دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا کشمیر کا مسئلہ آپ کے دل کے قریب ہے؟
ڈاکٹر خالد سہیل
ڈاکٹر خالد سہیل
اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کشمیر کیسے معرض وجود میں آیا؟ برطانیہ سے آزادی کے وقت کشمیر کیوں پاکستان یا ہندوستان کا حصہ نہ بن سکا؟ کشمیر کے مسئلے میں پاکستانی اور ہندوستانی حکومتوں نے کیا کردار ادا کیا؟ کشمیر کے مسئلے کو حل نہ کرنے میں امریکہ، روس اور چین نے کیا مسائل پیدا کیے؟ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں کیوں ناکام ہوئیں؟ تو آپ کو عبدالحمید باشانی، جو ایک افسانہ نگار ہی نہیں، ہم سب، کے مقبول سیاسی کالم نگار بھی ہیں، کی تازہ ترین کتاب ”مسئلہ کشمیر۔ ناکام سفارت کاری کی ان کہی داستان“ ضرور پڑھنی چاہیے۔ اس کتاب کا انتساب ہے عوام کے نام جو کشمیر کے قضیے کا اصل شکار ہیں۔

چند روز پیشتر کشمیر کے ایک انگریزی شاعر آغا شاہد علی (جنہوں نے نہ صرف انگریزی میں غزلیں لکھیں بلکہ فیض احمد فیض کی نظموں کا انگریزی ترجمہ بھی کیا) کی یاد میں کینیڈا کے ایک شاعر، ادیب اور سماجی کارکن منیر سامی نے ایک سیمینار کا اہتمام و انتظام کیا۔ اس سیمینار میں جن مقررین کو دعوت دی گئی ان میں میرے ساتھ عبدالحمید باشانی بھی شامل تھے۔ سیمینار میں انہوں نے بڑی محبت اور اپنائیت سے مجھے اپنی کتاب تحفے کے طور پر دی۔عبدالحمید باشانی جانتے ہیں کہ میرے آبا و اجداد کا تعلق بھی کشمیر سے ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ میں کبھی کشمیر نہیں گیا لیکن اب ان کی کتاب پڑھ کر جانے کو جی چاہتا ہے۔

اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ باشانی نے اپنی تحقیق و تخلیق میں ان خطوط، ٹیلی گرامز اور دستاویزات سے استفادہ کیا ہے جن کا تبادلہ پاکستانی اور امریکی حکام کے درمیان مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہوتا رہا لیکن وہ دستاویزات نصف صدی سے صیغہ راز میں تھیں۔ اب وہ ڈی کلاسیفائی ہوئی ہیں تو باشانی نے ان کا بغور مطالعہ کیا اور کتاب لکھنے میں ان سے استفادہ کیا۔ یہ دستاویزات ہمیں اس سیاسی سچ کے قریب لے جاتی ہیں جو اصحاب بست و کشاد ہم سے نصف صدی سے چھپائے ہوئے تھے۔

باشانی ہمیں بتاتے ہیں کہ انگریزوں کے دور میں ہندوستان میں جو نئی ریاستیں بنیں ان میں سے ایک جموں و کشمیر کی ریاست بھی تھی جو اٹھارہ سو چھیالیس میں معرض وجود میں آئی۔کشمیریوں کو یہ خوش فہمی تھی کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھی کشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت ہی رہے گی۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح بھی مہاراجہ ہری سنگھ کی خود مختار ریاست کے حق میں تھے۔ (صفحہ سولہ)ہندوستان کی تقسیم کے وقت کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے وزیر اعظم پنڈت رام چند کاک کو پراسرار طریقے سے گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کو برطرف کر کے جنک سنگھ کو جموں و کشمیر کا نیا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ انہوں نے پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو جب پیغام بھیجا کہ وہ کشمیر کو ایک آزاد و خود مختار ریاست رکھنا چاہتے ہیں تو ہندوستانی حکومت نے انہیں آشیر باد نہیں دی (صفحہ بائیس)۔مہاراجہ کشمیر کے خلاف جب، عوامی بغاوت، ہوئی تو اس میں وہ قبائلی جنگ جو بھی شامل تھے جنہیں پاکستانی حکومت اور پاکستانی فوج کے بریگیڈیر اکبر خان کی معاونت بھی شامل تھی۔ بریگیڈیر اکبر خان نے اپنی کتاب RAIDERS IN KASHMIR
میں اس فوجی معاونت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ (صفحہ چھبیس) اس بغاوت کو کچلنے کے لیے مہاراجہ نے ہندوستانی حکومت سے جب مدد مانگی تو بھارتی فوجیں پہلی بار ستائیس اکتوبر کو کشمیر میں داخل ہوئیں۔

کشمیر دھیرے دھیرے پاکستانی اور ہندوستانی حکومتوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی طاقتوں کی توجہ کا بھی مرکز بنتا چلا گیا اور کشمیر کا مسئلہ سرد جنگ کی طرح گمبھیر اور گنجلک ہوتا چلا گیا۔دسمبر انیس سو باون میں سوویت یونین نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں برطانیہ اور امریکہ پر یہ الزام لگایا کہ وہ پاکستان بھارت کے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں اور مسئلہ کشمیر کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
چین کے انقلاب کے بعد امریکہ کی ہندوستان اور پاکستان میں سیاسی اور معاشی دلچسپی اور بھی بڑھ گئی۔ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ ممالک امریکہ سے دور اور کمیونسٹ چین کے قریب ہوں۔اپنے سیاسی خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے امریکہ نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کو جب واشنگٹن بلا کر انہیں کمیونزم کے خطرے سے آگاہ کیا تو لیاقت علی نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ کمیونزم کے مقابلے میں امریکہ کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ پاکستانی اور ہندوستانی حکومتیں انیس سو پچاس میں اس بات پر متفق ہو گئی تھیں کہ کشمیر کا مسئلہ وہاں کے باسیوں کی مرضی سے حل کیا جائے گا لیکن یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

انیس سو چون میں جب امریکہ نے پاکستان کو قائل کر لیا کہ وہ اس کے ساتھ دفاعی اور فوجی معاہدے پر دستخط کر لے تو اس دوستی سے سوویٹ یونین پاکستان سے دور ہو گیا۔ روس اور امریکہ کی سرد جنگ نے کشمیر کے مسئلے کو اور بھی پیچیدہ کر دیا۔پاکستان اور امریکہ کی دفاعی اور فوجی دوستی سے ہندوستان بھی بہت برہم ہوا۔ امریکی صدر آئزن ہاور نے پنڈت نہرو کو بہت یقین دہانی کرانے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان کو جو فوجی مدد امریکہ سے مل رہی ہے وہ ہندوستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ ہندوستان کی برہمی کا ایک نقصان یہ ہوا کہ ان کا کشمیر کے بارے میں جو معاہدہ ہو رہا تھا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری کریں گے وہ معاہدہ ٹوٹ گیا (صفحہ اڑتالیس) انیس سو اکسٹھ میں جب کینیڈی امریکہ کے صدر بنے تو انہوں نے ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ انہیں یہ خطرہ تھا کہ کہیں ہندوستان روسی کمیونزم کے قریب نہ جائے۔جب چین نے ہندوستان پر حملہ کیا تو امریکہ نے ہندوستان کی مدد کی تا کہ اسے کمیونسٹ چین سے دور رکھا جائے (صفحہ اکسٹھ)

صدر ایوب نے صدر کینیڈی سے درخواست کی کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالث کا کردار ادا کریں اور وہ مان بھی گئے اور مذاکرات کے چھ دور بھی چلے لیکن پھر بائیس نومبر انیس سو تریسٹھ کو چھیالیس سالہ صدر کینیڈی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور کشمیری مذاکرات کا بھی اسقاط ہو گیا۔جب چین کے لیڈر چو این لائی پاکستان کے دورے پر آئے تو امریکہ کو بہت ناگوار گزرا اور امریکی حکام نے ذوالفقار علی بھٹو سے اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور پاکستان کی مسئلہ کشمیر میں مدد سے بالکل ہاتھ کھینچ لیے۔

میں نے اس کتاب کی چند جھلکیاں آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں۔عبدالحمید باشانی نے اپنی تحقیق میں شیخ عبداللہ کے کردار پر بھی تفصیل سے لکھا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کا بھی سیاسی تجزیہ پیش کیا ہے۔مجھے عبدالحمید باشانی کی ایک سو چوالیس صفحات کی کاتب پڑھ کر یوں محسوس ہوا جیسے انہوں نے ایک سو چوالیس کتابوں کا خلاصہ لکھ کر اس موضوع پر سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہو۔اس کتاب کے آخر میں عبدالحمید باشانی اپنے ہم وطن کشمیریوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں، ”ان حقائق کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کا حل یہ ہے کہ کشمیری عوام عالمی سفارت کاری اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے گورکھ دھندے سے نکل کر اپنے آپ پر بھروسا اور اعتماد کریں اور اپنی دھرتی پر تشدد سے پاک پرامن جمہوری جدوجہد کا راستہ اختیار کریں“

نوٹ۔ اس کتاب تک رسائی حاصل کرنے کے لیے آپ نیشنل انسٹی چیوٹ آف کشمیر سٹڈیز میر پور سے فون یا ای میل سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں
PHONE…0344 566 3443
EMAIL…niks.mirpur@gmail.com

بشکریہ ہم سب
واپس کریں