کیا آپ روحانی تجربات کی اہمیت، افادیت اور معنویت سے واقف ہیں؟
ڈاکٹر خالد سہیل
ماہر نفسیات ولیم جیمز کا خیال تھا کہ روحانی تجربات کا تعلق مذہبی عقیدت سے کم اور انسانی شخصیت سے زیادہ ہے اور ان تجربات میں انسان کا لاشعور ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ولیم جیمز کا انسانی لاشعور کا تصور سگمنڈ فرائڈ کے تصور سے مختلف تھا۔ فرائڈ لاشعور کو جنسی جذبات اور ناآسودہ خواہشات کا منبع سمجھتے تھے جو اپنا اظہار خوابوں میں کرتے ہیں جبکہ ولیم جیمز کا خیال تھا کہ انسانی لاشعور کو تعلق جنسی جذبات سے کم اور روحانی واردات سے زیادہ ہے جس کا اظہار فنون لطیفہ اور روحانی جذبات احساسات ’تصورات اور تجربات میں ہوتا ہے۔
ولیم جیمز اپنے نفسیاتی مطالعے اور تحقیق میں مذہبی عقائد کو کم اور روحانی تجربات کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ روحانی تجربات کے بارے میں ان کا رویہ عالمانہ اور محققانہ تھے۔ وہ روحانی تجربات کے مشاہدے ’مطالعے اور تجزیے سے ایسے نتائج اخذ کرنا چاہتے تھے جو مذہبی‘ غیر مذہبی اور لا مذہبی سبھی کے لیے قابل قبول ہوں۔ وہ ساری عمر روحانی تجربات کا معروضی انداز میں مطالعہ کرتے رہے۔ وہ روحانی تجربات کا رشتہ بھگوان اور رحمان سے جوڑنے کی بجائے انسان سے جوڑتے تھے تا کہ ہم سب جان سکیں کہ وہ تجربات انسان کی سوچ ’اس کی فکر‘ اس کی ذات اور اس کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں۔ولیم جیمز نے روحانیت کی نفسیات کے علم کی جو بنیاد رکھی اس پر بیسویں صدی کے ماہرین اور محققین نے بلند و بالا عمارت تعمیر کی۔اس تحقیق میں ماہرین کے لیے پہلا سوال یہ جاننا تھا کہ عوام و خواص میں کتنے لوگوں کو روحانی تجربات ہوتے ہیں۔
ماہرین نے ہزاروں لوگوں کو سوالنامے دیے۔ ان سوال ناموں میں اس قسم کے سوال تھے ، کیا آپ کو کبھی یہ احساس ہوا ہے کہ آپ کے ارد گرد کوئی بڑی روحانی طاقت موجود ہے؟ کیا آپ کو زندگی میں غیر متوقع طور پر ایسا پراسرار واقعہ پیش آیا جس نے آپ کی زندگی کا رخ موڑ دیا؟ ایک تحقیق میں تیس فیصد دوسری تحقیق میں بتیس فیصد اور تیسری تحقیق میں اکتالیس فیصد لوگوں نے کہا کہ انہیں اپنی زندگی میں ایک یا ایک سے زیادہ دفعہ روحانی تجربہ ہوا ہے۔ماہرین نفسیات کے لیے دوسرا سوال یہ تھا کہ ایسے تجربات کے انسانی دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
روحانی تجربات پر سائنسی تحقیق کرنے والے ایک ماہر نفسیات اینڈریو نیو برگ نے تبت کے ایسے راہبوں کو ’جو خدا پر یقین نہیں رکھتے تھے اور ایسی عیسائی نن کو جو خدا پر یقین رکھتی تھیں، کو اپنے کلینک اور لیبارٹری میں آنے کی دعوت دی۔ نیوبرگ نے ان کے دماغوں کو اپنی مشینوں سے ایسے جوڑا کہ ان کے دماغ کی تبدیلیوں کو ریکارڈ کیا جا سکے۔دونوں گروہ جب خشوع و خضوع سے اپنی عبادت و ریاضت میں محو ہو گئے تو نیوبرگ نے یہ دیکھا کہ ان کے دماغ کے پیرائٹل لوب کی سرگرمیاں کم ہو گئیں۔
ماہرین جانتے ہیں کہ یہ دماغ کا وہ حصہ ہے جو ہماری ذات کو کائنات سے جدا کرتا ہے۔ جب وہ حصہ کم فعال ہوتا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم کائنات کا اور کائنات ہمارا حصہ بن گئی ہے۔ اس سے ذات اور کائنات کا فرق مٹ جاتا ہے۔ اس کیفیت کو شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے من تو شدم تو من شدی تا کس نگوید بعد ازاں من دیگرم تو دیگری
سائنس اور ٹکنالوجی کی وجہ سے اب ہم روحانی تجربات کے انسانی دماغ پر اثرات کا سنجیدگی سے مطالعہ اور تجزیہ کر سکتے ہیں۔سائنسدانوں کا مطالعہ اور تجزیہ روحانی تجربات کا معروضی اور آبجیکٹو پہلو ہے۔ ان تجربات کا دوسرا پہلو ذاتی اور سبجیکٹو ہے۔ مذہبی لوگ ان تجربات کا رشتہ خدا اور فرشتوں اور لا مذہبی لوگ ان تجربات کا رشتہ یا تو فطرت سے اور یا انسان کے انفرادی اور اجتماعی لاشعور سے جوڑتے ہیں۔
ایک اور ماہر نفسیات ہربوٹ بنسن نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا کہ روحانی تجربات کے بعد انسان پر سکون محسوس کرتے ہیں۔انسانی دماغ کا زیریں حصہ جو لمبک سسٹم کہلاتا ہے جس کا تعلق جذبات سے ہے وہ حصہ بھی روحانی تجربات اور واردات سے متاثر ہوتا ہے۔ ان تجربات کے بعد انسان کم پریشان رہتا ہے۔ اس کے مسائل تو کم نہیں ہوتے لیکن وہ ان مسائل کے بارے میں کم فکرمند ہوتا ہے۔روحانی تجربات کے اثرات نہ صرف انسانی جسم اور دماغ پر ہوتے ہیں بلکہ ان کے اثرات انسان کے شعور پر بھی ہوتے ہیں۔ انسان کا تعارف چند حیرت انگیز اور غیر معمولی کیفیات سے ہوتا ہے۔ وہ تجربات اسے ایک اور ہی دنیا کی سیر کرواتے ہیں ایسی دنیا جس کا عام دنیا سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ اس دوسری دنیا کے تجربات کو عام زبان میں بیان کرنا اور عام لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
نفسیات کی وہ شاخ جو روحانی تجربات اور ان تجربات کے انسانی دماغ اور شخصیت سے تعلقات پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہے اب نیورو تھیالوجی کہلاتی ہے۔ یہ انسانی نفسیات اور سائنس کی پرانی کتاب کا ایک نیا باب ہے۔ماہرین نفسیات کے لیے روحانی تجربات کے بارے میں تیسرا سوال یہ ہے کہ ان تجربات کا آغاز کیسے ہوتا ہے۔ وہ کون سے حالات و واقعات ہیں جو ایسے تجربات کو تحریک دیتے ہیں۔ ماہرین نے جن لوگوں کا تجزیہ کیا ان میں اقلیت ان مذہبی لوگوں کی تھی جو ایسے تجربات کی تلاش میں عبادات میں مشغول رہتے ہیں اور اکثریت ان غیر مذہبی لوگوں کی تھی جن کی تلاش میں روحانی تجربات رہتے ہیں۔
نفسیاتی اور سائنسی تحقیق نے ہمیں یہ بتایا ہے مذہبی لوگوں کو یہ تجربات ان کی عبادت کے دوران ہوتے ہیں لیکن غیر مذہبی اور لا مذہبی لوگوں کو ۔ فطرت کی قربت ، ۔ تنہائی میں وقت گزارنے کے بعد ، موسیقی سننے کے دوران ، رقص کرتے ہوئے ، کسی قریبی دوست یا رشتہ دار کی موت کے بعد ، ۔ بچے کی پیدائش کے وقت ایسے روحانی تجربات ہوتے ہیں۔جن لوگوں کو روحانی تجربات ہوتے ہیں ان میں سے صرف بیس فیصد ان تجربات کی خواہش رکھتے ہیں اور ان کی تلاش کرتے ہیں باقی اسی فیصد ایسے ہیں جنہیں وہ تجربات زندگی کے غیر متوقع تحفے کے طور پر ملتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کے لیے چوتھا سوال یہ تھا کہ جن لوگوں کو روحانی تجربات ہوتے ہیں وہ باقی لوگوں سے کیسے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں ایسی کیا خصوصیت ہوتی ہے کہ روحانی تجربات خود آگے بڑھ کر انہیں گلے لگاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کی تحقیق نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ روحانی تجربات ایسے لوگوں کو ہوتے ہیں جو غیر روایتی ہوتے ہیں اور وہ زندگی میں نئے خیالات ’نئے جذبات‘ نئے نظریات اور نئے تجربات کے لیے اپنے دل اور دماغ کے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ وہ اپنے خیالوں، جذبوں اور خوابوں میں کھو جاتے ہیں۔ وہ اپنے من میں ڈوب جاتے ہیں اور جب اپنے من میں ڈوب جاتے ہیں تو زندگی کے راز پا جاتے ہیں اور بصیرت کی روشنی سے متعارف ہوتے ہیں۔ میرے دو اشعار ہیں
میں اپنی ذات کی گہرائیوں میں جب اترتا ہوں
اندھیروں کے سفر میں روشنی محسوس کرتا ہوں
کبھی ہر عارضی کو دائمی میں سمجھا کرتا تھا
اور اب ہر دائمی کو عارضی محسوس کرتا ہوں
ماہرین نفسیات کے لیے پانچوں سوال یہ تھا کہ جن لوگوں کو ایسے تجربات بار بار ہوتے ہیں ان کی شخصیت میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ ماہرین نے اپنی تحقیق سے یہ جانا کہ روحانی تجربات والے مرد و زن دھیرے دھیرے پر سکون زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں قناعت آتی ہے۔ ان کی شخصیت میں غصہ، تلخی، حسد اور نفرت کم ہونے لگتے ہیں اور اپنائیت، پیار، امن اور محبت بڑھنے لگتے ہیں۔ وہ دھیرے دھیرے ایک درویشانہ بے نیازی سے زندگی گزارنے لگتے ہیں مل جائے تو شکر نہ ملے تو صبر
البرٹ آئن سٹائن فرمایا کرتے تھے کہ جہاں اس دنیا میں ایسے سنت سادھو اور صوفی رہتے ہیں جنہیں سب لوگ جانتے ہیں وہیں ایسے دہریہ درویش بھی ہیں جو صرف اہل قلب و نظر کو دکھائی دیتے ہیں۔ماہرین نفسیات نے یہ بھی جانا کہ روحانی تجربات کا کسی بھگوان یا رحمان کی عبادت سے رشتہ کم اور انسان کی خدمت سے رشتہ زیادہ ہے۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں