ڈاکٹر خالد سہیل
غزہ کی جنگ میں جو بے نام سپاہی بین الاقوامی خوش نامی اور بدنامی کی سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے اور جنہوں نے آخری سیڑھی پر پہنچ کر فلسطین کی آزادی کے لیے اسرائیلی فوج سے جنگ کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دے دی وہ حماس کے سپہ سالار یحییٰ سنوار تھے۔ حماس کی گوریلا جنگ لڑتے ہوئے وہ ایک متنازعہ فیہ شخصیت بن گئے تھے۔ اسرائیل اور امریکہ کی نگاہ میں وہ ایک خطرناک دہشت گرد فلسطینی تھے اور فلسطینیوں کی نگاہ میں ایک محب وطن حریت پسند رہنما۔
جب ہم یحییٰ سنوار کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ انیس سو باسٹھ میں غزہ کے شہر خان یونس کے رفیوجی کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان انیس سو اڑتالیس کی فلسطین کی جنگ میں اشطلان سے ہجرت کر کے آیا تھا۔ یحییٰ سنوار نے رفیوجی کیمپ میں جب فلسطینیوں کی ناگفتہ بہہ حالت دیکھی تو انہیں فلسطینیوں سے ہمدردی ہو گئی اور انہوں نے نوجوانی میں ہی فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنی زندگی اسرائیلیوں کی بربریت کے خلاف جنگ اور فلسطینیوں کی آزادی کے لیے وقف کر دیں گے۔
یحییٰ سنوار نے جب اپنے ہم عمر ہم خیال اور ہم عصر فلسطینیوں کو سیاسی اور سماجی تبدیلی کے لیے تیار کرنا شروع کیا تو اسرائیلی حکومت کو وہ اپنی استعماریت اور جارحیت کے لیے خطرہ محسوس ہوئے اور انہوں نے پہلی بار سنوار کو انیس سو بیاسی میں چند مہینوں کے لیے قید کیا۔ ان کا خیال تھا کہ سنوار انقلاب سے دست بردار ہو جائیں گے لیکن اس قید و بند کا نتیجہ الٹا نکلا۔ جیل میں ان کی چند اور حریت پسند انقلابیوں سے ملاقات ہو گئی اور ان کا انقلاب لانے کا ارادہ اور بھی پختہ ہو گیا۔ سنوار دوسری بار انیس سو پچاسی میں قید ہوئے۔ اس دفعہ کی قید کے دوران انہوں نے فیصلہ کیا کہ جیل سے نکلنے کے بعد وہ حماس میں فعال ہو جائیں گے اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ حماس کو فلسطینی مخبر ایک آنکھ نہ بھاتے تھے کیونکہ وہ فلسطینیوں کی آزادی کی تحریک کے راز اسرائیلیوں کو بتا دیتے تھے۔ سنوار ایسے فسلطینیوں کو اسرائیلیوں سے زیادہ اپنا اور انقلاب کا دشمن سمجھتے تھے۔سنوار نے غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی ادب میں ڈگری حاصل کی۔
انیس سو اٹھاسی میں سنوار نے دو اسرائیلیوں کو اغوا اور چار فلسطینی مخبروں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن وہ پکڑے گئے۔ مقدمہ چلا اور انہیں عدالت نے چار بار عمر قید کی سزا سنائی۔ عدالت میں سنوار نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ایک فلسطینی مخبر کا ننگے ہاتھوں سے گلا دبایا اور اس وقت تک دبائے رکھا جب تک اس کی روح قفس عنصری سے پرواز نہ کر گئی۔سنوار نے جوانی کے بائیس برس اسرائیل کی جیل میں گزارے۔ قید کے دوران سنوار نے یہودیوں اور صیہونیوں کی زبان، تاریخ اور کلچر کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا کیونکہ وہ بھی ہوچی منہ کی طرح یہ سمجھتے تھے کہ انقلابیوں کو اپنے دشمنوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہونا چاہیے۔ قید کے دوران سنوار حماس کی سیاسی اور عسکری کارروائیوں میں درپردہ بھرپور حصہ لیتے رہے۔ قید کے دوران سنوار کو ایک بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دن وہ اچانک بیہوش ہو گئے۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ انہیں دماغ کا ٹیومر ہے جس سے وہ فوت ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے اس رسولی کا آپریشن کیا اور ان کی جان بچائی۔ سنوار صحتیاب ہوئے تو انہوں نے طبیبوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
دو ہزار گیارہ میں جب ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شلیت کو فلسطینیوں نے ایک ہزار قیدیوں کے بدلے میں رہا کیا تو ان ایک ہزار رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں میں سے ایک یحییٰ سنوار تھے۔ قید سے رہا ہونے کے بعد سنوار ایک خوبصورت اور ذہین خاتون ثمر زمر کی زلف کے اسیر ہو گئے اور انہوں نے ثمر سے شادی کر لی۔ ثمر بھی سنوار کی طرح غزہ کی اسلامک یونیورسٹی کی گریجویٹ تھیں انہوں نے دینیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ سنوار اور ثمر کے ہاں تین بچے بھی پیدا ہوئے۔
قید سے نکلنے کے بعد سنوار سیاسی اور عسکری کارروائیوں میں اتنے فعال ہوئے کہ دو ہزار سترہ میں انہیں حماس کا عسکری رہنما چن لیا گیا۔ سنوار کا سیاسی موقف یہ تھا کہ اسرائیلی حکام اور فوج کے ساتھ پرامن مکالمہ نہیں ہو سکتا۔ اس کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے مسائل کا حل مذاکرات سے ناممکن ہے۔ سنوار چے گویرا کی طرح مسلح جدوجہد کے حق میں تھے۔ حماس کی کوششوں کو کامیاب بنانے کے لیے سنوار حزب اللہ اور ایران کے رہنماؤں سے ملے، جن میں قاسم سلیمانی اور علی خمینائی شامل تھے، تاکہ وقت آنے پر ان سے مالی سیاسی اور عسکری مدد حاصل کر سکیں۔ وہ جانتے تھے کہ اسرائیل کو ہرانے کے لیے انہیں حزب اللہ اور ایران کی پشت پناہی کی ضرورت پیش آئے گی۔امریکی حکومت سنوار کے انقلاب کے ارادے بھانپ گئی اور دو ہزار پندرہ میں ان کے ایک خطرناک دہشت گرد فوجی ہونے کا اعلان کر دیا۔ اسرائیل اور امریکہ نے سنوار کو قتل کرنے کی کئی بار کوشش کی۔ مئی دو ہزار اکیس کو سنوار کے گھر پر حملہ بھی ہوا لیکن وہ بچ گئے۔ سنوار موت سے کبھی خائف نہ تھے۔ وہ دلیری سے جینا اور بہادری سے مرنا چاہتے تھے۔یحییٰ سنوار کی شخصیت کے بارے میں دو متضاد آرا تھیں۔ ان کے دشمن انہیں۔ خان یونس کا قصاب THE BUTCHER OF KHAN YOUNOS پکارتے تھے جبکہ ان کے دوستوں کی نگاہوں میں وہ عاجزی و انکساری کا پیکر ایک درویش منش انسان تھے جو جیل میں بھی باقی قیدیوں کی خدمت کرتے تھے۔
محققین کا موقف ہے کہ سات اکتوبر دو ہزار تئیس کو حماس نے جو اسرائیل پر حملہ کیا اس حملے کا منصوبہ سنوار نے بنایا تھا اور تین ہزار گوریلا فوجیوں کو حملے کے لیے تیار کیا تھا۔ سنوار اپنے ماضی کے تجربے سے جان چکے تھے کہ ایک اسرائیلی فوجی کی قیمت ایک ہزار فلسطینی قیدی ہیں اس لیے انہوں نے اپنے فوجیوں کو تیار کیا تھا کہ اسرائیلیوں کو قتل کرنے کے ساتھ کچھ کو قیدی بنانا ہے۔ اس لیے سات اکتوبر کو بارہ سو اسرائیلی قتل ہوئے اور دو سو چالیس غزہ کی زیر زمین سرنگوں میں قیدی بن گئے۔جولائی دو ہزار چوبیس کو اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل ہونے کے بعد حماس نے یحییٰ سنوار کو اپنا سیاسی اور عسکری رہنما چن لیا اس طرح وہ حماس کے معزز و معتبر سپہ سالار بن گئے۔
غزہ کی جنگ میں تندی و تیزی آئی تو اسرائیلی فوج یحییٰ سنوار کو قتل کرنے کے درپے تھی لیکن وہ ناکام رہی۔ آخر ایک حملے میں اسرائیلی فوج نے نہ جانتے ہوئے یحیی ٰ سنوار کو قتل کر دیا۔ سنوار آخری دم تک بہادری سے لڑتے رہے۔ اسرائیلی تین لاشوں کو اپنے ساتھ لے گئے اور اگلے دن اعلان کیا کہ ان تین لاشوں میں سے ایک یحییٰ سنوار کی ہے۔غزہ کی جنگ کے ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیلی فوج اپنی تمام تر عسکری برتری کے باوجود حماس کو نہ ہرا سکی اور حماس کی گوریلا جنگ کی کامیابی کا سہرا یحییٰ سنوار کی قیادت کے سر ہے۔ یحییٰ سنوار انقلابی تھے اور جانتے تھے کہ انقلابی مرنے کے بعد حیات جاوید پاتا ہے۔ یحییٰ سنوار زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ایک متنازعہ فیہہ شخصیت کے مالک ہیں۔ہم سب اس سماجی حقیقت سے باخبر ہیں کہ گوریلا جنگ کے جنگجو جو نیلسن منڈیلا کی طرح کامیابی سے پہلے دہشت گرد سمجھے جاتے تھے وہ انقلاب کی کامیابی کے بعد حریت پسند جانے جاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ فلسطین کی تاریخ رقم کی جائے تو یحییٰ سنوار کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے اور جب فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہو تو اس ریاست کے ایک چوراہے میں یحییٰ سنوار کا مجسمہ ایستادہ کیا جائے۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں