ڈاکٹر خالد سہیل
میرے والد عبدالباسط جو دانائی کا سرچشمہ تھے ہمیں بچپن میں دلچسپ کہانیاں سنایا کرتے تھے ایسی کہانیاں جو حکایات سعدی کی طرح اپنے دامن میں زندگی کے راز اور دانائی کے تحفے چھپائے ہوئے ہوتی تھیں۔ آئیں میں آپ کو اپنے والد کی ایک حکایت سناتا ہوں۔ایک گاؤں میں ایک نابینا شخص رہتا تھا جو ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر گیت گایا کرتا تھا اور لوگ اس کے گیتوں سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔ ایک دفعہ گاؤں میں آگ لگ گئی اور سب لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگے۔ آگ کی ہولناکی سے بے خبر وہ نابینا شخص گیت گاتا رہا۔ پھر اس کے پاس ایک شخص لنگڑاتا ہوا آیا اور کہنے لگا، ’تم اندھے ہو اس لیے نہیں جانتے کہ گاؤں میں آگ لگی ہے اور سب لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں اگر ہم یہاں سے نہ بھاگے تو ہم دونوں آگ میں جل جائیں گے۔ ‘
نابینا انسان نے پوچھا۔ ’تم کیا مشورہ دیتے ہو؟‘ لنگڑاتے ہوئے انسان نے کہا ’۔ تم اندھے ہو اور میں لنگڑا ہوں۔ تم دیکھ نہیں سکتے اور میں بھاگ نہیں سکتا۔ لیکن اگر تم مجھے اپنی کمر پر اٹھا لو تو میں تمہاری آنکھیں بن جاؤں گا اور تم میری ٹانگیں اور ہم دونوں گاؤں سے بھاگ کر اپنی جانیں بچا لیں گے۔ ‘ اس طرح ایک اندھے اور لنگڑے انسان کی دوستی ہوئی اور وہ دونوں اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔
میرے والد کہا کرتے تھے۔ ’۔ کوئی نہی انسان کامل نہیں ہے۔ ہم سب میں کوئی کمی ہے لیکن اگر ہم ایک ایسے انسان سے دوستی کرتے ہیں جس کی کمی یا معذوری یا مجبوری ہم سے مختلف ہو تو ہم ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔ ‘مجھے اپنے والد کی دانائی کے اس درس کا اندازہ پچھلے ہفتے ہوا۔میری بھانجی وردہ کا چند ہفتے پہلے کار کا حادثہ ہوا جس میں اس کی گاڑی کھائی میں گر گئی اور اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ سرجن نے ایمرجنسی میں اس کی گردن کا آپریشن کیا۔
جب میں سرجن سے ملا تو اس نے مجھے بتایا کہ وردہ کی گردن کی پہلی ’تیسری‘ چوتھی اور پانچویں ہڈی (مہرے) ٹوٹ گئی تھی اور انہوں نے آپریشن کر کے ٹائٹینیم کی مدد سے اس کی گردن کی ہڈیوں کو جوڑا ہے اور پھر گردن پر آگے اور پیچھے سے ایک کالر لگایا ہے تا کہ وہ ہڈیاں دوبارہ جڑ سکیں۔ سرجن نے کہا کہ وردہ خوش قسمت ہے کہ اس کی گردن کی دوسری ہڈی نہیں ٹوٹی ورنہ وہ ساری عمر کے لیے گردن سے نیچے مفلوج ہو جاتی اور ونٹیلیٹر پر زندگی اور موت کی جنگ لڑتی رہتی۔
آپریشن کے چند دن بعد میں وردہ کو اپنے گھر لے آیا اور میں نے چار ماہ کے لیے گھر کو ہسپتال کا کمرہ بنا دیا۔ میں ایک ہاسپٹل بیڈ بھی لے آیا تا کہ وہ بستر پر نیم دراز ہو کر ساٹھ درجے کے زاویے پر بیٹھ کر سو سکے۔ اس کے لیے سیدھا لیٹنا بہت تکلیف دہ تھا۔ سرجن نے کہا اس کی گردن کا کالر تین مہینے رہے گا اور کالر ہٹانے کے بعد تین ماہ اسے اپنے پٹھے مضبوط کرنے پڑیں گے۔ ایک فزیو تھراپسٹ اس کی مدد کرتا ہے۔ وہ ہفتے میں دو دفعہ میرے گھر آتا ہے اور وردہ کو خاص ورزشیں کرواتا ہے۔
وردہ کی تیمارداری کے لیے اس کی والدہ عنبر بھی پاکستان سے آ گئی ہیں۔ اب دن کو عنبر وردہ کا خیال رکھتی ہیں اور شام کو میں۔ وردہ نے ایک شام اپنی ماما سے کہا ’ماموں دن کو ڈاکٹر ہوتے ہیں اور شام کو نرس بن جاتے ہیں‘ ۔ میرے دوست جانتے ہیں کہ وردہ مجھے بہت عزیز ہے۔ پہلے وہ بھانجی تھی اب تو وہ بیٹی ہی بن گئی ہے۔ وردہ چونکہ چھ ہفتوں سے گھر میں قید ہے اس لیے ہم شام کے کھانے کے بعد مل کر بیٹھتے ہیں ’تبادلہ خیال کرتے ہیں اور گپ شپ لگاتے ہیں۔
ایک شام وردہ اچھے موڈ میں تھی۔ اس نے شریر انداز سے کہا ’سہیل ماموں! ہم دونوں کو مل کر کوئی پروجیکٹ کرنا چاہیے۔ میں چاہتی ہوں کہ جو دانائی کی باتیں آپ مجھے اپنے گھر میں سکھاتے ہیں اس سے ساری دنیا کے نوجوان استفادہ کریں۔ ‘ میں نے پوچھا۔ ’۔ وہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘ کہنے لگی ’آپ کو نوجوانوں کی زبان اور میڈیم استعمال کرنا ہوں گے۔ ’میں سمجھا نہیں‘ ۔ میں نے استفسار کیا۔اس نے وضاحت کی ’میں آپ کے لیے انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر اکاؤنٹ بناتی ہوں پھر میں آپ کے ایک اور دو منٹ کے انٹرویو ریکارڈ کروں گی اور انہیں انٹرنیٹ پر لگاؤں گی۔‘ یہ مشورہ دیتے ہوئے وردہ کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ کہنے لگی ’سہیل ماموں۔ آپ سوشل میڈیا سے ناواقف ہیں اور میرے پاس اتنا فلسفہ نہیں ہے کہ نوجوانوں کی مدد کر سکوں۔ لیکن ہم مل کر کوئی بڑا کام کر سکتے ہیں۔ ‘
میں مسکرایا اور میں نے اسے اندھے اور لنگڑے کی دوستی کی کہانی سنائی۔ میں نے کہا مجھے جدید ٹکنالوجی نہیں آتی اور تم نے سینکڑوں کتابیں نہیں پڑھیں لیکن ہم ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کر سکتے ہیں۔میں نے سوچا کہ اگر مجھے نوجوانوں کے مسائل پر ان سے گفتگو کرنی ہے تو مجھ ان کی زبان سیکھنی ہوگی۔ میں نے یہ بھی سوچا اس پروجیکٹ سے میری بھانجی کی صحتیابی میں سرعت پیدا ہوگی اور وہ جلدی ٹھیک ہو جائے گی۔ اس طرح تاریک رات کی کوکھ سے روشن صبح پیدا ہوگی۔مجھے پورا یقین ہے کہ کسی بھی دکھ کی کوکھ سے سکھ جنم لے سکتا ہے۔
وردہ کے مشورے سے چالیس دن کی دکھوں کی طویل اور تاریک رات کی کوکھ سے ایک روشن خیال پیدا ہوا۔میں نے وردہ کو آشیر باد دے دی تو اس نے ٹک ٹاک پر ایک اکاؤنٹ بنایا اور اس کا نام MY WISE UNCLE رکھا۔ انسٹاگرام پر بھی ایک اکاؤنٹ بنایا اور اس کا نام dr k sohail رکھا۔ اب وہ ہر روز مجھ سے انسانی نفسیات اور فلسفے کے کسی راز کے بارے میں سوال کرتی ہے اور میں اس کا مختصر جواب دیتا ہوں۔ وہ بڑے شوق سے ریکارڈ کرتی ہے۔ اسے ایڈٹ کرتی ہے اور پھر اسے انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر لگا دیتی ہے۔
اب وہ زیادہ مسکراتی ہے ’ہنستی ہے‘ قہقہے لگاتی ہے اور صحت مندی کی طرف قدم بڑھاتی ہے۔ ودردہ حیران ہے کہ چند دنوں میں ہی سینکڑوں اجنبی محبت۔ امن۔ آشتی۔ اور نفسیاتی مسائل کے بارے میں وڈیوز نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ انہیں پسند بھی کر رہے ہیں اور فولو بھی کر رہے ہیں۔میں نے اپنی بھانجی کو خوش کرنے کے لیے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جو چند ماہ یا سال پہلے میں سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ میں سوشل میڈیا سے بالکل ناواقف تھا۔ میری بھانجی نے مجھے نوجوانوں کی ایک نئی دنیا سے متعارف کروایا ہے اور میں سوچنے لگا کہ نئی دنیا کے نئے مسائل ہیں اور وقت آ گیا ہے کہ اس دور کے بزرگوں اور نوجوانوں میں مکالمے اور مسائل پر تبادلہ خیال کے نئے امکانات پر غور کیا جائے۔ آپ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟
بشکریہ ہم سب
واپس کریں