ڈاکٹر خالد سہیل
تہمینہ درانی کی عبدالستار ایدھی کی سوانح عمری۔ نابینا شہر میں آئینہ۔(A MIRROR TO THE BLIND) کے چند اقتباسات کی تلخیص و ترجمہ۔
یہ 1994 کی بات ہے۔ امریکی فاؤنڈیشن نے لندن میں ایک کانفرنس کا انتظام و اہتمام کیا جس میں میں نے بھی شرکت کی۔ اس دوران لندن کے ایدھی فاؤنڈیشن کے منتظمین نے مجھے بتایا کہ عمران خان مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔میں اس وقت صرف اتنا جانتا تھا کہ کرکٹ کے ایک مقبول کھلاڑی اب پاکستان میں کینسر کا ایک ہسپتال بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ مجھے وہ خواب جان کر خوشی ہوئی۔ سچی بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی سماجی رہنما کوئی بھی فلاحی کام کرتا ہے تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے میرے کندھوں سے سماجی ذمہ داری کا بوجھ ذرا کم ہو گیا ہے۔ اسی لیے میں نے بھی عمران خان کے ہسپتال کے لیے ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کا چندہ دیا۔
اس کانفرنس میں عمران خان نے مجھ سے ملاقات کی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ مخلص رہنماؤں کا ایک پریشر گروپ بنانا چاہتے ہیں تا کہ وہ گروپ کرپٹ لیڈروں کے خلاف احتجاج کر سکیں اور ان پر سیاسی دباؤ ڈال سکیں۔ اس طرح وہ ایک سماجی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ میں اس پروجیکٹ میں ان کے ساتھ مل جاؤں۔ میں بڑی خاموشی اور تحمل سے ان کی جذباتی گفتگو سنتا رہا۔ جب ان کی تفصیلی گفتگو ختم ہوئی تو میں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ ملکی سیاست میں نہ الجھیں بلکہ خاموشی سے اپنا فلاحی کام کرتے کریں۔ میں نے ان سے کہا کہ جب آپ کا فلاحی کام کامیاب ہو گا تو وہ خود ہی معاشرے کے حالات بدلے گا اور سیاسی رہنماؤں پر دباؤ ڈالے گا۔
مجھے یوں لگا جیسے بہت سے دیگر نوجوانوں کی طرح عمران خان بھی بہت جلد بازی میں تھے اور جلد از جلد معاشرے میں سماجی و سیاسی تبدیلیاں اور انقلاب لانا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں بھی اس سیاسی پروجیکٹ کا حصہ بنوں۔ وہ مجھے سیاسی دباؤ کے فوائد بتاتے رہے اور مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ میں نے انہیں مخلصانہ مشورہ دیا کہ آپ کسی سیاسی پارٹی کا حصہ نہ بنیں۔ میں نے انہیں تنبیہ کی کہ اگر آپ سیاست کا حصہ بنے تو کمزور ہو جائیں گے اور ایک دن سیاست آپ کو کھا جائے گی کیونکہ سیاست آپ کو اپنی دلدل میں دھکیل دے گی۔
میں نے انہیں بڑے احترام سے بتایا کہ سیاست انہیں رفاہی کاموں سے دور لے جائے گی۔ میں نے کہا آپ سیاسی بھنور میں پھنس جائیں گے اور دھیرے دھیرے آپ اسی کرپٹ گروہ کا حصہ بن جائیں گے جس گروہ سے آپ جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ جب عمران خان کو میری بات سمجھ نہ آئی تو میں نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آپ جس سماجی تبدیلی کی بات کر رہے ہیں میں پچھلے چالیس برس سے ویسی ہی تبدیلی لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ سفر صبر آزما ہے۔ اس سفر میں خرگوش کی جلد بازی سے کہیں زیادہ کچھوے کی سست روی کام آتی ہے۔ پائدار تبدیلی دھیرے دھیرے آتی ہے۔ ارتقا کا سفر آہستہ ہوتا ہے۔ میں نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ اگر انہوں نے پبلسٹی اور سیاسی شعبدہ بازیوں اور سیاسی پارٹیوں سے جوڑ توڑ کا راستہ اختیار کیا تو وہ طاقت اور سیاست کے کھیل میں الجھ جائیں گے اور اپنی منزل سے بہت دور ہو جائیں گے۔
میری اس گفتگو کے بعد عمران خان خاموش ہو گئے۔ میں نہیں جان پایا کہ انہیں میری بات سمجھ آئی یا نہیں۔ جب عمران خان چلے گئے تو مجھے احساس ہوا کہ ان کے مزاج میں جلد بازی تو ہے صبر تحمل اور بردباری نہیں ہے۔ جب میں لندن کی اس کانفرنس سے واپس پاکستان پلٹا تو مجھے جنرل حمید گل کا فون آیا۔ کہنے لگے۔ پاکستانی قوم کو سیاستدانوں نے تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اب قوم کو فوجی قیادت کی ضرورت ہے۔ اب عوام فوج سے مدد مانگ رہی ہے۔عمران خان کی طرح جنرل حمید گل نے بھی مجھے قائل کرنے کی کوشش کی کہ مخلص سماجی رہنماؤں کو ایک پریشر گروپ بنانا چاہیے تا کہ وہ کرپٹ سیاسی رہنماؤں پر دباؤ ڈال سکیں اور جلد از جلد سماجی و سیاسی تبدیلی لا سکیں۔ ایک انقلاب برپا کر سکیں۔ مجھے جنرل حمید گل اور عمران خان کی باتوں میں مماثلت دکھائی دی۔ مجھے احساس ہو گیا کہ حمید گل بھی عمران خان کی طرح جلد بازی سے تبدیلی لانے کے حق میں ہیں۔ میں نے ایسی تبدیلی کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
عمران خان کی باتوں کی طرح میں نے حمید گل کی باتیں بھی بڑے صبر و تحمل سے سنیں پھر بڑے احترام سے معذرت کرتے ہوئے کہا، “مجھے اپنے رفاہی کاموں سے اتنی فرصت نہیں کہ میں سیاسی کاموں میں الجھوں”۔عمران خان کی طرح حمید گل بھی میری باتوں سے مطمئن نہ ہوئے۔ کہنے لگے آپ جب بھی اسلام آباد تشریف لائیں تو مجھے بتائیں میں آپ سے ملنے آؤں گا تا کہ ہم اس موضوع پر تفصیل سے بات کر سکیں۔ پاکستانی قوم کو آپ کی رہنمائی اور دانائی کی اشد ضرورت ہے۔مجھے اندازہ ہو گیا کہ عمران خان اور جنرل حمید گل انقلاب کا جو خواب دیکھ رہے ہیں وہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ یہ دونوں رہنما اس سیاسی بصیرت سے ناواقف ہیں کہ چہرے بدلنے سے حالات نہیں بدلا کرتے۔ جب تک کسی قوم کا نظام نہیں بدلتا اس وقت تک قوم کا مستقبل نہیں بدلتا۔میں بس اتنا جانتا ہوں کہ ارتقا کا سفر سست رو ہے۔ ارتقا سے ہی دیرپا تبدیلیاں آتی ہیں۔ جلد بازی کی تبدیلیاں جمہوری عمل اور ارتقا کے سفر کو آگے لے جانے کی بجائے پیچھے دھکیل دیتی ہیں۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں