دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبوضہ کشمیر انتخاب کی بازگشت، محبوبہ کا بائیکاٹ ، خطر ناک رپورٹ
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی

مقبوضہ جموں و کشمیر میں اچانک سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے لگتا ہے مودی سرکار اسی سال اکتوبر نومبر میں ریاستی چناو کرانے جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کی ہدایت پر لگ بھگ دس سال بعد ریاستی انتخاب کے لیے تیاریاں ہو رہی ہیں، الیکشن کمیشن نے دو دن پہلے سری نگر کا دورہ مکمل کیا اور سیاسی جماعتوں کے وفود سے ملاقات کے بعد اب جموں پہنچا ہے۔ اس ریجن کے رہنماؤں سے ملاقات کرے گا۔ سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے واضح موقف لیتے ہوئے کہا کہ ’جموں و کشمیر کا مسئلہ سڑک، پانی اور نالیاں وغیرہ بنانے کا نہیں بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ ایک بار امن قائم ہوجائے تو سڑکیں وغیرہ خود بخود بن جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام گزشتہ 70 سال سے بدترین مشکلات سے دوچار ہیں، ہزاروں لوگ جان گنوا چکے 10 لاکھ فوجیوں کی موجودگی اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ کشمیر کا ایک مسئلہ ہے جسے حل کیے جانے کی ضرورت ہے۔

دریں اثناء پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے سری نگر سے جاری ایک الگ تازہ بیان میں کہا کہ وہ ہندوستان کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات نہیں لڑیں گی، اس علاقے کی حیثیت کو میونسپلٹی سے بھی کم کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ خصوصی حیثیت کے خاتمے اور جموں و کشمیر کی حیثیت کو بلدیہ تک گھٹانے کی وجہ سے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گی۔ اس نے پہلے اس وقت الیکشن لڑا تھا جب جموں و کشمیر کا اپنا آئین، جھنڈا اور طاقتور قانون ساز اسمبلی تھی۔ تاہم موجودہ منظر نامے میں، جہاں وزیر اعلیٰ کو فیصلوں کے لیے لیفٹیننٹ گورنر سے اجازت درکار ہے جو مقامی بھی نہیں، ان کے لیے اس میں حصہ لینا نا ممکن ہے۔ محبوبہ نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ انتخابات میں وہ خود حصہ نہیں لے گی یا پارٹی بائی کاٹ پر ہے۔ چند سال پہلے تک سنئیر سیاسی رہنماؤں نے پی ڈی پی کو خیرباد کہ دیا تھا تاہم اب اسی رفتار سے واپس آ رہے ہیں۔ اگر پی ڈی پی نے بائی کاٹ کیا تو شامل ہونے والے سیاست دانوں کا کیا بنے گا جو مزید ایک دن بے روزگار رہنے کو تیار نہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی تو اب یہ صورت حال ہو گئی ہے کہ اکثریت امن کی خاطر انتخابات میں حصہ لینے کی سوچ رہی ہے۔ مبینہ طورپر اطلاعات ہیں کہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے بلآخر مین سٹریم سیاست کا فیصلہ کیا ہے اور اس نے بھارتی حکمرانوں کو یقین دلایا ہے کہ جماعت پر پابندی اٹھائی جائے تو متوقع انتخابات میں حصہ لینے کے لئے تیار ہے۔ جماعت اسلامی کے سنئیر رہنما جو جیل میں ہیں ہفتہ رفتہ پے رول پر پانچ دن کے لیے آزاد کئے گئے۔ ذرائع ان کی رہائی اسی سے جوڑتے ہیں کہ انہیں دوسرے ساتھیوں سے مشورے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ جماعت اسلامی نے 1988ء کے بعد انتخابات میں حصہ نہیں لیا بلکہ حریت کا حصہ رہی، اگر اس نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو یہ حریت پسندوں اور مزاحمت کاروں کو بہت بڑا دھچکا ہو گا۔ کانگریس کے رہنما راہل گاندھی بھارت جوڑو مہم پر جموں پہنچے ہیں ۔اس کے بعد وہ سری نگر جائیں گے۔ توقع ہے کہ وہ سری نگر میں نیشنل کانفرنس کی قیادت سے رابطہ کر کے گرینڈ الائنس بنانے کی دعوت دیں گے۔ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی پرانی سنگت ہے، کبھی جھگڑا کبھی دوستی لیکن دونوں جماعتوں کی ماضی کی سنگت اور بندھن تو پوشیدہ نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر کو پیدا کرنے میں دونوں کا کلیدی کردار ہے،
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

راہل گاندھی تو بس بہانے سے فاروق عبداللہ سے ملنے آ رہا ہے جو کشمیر میں اکیلا ہے۔ دونوں پرانے دوستوں کے ملاپ سے، جموں و کشمیر کی سیاست میں ہلچل آئے گی۔ کانگریس مودی کی کشمیر پالیسی کی ناقد ہے اور 5 اگست کی قانون سازی کو واپس لینا چاتی ہے۔ بھاجپا کو اتحاد کے لئے سجاد غنی لون اور غلام نبی آزاد جیسے ہی بچئے ہیں جو کشمیر میں عزت سادات بھی گنوا بیٹھے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار طویل تعطل کے بعد جموں و کشمیر میں انتخاب تو کرانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ لیکن ان انتخاب کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ منتخب ہونے والی اسمبلی اور اس میں سے بننے والی حکومت کے پاس کچھ اختیار نہیں ہوں گے۔ ان اختیارات کے ساتھ جموں و کشمیر کا وزیر اعلی بننے سے بہتر ہے سری نگر یا جموں کا مئیر کا انتخاب لڑا جائے۔ انتخابی شیڈول سے پہلے ہی تمام انتظامی اختیارات لیفٹیننٹ گورنر کو دے دئے گئے ہیں۔ بھارت کی سول سوسائٹی کے 20 سنئیر افراد کے ایک گروپ نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورت حال پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ حریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے حکومت قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو موخر کر سکتی ہے۔ خاص طور پر جون جولائی سے شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک نے جموں ریجن کے مسلم اکثریتی اضلاع کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے، جب کہ وادی کے بھی کچھ اضلاع میں حالات زیادہ کشیدہ ہیں۔ ایسے علاقوں جہاں آرمی کو داخل ہونے میں دشواریاں ہو رہی ہیں وہاں چناءو کا ماحول کیسے ہو سکتا ہے۔

جموں و کشمیر میں امان اماں کی موجودہ صورت حال 5 اگست 2019ء کے بعد پہلی مرتبہ دیکھی جا رہی ہے جہاں دو ڈھائی ماہ کے دوران قابض بھارتی فورسز پر پندرہ سے زائد حملوں میں افسران سمیت 60 سے زیادہ بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔ جب کہ زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جموں ریجن کے چھ اضلاع اور وادی کے کچھ علاقوں میں گرفیو کو ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ ہو گیا، جب کہ بھارتی فورسز چھ سو سے زائد افراد کو گرفتار کرنے کے باوجود حریت پسندوں کی کارروائیوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی سول سوسائٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کا کہنا ہے اس کے اقدامات سے خاص طور پر 5 اگست 2019ء کے اقدام سے کشمیر میں دودھ اور شہد کی نہریں رواں اور امن و امان قائم ہو گیا ہے جب کہ حکومت کے حمایتی اس پر تالیاں بھی پیٹ رہے ہیں۔ تاہم صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے۔ رپورٹ تیار کرنے والے 20 مقتدر شخصیات میں پانچ سابق سینئر جج ، سابق سکریٹری خارجہ و داخلہ سمیت چار ریٹائرڈ اعلی سول اور چار فوج سے ریٹائرڈ افسران سمیت تاریخ دان رام چندر گوہا شامل ہیں۔ بھارت بھر سے ان چوٹی کے تجربہ کار ماہرین کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ مودی حکومت نے انتخابی حلقوں کی تشکیل نو کر کے اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ جب انتخابات ہوں تو بھارتیہ جنتا پارٹی جموں و کشمیر میں بڑی پارٹی کے طور پر ابھرے ۔ اسلام آباد راجوری لوک سبھا حلقے کی ایسی حد بندی کی گئی ہے کہ اس میں پونچھ اور راجوری اضلاع کے لاکھوں گجر اور پہاڑی مسلمانوں کو شامل کیا گیا اور اس عمل سے جموں لوک سبھا حلقے سے 740000 مسلم ووٹروں کو ہٹا دیا گیا۔ جس کی وجہ سے بی جے پی نے حالیہ لوگ سبھا انتخابات میں جموں سے کامیابی حاصل کی۔ رپورٹ کے مطابق اگر پچھلی حدبندی پر انتخابات ہوئے ہوتے تو اس کا جیتنا مشکل تھا۔ اسی طرح مسلم اکثریتی وادی کشمیر جہاں ریاست کی 56.15 فیصد آبادی رہتی ہے کے حصے میں اسمبلی کی 47 نشستیں اور ہندو اکثریتی جموں کی 43.85 فیصد آبادی کو 43 نشستیں دی گئیں۔ ایسی حدبندی ووٹروں کی مساوات کے بنیادی جمہوری اصول کو پامال کرتی ہے۔

اسی طرح کی ایک اور رپورٹ فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں کشمیر سے متعلقہ شخصیات نے تیار کی جس میں لیفٹیننٹ گورنر کو قبل از انتخاب انتظامی اختیارات دینے پر مایوسی کا اظہار کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق اگر انتخابات کی صورت میں منتخب حکومت برسرِاقتدار آ بھی جاتی ہے، وہ بے اختیار ہوگی۔ اس آئینی ترمیم سے پولیس ، بیوروکریسی ، اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر پر لیفٹیننٹ گورنر کا کنٹرول ہو گا اور ریاست میں ملازمین کی تقرریوں اور تبادلوں سے متعلق تمام امور کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کی پیشگی منظوری لینی ہوگی۔ لیفٹنٹ گورنر کے نمائندے کو کابینہ کے تمام اجلاسوں میں شرکت کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وزراء کے شیڈول یا میٹنگوں کے ایجنڈے کو کم از کم دو دن پہلے گورنر کے دفتر میں جمع کرانا ہوگا۔ یعنی وزراء اپنی مرضی سے کسی سے مل بھی نہیں سکیں گے اور نہ ہی گورنر کے پیشگی اجازت کے بغیر محکمہ جاتی افسران کا اجلاس بلا سکیں گے ۔ یہ رپورٹ مرتب کرنے والی شخصیات میں جنہوں نے یہ دوسری رپورٹ مرتب کی ہے سپریم کورٹ آف انڈیا کی سابقہ جج جسٹس روما پال ، دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ، اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ، جسٹس بلال نازکی اور جموں کشمیر ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس حسنین مسعودی، سابقہ سکریٹری داخلہ گوپال پلائی ، کشمیر کی سابقہ مذاکرات کار رادھا کمار اور سابقہ سکریٹری خارجہ نروپما راﺅ بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں ریاستی حیثیت کی فوری بحالی پر بھی شکوک و شبہات ظاہر کیے ہیں اور کہا کہ مودی سرکار جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو بحال کرنے کے موڈ میں نہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020ء سے دسمبر 2023ء کے درمیان یو اے پی اے یعنی انسدادِ دہشت گردی قانون اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 2700 سے زیادہ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا جن میں سے 1100 کو عسکریت پسندوں کے سہولت کار قرار دیا گیا تھا۔رپورٹ میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے حوالے سے بتایا گیا کہ بھارت میں 7 صحافیوں کو جیل بھیج دیا گیا جن میں سے 4 کا تعلق جموں کشمیر سے تھا۔ جب کہ جموں و کشمیر کی معیشت ابھی بھی 2019ء کی پوزیشن پر واپس بحال نہیں ہوئی۔

گزشتہ سالوں میں بے روزگاری کی شرح بھارت میں سب سے زیادہ کشمیر میں ہے جو 18.3 فیصد تک ہے۔ فورم کی 2023ء کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ بے روزگاری اور منشیات کے استعمال کا جموں اور کشمیر میں گہرا تعلق ہے۔ جموں کشمیر منشیات کے استعمال کے لیے سرفہرست خطوں میں سے ایک ہے ، جس میں اندازے کے مطابق 9 لاکھ افراد منشیات کے عادی ہیں، جب کہ جموں کشمیر کی 55.72 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار بتائی گئی ہے جس میں سب سے زیادہ تعداد 15-35 سال کی عمر کے نوجوانوں کی ہے۔ خودکشی کی شرح 2020ء میں 2.1 فیصد سے بڑھ کر 2023-2024ء میں 2.40 ہو گئی ہے۔دفعہ 370 کے خاتمے اور کووڈ 19 وبا کے بعد خودکشی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوا۔ ریاست کے باہر تعلیم حاصل کرنے والے جموں کشمیر کے 16 طلباء نے خودکشی کی ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کاذہنی صحت کا بنیادی ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے۔ 12.5 ملین کی ریاست میں صرف 41 ماہر نفسیات ہیں اور ان میں سے زیادہ تر سرینگر اور جموں شہروں میں مرکوز ہیں۔ دہہی علاقوں کے عوام کو اس قسم کے علاج کی کوئی سہولت موجود نہیں۔۔ اس صورت حال میں مودی سرکار انتخابات کا ڈھونگ صرف اس لیے رچا رہی ہے کہ دنیا کو ایک اور دھوکہ دے سکے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں امن امان بہتر ہے اور وہاں جمہوری حکومت کو بحال کر دیا گیا ہے۔

واپس کریں