سدھن ایجوکیشنل کانفرنس، کمپلیکس کاتعمیراتی کام بند کیوں ہوا؟
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
قارئین! آپ کو یاد ہو گا 23 جون 2022ء کو میں نے اپنے کالم میں نشان دہی کی تھی کہ "راولاکوٹ میں قیام کے دوران میرے لیے سب سے زیادہ افسوس و تشویش ناک خبر یہ ہے کہ یونیورسٹی روڑ پر سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کا زیر تعمیر خان صاحب ایجوکیشنل کمپلیکس کا تعمیراتی کام بند ہو رہا ہے " معلوم نہیں اس پر اس کے بعد بھی کچھ کام ہوا یا تب سے ہی بند ہے لیکن آج یہ زیر تعمیر عمارت بوت بنگلے کا روپ دہار چکی۔ لگ بھگ دو سال بعد پھر اس عمارت کو دیکھ کر دکھ ہوا کہ جس ویژن اور جذبے کے تحت اس کے کام کا آغاز ہوا تھا وہ پس پردہ چلا گیا اور دو سال بعد راولاکوٹ کے دورے کے دوران اگر کوئی چیز میرے لیے تکلیف کا باعث بنی تو اسی عمارت کا ڈھانچہ ہے، جسے اب تک مکمل ہو جانا چاہیے تھا لیکن شاہد ہم اجتماعی طور پر اس قابل نہیں کہ کوئی اچھا اور فلاحی کام تکمیل کر سکیں۔
مجھے اس لیے بھی اس منصوبے سے لگاؤ ہے کہ اس کے آغاز میں میری بھی بھر پور مشاورت شامل تھی اور اس وقت ہمارا خیال تھا کہ ہم اس منصوبے کو بروقت مکمل کر پائیں گے۔ لیکن اس خواب کی تعبیر نہیں نکل سکی۔۔کام کے آغاز کے وقت وسائل کم اور جزبہ جواں تھا کام کا آغاز ہوا اور کم وسائل ہونے کے باوجود چار منزلوں کا انفراسٹرکچر تیار ہو چکا، آج وسائل کی کمی نہیں لیکن بے حسی، خود غرضی، عنا پرستی، غرور و تکبر اور ہٹ دھرمی غالب آ گئی۔ سدھن ایجوکیشنل کانفرنس پر ہمیشہ سے یہ الزام رہا کہ اس کی باگ ڈور ریٹائرڈ فوجی افسران یا سول بیورکرٹ کو سونپی جاتی ہے جن میں سماجی خدمات کا جزبہ ہوتا ہے نہ تجربہ، اس لیے یہ 90 سالہ طویل فلاحی ادارہ محض ایک کلب بن چکا جہاں کپ شپ، چائے نوشی اور باہمی تبادلہ خیال کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن 7 نومبر 2021 کو فوجی افسر سردار میجر مشتاق صاحب کی ہی قیادت میں راولاکوٹ کے مقام پر پروقار دعائیہ تقریب میں سدھن ایجوکیشنل کمپلیکس کا باقاعدہ سنگ بنیا رکھا گیا۔ اس موقع پر قبیلے کے معززین اور مخیر حضرات نے 20 لاکھ 70 ہزار روپے اور بعد ازاں 20 فروری 2022 کو راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں منعقد ڈونر کانفرنس میں ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد کا اعلان ہوا۔ اس رقم میں وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان نیازی نے ایک کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کے علاوہ سب سے زیادہ رقم امریکہ میں مقیم المعروف ایف کے (فاروق خان) نے دی تھی۔
افتتاحی تقریب میں صدر جماعت سردار میجر مشتاق خان نے اپیل کی تھی کہ خان صاحب کرنل خان محمد خان کی پیروی کرتے ہوئے ہر سدھن اس کمپلیکس کے لیے ایک اینٹ عطیہ دے۔ اگر آدھے سدھن بھی اس اپیل پر لبیک کہتے تو سات آٹھ لاکھ اینٹیں جمع ہو چکی ہوتی۔ بلا شبہ اس کمپلیکس کی تعمیر کا جزبہ بھی نیک اور اس وقت کے صدر میجر مشتاق صاحب کا ویژن بھی صاف ستھرا تھا کہ دو کنال سے زائد رقبہ پر چار منزلہ ایجوکیشنل کمپلیکس میں سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کے مرکزی دفتر کے علاوہ ، کنونشن سینٹر، ہوسٹل اور نرسنگ کالج قائم کیاجائےگا، جس سے ریاست میں پیرامیڈیکل اسٹاف کی ضرورت کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو بہتر روزگار کے لیے طبی فنی تعلیم کی سہولت مہیا کی جائے گی، جس کی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مانگ ہے۔ منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 11 کروڑ روپے لگایا گیا تھا تاہم قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کے باعث اخراجات میں اضافہ ہوا اور تخمینہ 18 کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ لیکن آج کی صورت حال میں مجھے نہیں لگتا کہ 18 کروڑ روپے میں مکمل ہو پائے گا۔ اس وقت تنظیم کے اکاونٹ میں لگ بھگ دو کروڑ روپے تھے۔ انتظامیہ تذبذب میں تھی کہ اتنی بھاری رقم کہاں سے آئے گی۔
میری رائے بھی ایسے لوگوں کے ساتھ تھی جن کا خیال تھا کہ کام شروع ہونے کے بعد قبیلے کے سخی دل لوگ سامنے آئیں گے اور اس منصوبے کو مکمل کر دیں گے۔ یہ رائے غالب آئی اس وقت کے صدر میجر مشتاق خان صاحب اور جنرل سیکرٹری ڈاکٹر غلام حسین اور ان کی کابینہ نے کام کا آغاز کر دیا۔ پھر ایسے ہی ہوا، بہت سارے نامور لوگ ایسے ہیں جنہوں نے میڈیا میں تصویر اور نام شامل کرانے کے لیے ہزاروں لاکھوں کا اعلان کیا مگر دیا کچھ نہیں۔ لیکن ایسے افراد کی بھی طویل فہرست ہے جنہوں نے اعلان نہیں عمل کیا اور لاکھوں روپے عطیہ کر دیا۔ مبینہ طور پر امریکہ میں مقیم ایف کے (فاروق خان) کی خدمات قابل قدر ہیں جنہوں نے اس وقت کی انتظامیہ سے کہا کہ سب لوگ عطیہ جمع کریں سارے سدھن مل کر جتنی رقم جمع کریں گے اتنی رقم میں اکیلا ہی دوں گا سو ایسا ہی ہوا۔ اس منصوبے پر چار کروڑ سے زائد خرچ ہو چکے جس میں سب سے زیادہ رقم ایف کے خان نے ہی عطیہ کی، اور خوش قسمتی سے وہ آج اس تنظیم کے صدر اور راولاکوٹ گلف ایمپائر کے مالکان سنئیر نائب صدر ہیں۔ لہذا طہ پایا کہ ان دونوں گروپوں کی قیادت اور موجودگی میں منصوبے کے لیے وسائل کی کمی کا مسئلہ نہیں ہو سکتا یقینا کوئی اور مسئلہ ہے جس کی وجہ سے کام کو رکے ہوئے دو سال ہو چکے ۔ جب کہ لوگوں کی یہ شکایت بھی رفع ہوئی کہ تنظیم پر ریٹائرڈ فوجی اور سول بیوروکریسی کا قبضہ ہے اب تو تنظیم مکمل طور پر سول اور تاجروں کے ہاتھ میں ہے تو پھر مردہ حالت میں کیوں ہے ۔
واقعی اس کمپلیکس پر کام وسائل کی کمی کے باعث نہیں رکا ہوا بلکہ عنا پرستی ہٹ دھرمی اور غرور و تکبر کی وجہ سے ہاہمی چپقلش ہے جس سے اجتماعی نقصان ہو رہا ہے ۔ مبینہ طورپر ڈونرز مزید رقم دینے سے قبل پرانے اخراجات کا غیر جانبدار آڈٹ مانگ رہے ہیں جب کہ انتظامیہ اس مطالبے کو اپنی توہین سمجھتی ہے کہ ہم سے حساب مانگا جائے۔ اسی کشمکش میں وقت گزر گیا، منصوبے کی لاگت میں اضافہ اور عام افراد کے دلوں میں وسوسے پیدا ہو رہے ہیں کہ یہ معاجرہ کیا ہے۔ سب جاندیدہ اور سنجیدہ لوگ ہیں مل بیٹھ کر مسئلہ کو ہل کریں اور کام کو آگئیں بڑھائیں۔ یہ عوامی منصوبہ ہے عوام کے عطیات سے تعمیر ہو رہا ہے صرف ڈونر ہی نہیں ہر ایک شہری کا حق ہے کہ وہ سوال اٹھائے اور ذمہ داران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو مطمئن کرے۔ سردار شازیب شبیر خان قائم مقام صدر تنظیم ہیں ان کی معاشرے میں بڑی توقیر اور تعظیم ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ اپنی پوزیشن اور حثیت کو استعمال میں لاتے ہوئے سب لوگوں کو بلائیں اور آپس کی غلط فہمیوں کو رفع دفع کریں، چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں اور غلطیوں کو درگزر کریں اور کام کو وہاں ہی سے شروع کریں جہاں بند ہوا تھا ۔ کام میں جتنی تاخیر ہو گی اتنا ہی اخراجات میں اضافہ اور جذبات ٹھنڈے ہوں گے۔ معززین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اس طرح بیگانے بن کر بیٹھ جانے سے مسئلہ تو حل نہیں ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ ذمہ داران اس گزارش کو ایک درد دل کی عرضی سمجھ کر بھر پور توجہ دیں گے اور چھوٹی چھوٹی رنجشوں کو قومی جذبے پر قربان کر کے اس عظیم الشان کمپلیکس کو جناب میجر مشتاق خان صاحب کے ویژن کے مطابق مکمل کر کے عوامی فلاحی منصوبوں میں ایک اچھے اور بڑے منصوبے کا اضافہ کریں گے۔
واپس کریں