دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پونچھ کے قبائل کے درمیان رنجش تحریک آزادی کشمیر کا نقصان ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے

گزشتہ کئی ہفتوں سے پونچھ کے دو بڑے قبائل سدھن ملدیال نوجوانوں کے درمیان سوشل میڈیا پر ایک کتاب کو لے کر بحث مباحثہ اور کشمکش جاری ہے۔ جو علمی بحث سے زیادہ ذاتی آرا، پسند ناپسند اور قبائلی تعصبات پر مشتمل ہے۔ موضوع کی مناسبت سے سوشل میڈیا پر پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی صاحب کا ایک نوٹ بھی نظر سے گزرا۔ میری رائے کے مطابق پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی صاحب تاریخ کے پروفیسر کئی کتابوں کے مصنف اور معروف کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ متحرک سماجی شخصیت بھی ہیں۔ تاریخ، تحریک اور تحریر میں فی زمانہ ان کا نام آزاد کشمیر کے بڑے محققین اور دانشوروں میں نمایاں ہے۔ لہذا متعلقہ موضوع پر جو انہوں نے لکھا وہی بجا ہے اور اسی میں دلیل و دلال ہیں۔ جو بات دلیل و دلال سے عاری ہو وہ فساد فی الارض ہے۔ فساد فی الارض کسی قبائل، گرو کے مفاد میں نہیں ہو سکتا۔۔

کتابیں لکھنا، ان پر تبصرہ اور تنقید عالم، مورخ، محقق اور نقاد کا کام ہے کہ وہ کس واقعہ کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ عام آدمی اگر وہ تعلیم یافتہ ہے اور مطالعہ اس کا مشغلہ ہے تو وہ اپنی رائے تو دے سکتا ہے بحث مباحثہ نہیں کر سکتا، اس کے لیے بہت وقت چاہیے ۔ اگر محدود معلومات کے ساتھ کوئی بھی شخص علمی بحث میں الجھتا ہے تو سمجھ لیں کہ وہ فساد فی الارض کو ہی ہوا دے رہا ہے۔ کسی بھی کتاب کے مطالعے یا اس کو زیر بحث لانے سے قبل مصنف کے ماضی، علمی تحقیق، تعلیمی قابلیت، سوشل زندگی اور عمومی رویہ کا مطالعہ کرنا ضروری ہے، کہ آیا وہ یہ قابلیت رکھتا بھی ہے کہ مصنف کے رتبہ پر بیٹھایا جائے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کسی فرد نے کبھی علمی اور تحقیقی کام نہ کیا ہو اور نہ وہ تاریخ و تحقیق کے رموز و اوقاف سے واقف ہو اپنے نام سے کوئی کتاب مارکیٹ میں لائے، مختلف طریقوں سے اس کو پھیلائے اور پھر مبینہ طور پر یہ دعوی بھی کرے کہ قرآن مجید کے بعد میری کتاب سب سے مستند ہے۔ اس طرح کا طرز تکلم علمیت نہیں جہالت کی نشانیاں ہیں۔

تازہ شائع ہونے والی کسی کتاب کو لے کر واٹس اپ گروپ میں بحث مباحثہ شروع ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ کیا معاشرے میں اتنا قحط الرجال ہے کہ متعلقہ شعبہ کے سب ماہرین خاموش اور اس بحث سے دور ہیں۔ میں تو صاحب علم دوستوں سے یہی درخواست کروں گا کہ واٹس اپ گروپ میں ہونے والی اس گفتگو پر نظر ڈالیں اس میں عالموں کی گفتگو کہاں نظر آتی ہے۔ بلکہ چند افراد لوگوں کو اشتعال دلانے میں مصروف ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کتاب لکھنا اور بولنا ہر فرد کا حق ہے۔ لیکن وسیع مطالعے، تجربے، اور علم کے بغیر لکھی ہوئی کتاب کتنی ہی مستند ہو تحقیق اور حوالے میں شامل نہیں کی جا سکتی۔ کتاب سے زیادہ صاحب کتاب کی شخصیت دیکھی جاتی ہے تب کتاب مستند ہوتی ہے۔ کسی کتاب اور صاحب کتاب کا صرف اس بنیاد پر علانیہ حمایت یا مخالفت کرنا کہ وہ میرا ہے یا میرے مخالفت ہے اس نے جو بھی لکھا وہ میرے لیے لکھا اچھا ہے اور اگر وہ میری پسند کے مطابق نہیں تو پھر غلط ہے، یہ عالمانہ طرز تکلم نہیں۔ اگر کسی نے کوئی کتاب لکھی ہے اور کوئی دوسرا طبقے یہ سمجھتا ہے کہ اس کی دلعزاری ہوئی ہے تو متاثرین کو دلال کے ساتھ مطمئن کرنے کی کوشش کرنا متعلقہ شخص کی ہی ذمہ داری ہے ناکہ گرو کی صورت میں عوام کو اشتعال دلا کر ٹکراؤ کی پوزیشن پیدا کی جائے ۔ بلکہ اپنی تحقیق کی صداقت کو ثابت کرنے کا وہ خود ذمہ دار ہے جس نے یہ کاوش کہ نہ کہ عام آدمی یا کوئی گروہ ڈنڈا لے کر کھڑا ہو جائے کہ جو اس نے کہہ دیا وہی سچ ہے۔

سردار محمد ابراہیم خان صاحب کے بھائی مولوی میر عالم خان صاحب نے شمس خان کو ملدیال لکھا ہے۔ مبینہ طور پر مجاہد اول کا لفظ بھی انہوں ہی نے متعارف کرایہ۔ شمس خان کے کردار کو متنازعہ بنانے میں مولوی میر عالم صاحب کا ہی حوالہ دیا جاتا ہے۔ کیا کوئی ان کے بارے میں لب کشائی کر سکتا ہے؟ نہیں۔۔ ابھی حال ہی میں سنا ہے فرزند پلندری محمد حسین صاحب نے اپنی تازہ تحقیق کی رونمائی کے لیے جسہ پیر کو منتخب کیا کہ سبز علی خان ملی خان ملدیال تھے۔ کوئی ان پر تو بات نہیں کرتا کہ ناقص معلومات کی بنیاد پر ہماری تاریخ کو کیوں خراب کرتے ہو، اس لیے کہ یہ بڑے خانوادہ ہیں۔ کل جب کوئی اس کا حوالہ دے تو پھر چیخ و پکار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو لوگ اس تقریب میں موجود تھے، ان کو وہاں ہی جواب دینا چاہیے تھا نہ معلوم کیوں زبان بند تھی اور آج بھی خاموش ہیں۔۔ لیکن ہم نے اس بات کا خیال رکھے بغیر کہ مولوی صاحب کا تعلق بڑے خاندان سے ہے۔ ان کی تحقیق سے اختلاف کیا اور اس کو سرعام مستردکیا اور ریکارڈ کو درست کرنے کے لیے محمد حسین خان صاحب کے اس بیان کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ 19ویں صدی میں ڈوگروں کے ساتھ لڑی جانے والی جنگ صرف سدھن علاقوں میں ہوئی تھی، اور ڈوگروں کے سامنے سدھن ہی کھڑے ہوئے تھے۔ وہاں کوئی دوسرے قبیلے کا مجاہد یا لیڈر نہیں تھا۔ وہ شمس خان ہو سبز علی خان یا ملی خان یا کوئی دوسرا لیڈر البتہ ایک نام کے گئی افراد ہو سکتے ہیں اور تاریخ میں ان کا کردار بھی۔ 1995ء میں پہلی مرتبہ سردار شمس خان کے، کریکٹر کو میں نے قوم کے سامنے پیش کیا۔

اس سے پہلے تو اس پر لکھنا دور کی بات کسی سدھن نے اس بارے میں سوچا بھی نہیں تھا، بلکہ اس وقت کے بڑے سدھن انکاری تھے کہ اس مسئلے کو نہ چھیڑو۔۔ مجھے تو عارف سدوزئی نے بھی کہا تھا کہ لکھ رہے ہو تو ثبوت دینا ہو گا۔ جب کہ سردار مختار خان ایڈووکیٹ صاحب نے تو اس مضمون کو کتاب سے نکالنے کا مشورہ دیا تھا۔ ہمارے ملدیال قبیلے کے ساتھ رشتہ داریاں دوستیاں اور تعلق داریاں ہیں اور آدھا خاندان باغ میں رہتا ہے۔ ہمیں نہ کسی نے دھمکی دی اور نہ کوئی حملہ آور ہوا۔ اگر صرف اس بات پر کتاب پر پابندی لگتی تو سب سے پہلے " پونچھ جہاں سروں کی فصل کٹی " پر پابندی لگائی جاتی جو 25 سال قبل شائع ہوئی تھی۔ لیکن ایسی کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ البتہ ملدیال قبیلے کے نوجوانوں کے وفود میرے ساتھ ملتے رہے اور اب بھی ہمارے ساتھ سوال جواب کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ان کو دلیل و دلال کی بنیاد پر قائل کرنا پڑتا ہے۔ میں کشمیر آوں تو باغ میں ملدیال خاندان کے دوستوں کی جانب سے ایک دعوت ضرور ہوتی ہے اگر نہیں جاوں تو شکایت باقی رہتی ہے۔ البتہ میری کتاب کے بعد صدیق چغتائی صاحب کو اختلاف رہا اور کچھ ملدیال دوستوں کو بھی لیکن وہ اختلاف ہمیشہ علمی اختلاف تک ہی محدود رہا۔ صدیق چغتائی صاحب نے راولاکوٹ چک میں میری موجودگی میں اس موضوع پر تقریر بھی کی اور بہت ساری باتیں بھی کیں، کسی نے ان کو نہیں روکا ٹوکا۔ پھر انہوں نے کتاب لکھ دی یا لکھوائی اس میں ہمارے بارے میں ناپسندیدہ الفاظ درج ہیں، لیکن ہم نے یہ ان کی رائے سمجھ کر تسلیم کیا۔ ان کے انتقال پر تعزیت کرنے ریاض اصغر ملوٹی صاحب، سردار عبدالخالق ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر غلام حسین صاحب کے ہمراہ ملوٹ ان کے گھر گئے۔ ان کے بھائی سردار رشید صاحب کے بہترین کام کی بنیاد پر ان کے کام پر کالم بھی لکھا۔

صابر حسین صابر صاحب کی بہترین تحقیق ہے اس کے بعد کوئی کیا لکھے گا۔ پروفیسر مسعود خان صاحب سمیت کئی افراد کی تحقیق میں شمس خان کو سدھن لکھا گیا کسی ملدیال نوجوان نے کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ کتاب پر پابندی لگانے کی باتیں ہوئیں ۔ سدھن تاریخ و ثقافت پر پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی، صابر حسین صابر، پروفیسر مسعود خان سمیت درجنوں سدھنوں نے کتابیں لکھیں اور مضامین لکھتے ہیں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا، اب کیا کسی نے نئی بات لکھ دی کہ پیالی میں طوفان کھڑا ہے۔ لہذا میرے خیال میں موجودہ مسئلہ سدھن ملدیال اور شمس خان کا نہیں یہ تو عالموں کے درمیان علمی بحث ہے چلتی رہے گی۔ یہ دو پونچھ کے دو بڑے قبائل کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ مرحوم کے ایچ خورشید سمیت بڑے بڑے سیاسی مدبر اس بات پر قائل تھے کہ جب تک پونچھ کے قبائل میں آزادی کی رمق باقی ہے مسلہ کشمیر زندہ رہے گا۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی بات نکلی تو سب سی پہلے راولاکوٹ کھڑا ہوا اور اس کے پیچھے باغ تھا۔ سردار محمد ابراہیم خان جب سری نگر اسمبلی کے انتخابات لڑے تھے تو ملدیال قبیلے نے، سو فیصد ووٹ دئے تھے۔ جب سدھنوں کے خلاف آپریشن ہوا تو دھرکوٹ میں راجپوت خواتین نے سدھنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ننگے پاؤں جلوس نکال کر اپنے پاوں کو لہو لہان کر دیا تھا۔

15 اگست 1947ء کو سردار محمد حسین خان آف دھڑے ایک بڑے جلوس کے ساتھ سیاسی ٹیکری کے اجتماع میں شامل ہوئے تھے۔۔۔ پونچھ کے قبائل سدھنوں کے دشمن نہیں دست و بازوں رہے ہیں، اگر کسی جگہ کوئی مسئلہ ہے تو اس کو اپنے گھر میں تلاش کریں۔۔ آج دونوں قبائل کے درمیان غلط فہمیاں اور رنجش پیدا کرنے کا واحد مقصد تحریک آزادی کشمیر کو سبوتاژ کرنا اور مسئلہ کشمیر کو انجام تک پہنچانا ہے، تاکہ اس مسئلے کو لپیٹتے ہوئے کسی مزاحمت کا کوئی اندیشہ ہی باقی نہ رہے۔ را ایک عرصے سے اس پر کام کر رہی ہے اور رومی شرما بھی اپنے پروگرام میں شمس خان کا قصہ بار بار چھیڑ چکی جو اس کے چینل اور پروگرام کا موضوع بھی نہیں تھا۔ بلکہ اس کا بھی یہی مقصد ہے کہ پونچھ کے دو بڑے قبائل کے درمیان دوریاں پیدا ہوں۔۔۔ سدھن نوجوانوں کو اس سازش کو سمجھنا چاہیے۔ اسلاف کی قربانیوں کی گردان لاپنے سے قائدانہ کردار محدود ہوتا ہے جن لوگوں نے اس مرتبہ باغ میں بانی صدر آزاد حکومت سردار محمد ابراہیم خان کی برسی کا پروگرام منعقد کیا ان کو اندازہ نہیں ہوا کہ انہوں نے سردار صاحب کے کردار کو محدود کیا۔

سردار محمد ابراہیم خان سدھن لیڈر نہیں کشمیری رہنما تھے۔ اگر باغ میں جلسہ کرنا مقصد ہی تھا تو وہاں کی ٹاپ لیڈر شپ سردار قمر زمان خان، سردار میر اکبر خان اور عبدالرشید ترابی صاحب کی سطح کے قائدین کو اس جلسے میں دعوت دی جاتی، ورنہ ایسے جلسے کا بھی کیا فائدہ ہے جس میں باغ سے چند سدھن شامل ہوئے ہوں۔ سارے جہاں کی کامیابیوں کو اپنے سر دھونپنے سے کوئی سردار نہیں مانے کا۔ اگر یہی رویہ رہا تو ایک دن سارے اسلاف راولاکوٹ کے رہنما رہ جائیں گے، پلندری والے تو پہلے ہی دور بھاگتے ہیں۔ لوگوں کے چھوٹے کردار کو بڑا مانو تاکہ لوگ آپ کے بڑے کردار کو تسلیم کریں۔

واپس کریں