ڈاکٹر خالد سہیل
ہر محبت کی ایک قیمت ہوتی ہے کسی کی کم کسی کی زیادہ۔جب ایک محبوب مر جاتا ہے تو زندہ رہنے والا محبوب سوگ منا کر اس محبت کی قیمت ادا کرتا ہے۔بہت سے انسان جب کسی دوسرے انسان سے محبت کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ اس پیار کا سکھ اس کی موت کے دکھ سے جڑا ہوا ہے۔ہر پیار عارضی ہے اور ایک دن وہ ختم ہو جائے گا کیونکہ دو پیار کرنے والے انسانوں میں سے ایک انسان پہلے مر جائے گا اور دوسرا اس کی موت کے دکھ کو گلے لگا کر بقیہ زندگی گزار دے گا۔کسی بھی پیار بھرے رشتے کے ختم ہونے کے دکھ کا انحصار ان دو انسانوں کی شخصیت ’ان کے مزاج اور ان کے درمیان رشتے کی نوعیت پر ہوتا ہے۔اس دکھ کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ وہ دو انسان ایک دوسرے کی کون سی معاشی ’ذہنی‘ معاشرتی ’سماجی اور رومانوی ضروریات پوری کرتے رہے ہیں اور ایک انسان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد دوسرے انسان کی زندگی میں کس قسم کا خلا پیدا ہوا ہے اور وہ خلا کوئی اور پورا کر سکے گا یا نہیں۔
کسی بھی انسان کے کسی بھی دوست ’کسی بھی محبوب‘ کسی بھی رشتہ دار اور کسی بھی عزیز کی موت کسی بھی طریقے سے ہو سکتی ہے، ایک محبوب اچانک دل کی دھڑکن بند ہونے سے مر سکتا ہے، ایک دوست کینسر کی بیماری سے کئی سالوں کی اذیت کے بعد مر سکتا ہے، ایک بیوی کار کے حادثے میں مر سکتی ہے اور ایک شوہر بیوی کی بے وفائی کی خبر سننے کے بعد خودکشی سے مر سکتا ہے۔کسی بھی پیارے کی موت دوسرے انسان پر مختلف قسم کے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
پچھلی صدی کی طبی اور نفسیاتی تحقیق نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ کسی عزیز کی موت کی خبر سے انسانوں پر مختلف قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بعض انسانوں کا رد عمل جسمانی ہوتا ہے۔ وہ نقاہت محسوس کرتے ہیں اور ان کی بھوک پیاس کم یا ختم ہو جاتی ہے۔ چند ہفتوں میں ان کا وزن بھی کم ہو جاتا ہے۔بعض انسانوں کا رد عمل جذباتی ہوتا ہے اور وہ اینزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور بہت پریشان اور اداس رہتے ہیں۔
بعض انسانوں کا رد عمل ذہنی ہوتا ہے۔ وہ بے خوابی کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہیں نیند بھی آئے تو مرنے والے دوست یا رشتہ دار کے پریشان کن خواب آتے ہیں۔بعض انسانوں میں یہ سب جسمانی ’جذباتی اور ذہنی رد عمل بیک وقت بھی ہو سکتے ہیں۔سگمنڈ فرائڈ نے آج سے ایک صدی پیشتر اپنے تاریخی مقالے MOURNING AND MELANCHOLIA میں ہمیں یہ نفسیاتی راز بتایا تھا کہ کسی عزیز کی موت کے بعد کچھ عرصے کے لیے سوگ منانا ایک نارمل رد عمل ہے۔ فرائڈ نے اسے MOURNING کا نام دیا۔ اس عمل کے بعد انسان مرنے والے کی محبوب یادوں کو دل میں سنبھال لیتا ہے اور اپنی زندگی کے کاروبار میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اس عمل میں زندہ رہنے والے انسان کا رد عمل شعوری ہوتا ہے۔ اس رد عمل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان دو انسانوں کا رشتہ صحتمند تھا۔اس کے مقابلے میں وہ لوگ جو MELANCHOLIA کا شکار ہو جاتے ہیں ان کو سوگ ختم ہی نہیں ہوتا۔ ایسا سوگ ہفتوں ’مہینوں‘ سالوں بلکہ دہائیوں تک پھیل سکتا ہے اور زندہ رہنے والے انسان کو جسمانی ’جذباتی اور ذہنی طور پر مفلوج کر سکتا ہے۔ بعض لوگوں کا ایسا سوگ زندگی بھر کا روگ بن جاتا ہے۔ فرائڈ کی نگاہ میں ایسا ردعمل ابنارمل ہوتا ہے کیونکہ اس رد عمل میں لاشعوری تضادات شعوری احساسات اور جذبات پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ ایسا انسان اتنا دکھی ہو جاتا ہے کہ اسے کسی ماہر نفسیات سے مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔
مختلف معاشروں کی روایتوں میں مرنے والے کے حوالے سے مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے تا کہ مرنے والے کے سب دوست اور رشتہ دار مل کر سوگ منا سکیں اور ایک دوسرے کی نفسیاتی مدد کر سکیں۔ ان تقریبات کا مقصد یہ بھی ہوتا کہ کہ مرنے والے کے عزیز اس کی زندگی کے واقعات ایک دوسرے سے شیر کر سکیں اور اس خصوصی تعلق پر اپنے فخر کا اظہار کر سکیں۔ ایسا کرنے سے جدائی کے دکھ میں تخفیف ہوتی ہے۔ سوگ منانے کا ایک پہلو انفرادی ہے اور ایک سماجی ’ایک جذباتی ہے ایک معاشرتی۔اگر مرنے والا انسان ایک مشہور یا مقبول سیاسی یا سماجی رہنما ہے تو اس کے جنازے میں سینکڑوں ’ہزاروں‘ لاکھوں انسان شامل ہوتے ہیں اور ساری قوم مل کر سوگ مناتی ہے۔ ایک ماہر نفسیات کے لیے یہ بات دلچسپی کا باعث ہے کہ کوئی قوم کس شخصیت کو اپنا ہیرو سمجھتی ہے، کیا وہ شخصیت ایک فوجی جرنیل ہے یا سیاسی رہنما؟ کیا وہ ایک مذہبی رہنما ہے یا سماجی لیڈر؟ کیا وہ ایک ایکٹر ہے یا کھلاڑی؟ کیا وہ ایک شاعر ہے یا دانشور؟
اس کی ایک مثال یورپ کے ایک دانشور کی ہے۔ جب فرانس کے وجودی فلسفے کے بانی ژاں پال سارتر فوت ہوئے تو ان کے جنازے میں لاکھوں عوام و خواص شامل ہوئے۔ اس دن سارا فرانس سوگوار تھا اور ان گنت فرانسیسی آبدیدہ۔ سارتر کی وفات کی خبر ساری دنیا کے اخباروں کی شہ سرخی بنی۔رومی نے فرمایا تھا کہ ہم جیسے انسان دوست شاعروں کو مرنے کے بعد قبروں میں مت تلاش کرنا ہم تو لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔
بعض چاہنے والے پرستار اپنے محبوب دانشور کی ہر سال برسی مناتے ہیں تا کہ انسانیت کے لیے ان کی خدمات کو یاد بھی رکھا جائے اور سراہا بھی جائے تا کہ آنے والی نسلیں ان کے احسانات کو فراموش نہ کریں۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں