں۔ فی الحال تو بھاچپا نے تناہ میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام اور خاص طور پر مسلمانوں کے لیے حیات تنگ کر رکھی ہے، اس کے باوجود بھاجپا پرامید ہے کہ وہ تنہا حکومت بنائے گی۔

جموں میں پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نئی دہلی سے آئے بھاجپا کے غیر کشمیری رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو گاندھی نہرو، شیخ اور مفتی، تین خاندانوں سے آزاد کرانا ہے جو 1947ء سے جموں و کشمیر کے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ بھاجپا 50 سے زائد نشستیں جیت کر حکومت بنائے گی۔ بھاجپا یہ دعوی اس بنیاد پر کر رہی ہے کہ حلقہ بندیوں میں خاصی تبدیلی کر کے جموں ریجن میں اس نے اپنے لیے خاصی راہ ہموار کی ہوئی ہے جہاں 90 میں سے 44 اسمبلی نشستیں ہیں جب کہ چوہدری ذوالفقار جیسے کئی مسلم رہنماء جن کا ماضی میں عوام میں اثر رہا بھاجپا میں شامل ہو رہے ہیں۔ جس سے قیادت کو توقع ہے کہ وادی میں بھی پارٹی کو پذیرائی ملے گی۔ اگر سجاد غنی لون جیسے دوچار اور سے بھاجپا کا اتحاد ہو جاتا ہے تو ممکن ہے کہ کچھ نشستیں وادی سے بھی نکالنے میں کامیاب ہو جائے۔ بھارت کی قدیم سیاسی جماعت کانگریس نے بھی سری نگر میں بھیٹک لگائی اور انتخابی حکمت عملی پر غور کیا۔ ابھی تک واضح پالیسی یا انتخابی منشور جاری نہیں ہوا تاہم کانگریس کا سارا زور غلام نبی آزاد کو واپس لانا اور پرانے رفیق کار شیخ خاندان کے ساتھ اتحاد پر ہے۔ جس کا اظہار عمر عبداللہ نے سری نگر میں منشور جاری کرنے کے لیے بلائی گئی پریس کانفرنس میں کیا کہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کے لئے دونوں جماعتوں کی بات چیت ابتدائی دور میں ہے، آگئے کیا ہوتا ہے وقت ہی بتائے گا۔ کانگرس کے رہنما طارق حمید قرہ نے کہا کہ یہ غلام نبی آزاد کا اپنا گھر ہے واپس آنے میں کوئی حرج نہیں۔ غلام نبی آزاد جیسے سنئیر رہنما کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ کانگریس میں واپس چلا جائے یا اتحاد کرے ورنہ اسمبلی سے باہر رہنا اس کا مقدر بن جائے گا۔ کوئی لاکھ برا کہے نیشنل کانفرنس آج ان حالات میں بھی جموں و کشمیر کے تشخص اور وعدت کی بات کرتی ہے اور ریاست کو متنازعہ علاقہ سمجھتی ہے اسی باعث پارٹی نے انتخابی منشور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات پر زور دے کر مسلے کو حل کرنے کی بات کی ہے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ اگر ہمیں کامیابی ملی تو اسمبلی کے پہلی اجلاس کی پہلی قرار داد جموں و کشمیر کی اندرونی خود مختاری کی بحالی کی ہو گی۔ اور کہا کہ ہم اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ بھارت کے ساتھ ہمارا اتنی ہی رشتہ ہے جو ڈوگرہ کشمیر اور بھارتی سرکار کے درمیان طہ ہونے والے معاہدے میں درج ہے، جس کی وضاحت کرن سنگھ بھی چشم دید گواہ کے طور پر لوگ سبھا میں کر چکے۔ ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے کہا کہ بابائے قوم شیر کشمیر شیخ عبداللہ کا یہی ویژن اور یہی خواہش تھی جس کو ہم کبھی چھوڑ نہیں سکتے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو 370 ختم کرنے میں 20 سال لگے ہمیں اس کی بحالی کے لیے 40 سال بھی لگتے ہیں ہم کوشش جاری رکھیں گے، وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ان کا اشارہ نئی دہلی سرکار کی تبدیلی کی طرف تھا۔ نیشنل کانفرنس کو یقین ہے کہ کانگریس کی حکومت آنے کے بعد مودی کا یہ فیصلہ واپس ہو جائے گا جو اس مندے پر بھاجپا کی سب سے بڑی نقاد ہے۔ عمر عبداللہ نے یہ بھی کہا کہ نیشنل کانفرنس سڑکوں پر سے اسکورٹی ہٹا لے گی لیکن لوگ جانتے ہیں کہ یہ اختیار منتخب حکومت سے لے لیا گیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ واضح ہو گا کہ کشمیری قیادت اپنے مستقبل کے لیے کس طرح سوچتی ہے تاہم بھاجپا کو دیس سے نکالنے کے لیے ان کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں کانگریس کے اتحاد کے ساتھ انتخابی میدان میں اتریں تو بھاجپا کا صفایا ہو جائے گا۔ تاہم محبوبہ مفتی نے اس کمزور اختیارات کی اسمبلی سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا ہے البتہ جماعت نے جنوبی کشمیر کے آٹھ حلقوں کے لیے امیدواروں کا اعلان کر دیا۔ مفتی خاندان کے آبائی حلقہ میں التجا مفتی کو اتارا گیا ہے۔ نوجوان التجا مفتی نے نانا اور والدہ کے حلقہ پلوامہ میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ پارٹی کی ہائی کمان جو بھی ذمہ داری دے گی اس کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پی ڈی پی کتنی نشستیں جیتتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا البتہ ان انتخابات میں مفتی خاندان کی تیسری نسل کی رونمائی ہوئی ہے جب کہ گاندھی نہر اور شیخ خاندان کی تیسری نسل پہلے ہی سے سیاست میں ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے پاس ان خاندانوں کے علاوہ کوئی آپشن بھی نہیں۔ جماعت اسلامی کی جانب سے انتخابات میں مشروط شمولیت کے اعلان کے باوجود لگتا ہے بھارت سرکار اس کو اجازت نہیں دے رہی۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے کہا تھا کہ ہم پر آئید پابندی ختم اور قیادت کو رہا کر دیا جائے تو ہم مین سٹریم سیاست میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں چونکہ کہ وقت بہت کم رہ گیا ہے اس لیے یہ ممکن نہیں لگ رہا کہ مودی سرکار اس مطالبہ کو مانتی ہے۔ جماعت نے بے وقت اپنی نیت خراب کی۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سابق سربراہ امان اللہ خان کے داماد سجاد غنی لون کی ریاست گیر پذیرائی نہیں گو کہ اس کے والد پروفیسر عبدالغنی لون کشمیری قیادت میں بہت مقبول رہنما تھے۔ سجاد غنی لون کا کہنا ہے کہ ان کے والد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ حریت کی سیاست ترک کر کے مین سٹریم سیاست کی طرف پلٹا جائے۔ ان کے اسی جرم میں پاکستانی ایجنسیوں نے ان کو شہید کرایا۔ کس نے کیا کیا اور کون کیا کر رہا ہے یہ تو لمبی اور نہ حل ہونے والی بحث ہے لیکن کشمیریوں نے کیا کرنا ہے انہوں نے کبھی درست سمت کا تعین نہیں کیا۔ چاہیے مین سٹریم پارٹیاں ہوں یا حریت قیادت ان کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور انہیں کیا کرنا ہے۔ سری نگر اژدھا کی طرح کیسے کیسے گوہر نایاب نگل گیا، میرواعظ عمرمولوی محمد فاروق، مقبول بٹ، افضل گرو، عبدالغنی لون، عندالمجید وانی، برہان مظفر وانی اور ایک لاکھ نوجوان، 23 ہزار بیوہ، 13 ہزار آبروریزی سے متاثرہ، ایک لاکھ چوبیس ہزار یتیم بچے 6 ہزار آدھی بیوہ، 8 ہزار کم نوجوان، ہزاروں جیلوں میں بند اس میدان میں زندہ باد مردہ باد کے نعرے کشمیریوں کو کیسے لگتے ہیں دنیا حیرت کدہ ہے اس قوم اور اس کی غیرت پر۔
واپس کریں