کشمیر میں پھر میدان جنگ سج چکا ، 50 بھارتی فوجی ہلاک متعدد زخمی
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک مرتبہ پھر میدان جنگ سج چکا۔ دونوں جانب سے بھرپور تیاریاں ہیں، یہ آخری اور فیصلہ کن راونڈ ہو گا یا پھر کسی موڑ پر کشمیری پیچھے مڑ کر دیکھیں گے کہ پشت تھپکانے والے دوست بین دور کھڑے مشورہ دے رہے ہیں کہ ماضی بھول کر مستقبل کی فکر کرو۔ اس کا جواب تو حریت کانفرنس ہی دے پائے گی جو پاکستان کے عوام اور سیاسی قیادت کو بھولی بسری شہ رگ کی یاد دہانی کرانے اسلام آباد کے بنکلے سے نکل کر اچانک سڑکوں پر تو آ چکی، لیکن صحیح اور واضح انداز میں مُدَّعا بَیان کَرنے سے کتراتی ہے۔ واقعی میں پچھلے دس پندرہ برسوں سے مسئلہ کشمیر کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا، پاکستانی عوام کیا خود آزاد کشمیر کے عوام کو بھی کچھ یاد نہیں کہ وہ بیس کیمپ کے شہری ہیں اور ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ اسی صورت حال میں حریت کے ایک بڑے لیڈر نے کہا تھا کہ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ آزاد کشمیر کے عوام ہمارے ساتھ نہیں جب وہاں کے ایک گروپ نے آزاد کشمیر میں مہنگائی کے خلاف 5 فروری کو یوم سوگ منانے کا اعلان کیا اور پھر اس پر بحث چھڑ گئی۔ گو کہ اس گروپ نے 5 فروری کو یوم سوگ کے اعلان کو واپس لے لیا تھا لیکن کشمیر کے کسی حصے میں 5 فروری یوم کشمیر کے موقع پر اس طرح کا اعلان بھی باعث تشویش ہے لیکن سیاسی قیادت اور خاص طور پر آزادی کی تحریک کے پشت بانوں کے لیے سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کشمیری عوام کی اگر یہ حالت ہے تو پاکستانی عوام سے شکایت کیسی۔
ہمیں شکایت سے قبل خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہئے کہ کیا کرنا چاہئے تھا اور کیا کیا۔ گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران تحریک کو جس طرح بلندیوں سے خود کھینچ کر نیچے لائے وہ بھارت کی 12 لاکھ فوج بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس دوران سید علی گیلانی کے ساتھ کشمیری نوجوانوں کا جو اعتماد ٹوٹا اس کی بحالی کے لئے تیز رفتاری کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے حریت قیادت اسی گیپ کو فل کرنے کی غرض سے جلدی میں ہے۔ کراچی میں ایک شو کے بعد اب لاہور میں سرگرم ہے جہاں وہ 19 جولائی 2024ء کو یوم حلاق پاکستان بنائے گی۔ کراچی پریس کلب کے عشائیہ میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک سنئیر تجزیہ نگار اور صحافی عبدالجبار ناصر نے کنوینئر سے سوال کیا کہ کیا کشمیری 1988ء کی غلطی کو پھر دھرا رہے ہیں جس کی پاداشت میں کشمیر گیا، تحریک آزادی گئی، یہ بیواؤں کا تحفہ و یتیم ملے، شہدائے قبرستان آباد ہوئے اور ہاتھ کچھ بھی نہ آیا ۔ کنوئینر نے مائیک جنرل سیکرٹری کے حوالے کیا جس نے طویل تمہید باندھی مگر سوال کا جواب گول کر دیا۔ تاہم حریت قیادت کی باڈی لینگویج بتا رہی تھی کہ عبدالجبار ناصر کا سوال کچھ غلط نہیں۔
کسی نے حریت قیادت کے کان میں کہہ دیا کہ "چَڑْھ جا بیٹا سُولی پَر، رام بَھلا کَرے گا" اگر 2025 اور 2026 کے دورانیہ کے لیے سلامتی کونسل کی غیر مستقل ممبر شپ سے فائدہ اٹھانے کی پالیسی ترتیب دی گئی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کی فائلوں سے نکال کر اوپر لایا جائے تو یہ ماحول بنانا بہتر حکمت عملی ہے ،لیکن اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جو کام 77 برسوں میں نہیں ہوا اسے ایک سال میں کیا ہونا۔ اس کے لیے طویل مدت ٹھوس پالیسی کی ضرورت ہے جس کو کسی بھی حالت میں کوئی تالع آزما طاقت کے زور پر تبدیل کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ حریت قیادت کو پاکستانی عوام کو شہ رگ یاد دلانے سے زیادہ آزاد کشمیر کے عوام میں اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ شکایت باقی رہے گی کہ قوام ساتھ کھڑی نہیں۔ حریت اگر آل پارٹیز ہے تو مختلف خطوں، زبانوں اور ثقافتوں پر مشتمل ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ ہونا چاہیے ناکہ وادی کے 13 اضلاع پر مشتمل، کیا وجہ ہے کہ حریت قیادت میں جموں کی بھر پور نمائندگی نہیں، لداخ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو آپنے ساتھ شامل ہی نہیں کیا تو تحریک کا یہی حشر ہونا تھا۔ اب چوں کہ نئے جذبات اور نئے ماحول میں نئی امیدوں اور آمنگوں کے ساتھ کام شروع ہو رہا ہے تو آل پارٹیز حریت کانفرنس جموں و کشمیر کی تنظیم نو کر کے آل جموں و کشمیر حریت کانفرنس قائم کی جائے۔
اگر یہ سمجھا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر آزاد ہو چکے ان کو شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے تو پھر وہاں کے عوام سے شکایت اور نہ کسی امید کی ضرورت ہے۔ عبدالجبار ناصر نے دوسرا سوال یہی کیا تھا کہ حریت کانفرنس نے ہمیشہ گلگت بلتستان کو نظر انداز کیا اس کی کیا وجہ ہے اس کا بھی معقول جواب نہیں دیا گیا۔ جب تک ریاست کی یکتائی اور مختلف خطوں کی عوام کو جوڑنے کی بات نہیں ہو گی وادی تنا کچھ نہیں کر سکے گی اور آل پارٹیز حریت کانفرنس جموں و کشمیر کی ابتداء سے ہی یہ کمزوری رہی کہ اس نے کشمیر کی تو بات کی جموں و کشمیر کی نہیں جب کہ مسئلہ کشمیر نہیں جموں و کشمیر ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مجاہدین نے مودی کے غبارے سے ہوا نکال دی جو دنیا بھر میں اعلان کرتا پھرتا تھا کہ جموں و کشمیر میں امن ہو چکا اور 5 اگست کے اقدام سے کشمیری خوش ہیں۔ مجاہدین نے بھارتی فورسز کو ایک مرتبہ پھر نتھ ڈال دی ہے۔ صرف ڈیڑھ ماہ کے دوران ہی بھارتی قیادت اور میڈیا چیخنا چلانا شروع ہو چکا۔ جہاں جموں ریجن میں بھارتی فورسز پر سات کامیاب حملوں میں افسران سمیت پچاس سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے۔ یہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران حریت پسندوں کی بڑی اور کامیاب کارروائی ہے، جس سے دنیا بھر کے بڑے میڈیا ہاوس میں کشمیر ایک مرتبہ پھر شہ سرخیوں میں آ گیا۔ یہ تحریر لکھتے وقت جموں ریجن کے ضلع ڈوڈہ کے دیسہ شائی دھار درمن کے جنگلات میں حریت پسندوں اور ہندوستانی فورسز کے درمیان جھڑپ جاری ہے ۔بھارتی میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ اس حملے میں ایک کپٹن سمیت پانچ اہلکاروں کو ہلاک کر دیا گیا جس کے بعد نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت بھر میں گہرام مچا ہوا ہے۔ کشمیر ٹائیگر فورس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن بھارتی دفاعی تجزیہ کاروں نے پاکستان پر زبانی حملے شروع کر دئیے ہیں کہ وہ خطے میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ اس طرف سے اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیا جا رہا اگر بروقت جواب الجواب کا سلسلہ نہ شروع ہوا تو ایک مرتبہ پھر ہم پر بین الاقوامی دباؤ آنے کا خطرہ ہے۔
بھارت میں تمام مکتب فکر اس میں متفق اور یکتا ہیں کہ حریت پسندوں کو بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد ثابت کر کے اس کی تمام تر ذمہ داری پاکستان پر ڈالی جائے ۔ اب یہ ہماری سفارت کاری کا کمال ہو گا کہ حریت پسندوں کا کیسے دفاع کیا جاتا ہے۔ حریت پسندوں نے اب کے بار چناب اور پیر پنجال میں پنجہ آزمائی شروع کی ہے۔ اس کے اثرات وادی تک جائیں گے کیونکہ مرکز و محور تو وادی کشمیر ہی ہے۔ مگر وادی کشمیر نے 30 سال تک اتنے مظالم برداشت کئے کہ ان کو کھڑے ہونے میں وقت لگے گا۔ فی الحال پیر پنجال خبروں کی سرخیوں میں ہے جہاں آئے روز آتنگ بادیوں کے نام پر نوجوان ہلاک اور سفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہو رہے ہیں۔گاوں، گاوں سرچ آپریشن تیز کر دیا گیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق راج ناتھ سنگھ نے بھارتی سینا کو مکمل فری ہینڈ دیا ہے۔ خطرہ ہے کہ کسی روز مقبوضہ پونچھ یا راجوری میں " کنن پوش پورہ " ایکشن ریپلے نہ ہو جائے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران مقبوضہ جموں و کشمیر میں تین سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں سری نگر ہائی کورٹ بار ایسوسی کے صدر نذیر احمد رونگا اور کئی دیگر وکلاء بھی شامل ہیں۔ اب فورسز ان کو بغیر مقدمہ چلائے دو سال تک اپنی تحویل میں رکھ سکیں گی۔ ظاہر ہے فورسز کو کھلی چھٹی دینا کا مقصد ہے کہ وہاں وادی کشمیر کی طرح بڑی سطح کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوں گی اس کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کے لیے فوری حکمت عملی کی ضرورت ہے بلکہ یہ شور تو آج ہی سے ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میڈیا کے پاس اس کے لیے وقت ہی نہیں پاکستان میڈیا میں اس وقت دو گروپ ہیں ایک عمران کو سچا اور دوسرا جھوٹا قرار دینے میں مصروف ہے۔ اس کو کشمیر تو یاد بھی نہیں اور نہ کشمیر کی حکومت اور سیاست دانوں کو یاد ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو گرفتاریوں کا سلسلہ تیز ہوا ہے اس کو شہ سرخیوں میں اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ بھارتی میڈیا کے ساتھ بیلنس ہو سکے۔ ورنہ گزشتہ کی طرح ہم مجاہدین کی جانب سے زمینی جنگ میں ہونے والی کامیابی نفسیاتی جنگ میں ہار جائیں گے۔ گزشتہ چار روز سے بھارتی حکومت شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات میں اچانک غیر معمولی اضافہ کر دیا گیا۔ حکومت پر اپوزیشن کا شدید دباؤ ہے۔ اکبر الدین اویسی، رہل گاندھی سمیت اپوزیشن قیادت نے سخت بیانات میں مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ محبوبہ مفتی انتخابات ہارنے کے بعد پہلی مرتبہ میڈیا کے سامنے آئی تو اس کی آواز میں ہارنے کا درد اور قوم پرستی کے ملے جلے جذبات نمایاں تھے۔ انہوں نے علانیہ کہا کہ عوام نے رائے شماری کے نام پر ووٹ دئے ہیں جو بھارت کے منہ پر تماچہ ہے۔ جموں میں حالات خراب ہیں جو انتظامی فیلر ہے۔ بھارت نے ہر کشمیری سے جنگ شروع کر دی جس کے نتائج برے ہوں گے۔ محبوبہ نے کہا کہ کشمیر میں حریت قائدین انتقال کر گئے یا جیلوں میں بند ہیں تو عوام کو اب رائے شماری کی ترغیب کون دے رہا ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ جموں و کشمیر بھارت سے ناراص ہے۔ عمر عبداللہ ہو، محبوبہ مفتی یا سجاد غنی لون ان کی شکست عوام نے بھارت نوازی کو مسترد کر دیا مرکزی حکومت نے کشمیریوں کے ساتھ اتنی زیادتیاں کی کہ اب وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے"۔
مقبوضہ کشمیر میں جتنی بھی کوشش کی جائے 12 لاکھ فوج سے چند لوگ یا چند سو افراد جنگ نہیں لڑ سکتے، یہ مزاحمت کار ہیں جو اپنے مقدمہ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے جموں و کشمیری، کے عوام ایک قوم ہیں، نہ ان کی کوئی تحریک آزادی ہے اور نہ ان کی کوئی قیادت ہے۔ یہ تقسیم دانستہ کی گئی ہے، اب مزاحمت کاروں کی وکالت کون کرے۔ ان کی پشت پر کون کھڑا ہو جو دنیا تک ان کی آواز پہنچائے۔ حریت کانفرنس لاکھ حلاق پاکستان ریلیاں نکالے اور سردار عتیق احمد خان کشمیر بنے گا پاکستان کی لام بندی کرتا رہے۔ جب تک تحریک آزادی کی سمت درست نہیں ہوتی بھارت کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ کشمیری مجاہدین نے تو 90 کی دہائی میں ہی جنگ جیت لی تھی جو سفارتی محاذ پر ہاری گئی۔ 77 سالہ پرانے بیانیہ کو بھارت سفارتی محاذ پر شکست دے چکا اور حریت پسندوں کو دہشت گرد کہلانے میں کامیاب ہوا ۔ اب اس بیانیہ سے دنیا کو قائل نہیں کیا جا سکتا اور جب تک دنیا قائل نہیں ہوتی بھارت کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ اگر کشمیر کو بھارت کے چنگل سے آزاد کرانا ہے جو کشمیریوں سے زیادہ پاکستان کے مفاد میں ہے تو ایک نیا بیانیہ دینا ہو گا۔ جس میں کشمیریوں کو دنیا کے سامنے ایک قوم اور اس کی آزادی پیش کیا جائے، جو بھارت سے آزادی چاتی ہے۔ مسئلہ کشمیر کو دو ملکوں کے سرحد تنازعہ سے نکال کر قومی آزادی کا مسئلہ بنانا ہوگا اور سفارت کاری کشمیری قیادت کے سپرد کرنا ہو گی ۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے ایوانوں میں انہی کو اپنی نمائندگی خود کرنے کا اختیار ہونا چاہئے جو آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اس کے لیے کشمیری قیادت کو نمایاں کرنا ہو گا جو دنیا کو بتائے کہ ہمارے ساتھ ظلم ہو رہا ہے ۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست کے ایچ خورشید نے 1962ء میں جو بتایا تھا آج بھی تحریک آزادی کے لیے وہی اصول کارآمد ہے آزاد کشمیر آزادی کی تحریک کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے۔ تعمیر و ترقی کے سارے کام بلدیاتی اداروں کو سونپ کر آزاد حکومت کو صرف ایک ہی ڈیوٹی دی جائے کہ وہ قومی خزانے میں لوٹ مار بند کر کے دنیا بھر میں آزادی کی سفارت کاری کرے۔ حریت کانفرنس کو آزاد کشمیر حکومت میں نمائندگی دی جائے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر ہی کشمیریوں کا منتخب نمائندہ ہے۔ اس کا اور اس کے وزیر خارجہ کا حق ہونا چاہئے کہ وہ جنرل اسمبلی میں اپنی قوم کی آزادی کا مقدمہ پیش کریں ۔ پاکستان کو بڑے بھائی کی طرح کشمیریوں پر اعتماد، ان کی حمایت اور سرپرستی کرنا چاہیے۔ کشمیری مندوب ہی اسکورٹی کونسل میں مقدمہ اٹھائے گا تو لوگ سنیں گے اور یہی مستقبل پالیسی ہونا چاہئے۔ بصورت دیگر حریت قیادت آنیاں جانیاں کر لیے جلوس اور ریلیاں نکال لے، وقت گزرنے کے ساتھ، شہداء کی تعداد ایک لاکھ سے دو لاکھ ہو جائے گی، گرفتار افراد 6 ہزار سے 12 ہزار، غائب کئے جانے والے 16 ہزار یتیم بچے ایک سے دو لاکھ، بیواوں کی تعداد دگنی ہو جائے گی اور اجتماعی ریپ 26 ہزار ہو جائیں گی پھر کوئی اٹھ کر بولے گا میں ایوب خان اور ضیاء الحق نہیں پرویز مشرف ہوں اور سب کچھ پیچھے ہٹنا شروع ہو جائے گا۔ کشمیریوں نے جہاں سے سفر شروع کیا تھا واپس اس سے بھی پیچھیں چلے جائیں گے۔ حریت کانفرنس کو سمجھنا اور سمجھانا چاہئے کہ آزادی کے لیے جزوقتی نہیں کل وقتی پالیسی کی ضرورت ہے جس میں کسی ایک کی نہیں پوری پاکستانی اور کشمیری عوام اور اداروں کی رضامندی شامل ہو۔ آئیں اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کے لیے اور کشمیریوں کو عقل سلیم عطا فرمانے کے لئے۔
واپس کریں