دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سچ کے سفر کی کہانی
ڈاکٹر خالد سہیل
ڈاکٹر خالد سہیل
اے میرے نوجوان دوستو!
یہ میری عزت افزائی ہے کہ آپ نے مجھے اپنی بین الاقوامی کانفرنس میں نہ صرف شرکت کی دعوت دی بلکہ ساری دنیا کے معزز اور معتبر ادیبوں ’شاعروں اور دانشوروں کے ہمراہ اپنے خیالات اور نظریات کے اظہار کا موقع بھی فراہم کیا۔
آپ کی کانفرنس کا عنوان ہے۔ سچ کا سفر۔
اے میرے عزیز دوستو!
میں اپنے خیالات کے اظہار کا آغاز اپنے دو اشعار سے کرنا چاہتا ہوں
ہماری ذات کے جب در کھلے ہیں
کبھی اندر کبھی باہر کھلے ہیں
جو بالوں میں سفیدی آ گئی ہے
تو پھر جا کر کہیں خود پر کھلے ہیں

اپنے سچ کو جاننے کا سفر ایک پیچیدہ ’دشوار اور گنجلک سفر ہے لیکن میں آج آپ کو اپنے سچ کے سفر کی کہانی عام فہم زبان میں سنانے آیا ہوں۔جب میں آپ کی عمر کا نوجوان تھا اور زندگی کی صبح سے گزر رہا تھا تو میں یہ سمجھتا تھا کہ میرا سچ ازلی و ابدی و حتمی سچ ہے۔میری زندگی کا وہ دن ایک بہت ہی تکلیف دہ دن تھا جس دن مجھے احساس ہوا کہ میں جس سچ کو پورا سچ سمجھتا تھا وہ در اصل ادھورا سچ تھا۔ اور میں جس سچ کو ابدی سچ سمجھتا تھا وہ حقیقت میں عارضی سچ تھا۔
میرا ایک شعر ہے
کبھی ہر عارضی کو دائمی میں سمجھا کرتا تھا
اور اب ہر دائمی کو عارضی محسوس کرتا ہوں

مجھے دھیرے دھیرے یہ بھی پتہ چلا کہ میں جس سچ کو ذاتی سچ سمجھتا تھا وہ دراصل اجتماعی سچ تھا۔ وہ روایتی سچ تھا۔ وہ مذہبی سچ تھا جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ اندھے ایمان کی طرح ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا آیا تھا۔اس سچ کی بنیاد وہ آسمانی کتابیں تھیں جو ہزاروں سال پیشتر لکھی گئی تھیں اور وہ بھی ایسی زبانوں میں جن سے میں نابلد تھا۔میں نے ان آسمانی کتابوں کی تفہیم کے لیے ان مذاہب کے رہنماؤں سے ملنا شروع کیا۔ کبھی میں کسی مسجد میں گیا کبھی کسی کلیسا میں
کبھی میں کسی گردوارے میں گیا کبھی کسی سناگاگ میں ، میں نے جس بھی مذہبی رہنما سے مشورہ کیا اس نے مجھے ایک اور ہی سچ بتایا۔وہ سچ ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیں متضاد بھی تھے۔ان بزرگوں نے میرے ذہن کی گتھی کو سجھانے کی بجائے اور الجھا دیا۔مجھے یہ اندازہ ہوا کہ وہ پادری اور پنڈت ’مولوی اور رہبائی اپنی اپنی دکان سجائے بیٹھے تھے اور بر سرعام اپنا مذہبی سچ نہ صرف بیچتے تھے بلکہ بہت کامیاب بھی تھے کیونکہ اس سچ کو خریدنے والے بہت تھے۔میں ان سچ کے ٹھیکیداروں سے مل کر بہت دکھی ہوا۔

ان سب سچ کے ٹھیکیداروں نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے آسمانی کتابوں پر عمل نہ کیا تو میں جہنم کی آگ میں جلوں گا۔ انہوں نے جہنم کی آگ کا ایسا اذیت ناک نقشہ کھینچا کہ میری راتوں کی نیند اڑ گئی۔ مجھے نیند بھی آتی تو دوزخ کے ڈراؤنے خواب نظر آتے۔مجھے ڈر لگنے لگا کہ احساس گناہ کی شدت سے میں کہیں ذہنی توازن نہ کھو بیٹھوں اور دیوانہ نہ ہو جاؤں۔وہ تو میری خوش بختی کہ ان ہی دنوں مجھے کچھ ایسے دوست ملے جو روایتی اور مذہبی سچ کو پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نکل گئے تھے اور روحانی سچ کو گلے لگا چکے تھے۔میں نے ان سنتوں سادھوؤں اور صوفیوں کے ساتھ کچھ وقت گزارا تو مجھے روحانی سکون ملا۔انہوں نے مجھے بتایا کہ خدا سے لو لگانے کے لیے کسی مولوی کسی پادری کسی پنڈت یا کسی رہبائی کی کوئی ضرورت نہیں۔
انہوں نے مجھے سمجھایا کہ انسان کو جنت کی لالچ یا جہنم کے خوف سے بالاتر ہو کر صرف خدا کی محبت کی وجہ سے عبادت کرنی چاہیے۔میں کچھ دیر تک روحانی سچ کو گلے لگائے زندہ رہا اور خدا سے بلاواسطہ رشتہ جوڑنے کی کوشش کرتا رہا۔

لیکن پھر مجھے یہ پتہ چلا کہ روحانی سچ بھی ایک سراب تھا۔میں نے یہ جانا کہ روحانیت کا تعلق بھی انسان سے تھا کسی بھگوان یا رحمان یا یزداں سے نہیں تھا۔ایسا سچ جاننے کے بعد میں پھر دکھی ہو گیا کہ میں نے زندگی کا اتنا طویل عرصہ کسی سراب کے تعاقب میں ضائع کر دیا گنوا دیا۔پھر میری ملاقات ایسے طالب علموں سے ہوئی جو مذہبی سچ سے ہی نہیں روحانی سچ سے بھی آگے نکل گئے تھے۔ انہوں نے مذہب کو ہی نہیں خدا کو بھی خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ کائنات خدا کی مرضی سے نہیں قوانین فطرت سے چل رہی ہے۔انہوں نے میرا سائنسی سچ سے تعارف کروایا جو صدیوں سے سائنسدان دوربینوں اور خوردبینوں سے تلاش کر رہے تھے۔میری لیے حیرانی اور پریشانی کی بات یہ تھی کہ جن سائنسدانوں نے بھی سائنسی سچ تلاش کیا انہیں روایتی اور مذہبی سچ ماننے والوں نے بہت اذیت دی۔
کبھی انہیں نظربند کر دیا
کبھی جیل میں ڈال دیا
کبھی شہر بدر کر دیا اور
کبھی سولی پر چڑھا دیا۔

سائنسی سچ ماننے والوں نے دعوہ کیا کہ ان کا سچ معروضی سچ ہے جسے کوئی بھی انسان اپنی عقل اور منطق کی کسوٹی پر پرکھ سکتا ہے اور اپنی لیبارٹری میں ثابت کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سائنسی سچ کو ماننے کے لیے نہ روایت کی ضرورت ہے نہ عقیدت کی۔میں کچھ عرصہ سائنسی سچ کو گلے لگائے زندہ رہا لیکن پھر مجھ پر یہ تکلیف دہ حقیقت منکشف ہوئی کہ سائنسی سچ جاننے کے بعد کچھ سائنسدانوں نے اسے انسانیت کی تعمیر کے لیے اور کچھ نے انسانیت کی تخریب کے لیے استعمال کیا۔ کچھ نے سائنسی سچ سے مسیحائی کی اور کچھ نے خوں ریزی۔دھیرے دھیرے مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ سچ کو جاننے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ انسان اس سچ کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔

آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ روایت اور عقیدت سے زیادہ اہم انسانیت سے محبت اور اس کی خدمت ہے۔جب میں زندگی کی شام میں داخل ہوا تو مجھ پر یہ منکشف ہوا کہ سچ کے سفر کی کہانی ، مذہبی سچ سے روحانی سچ اور روحانی سچ سے سائنسی سچ کے سفر کی کہانی ہے ، سچ کے سفر کی کہانی ، روایت سے بغاوت اور بغاوت سے دانائی تک کے سفر کی کہانی ہے ، سچ کے سفر کی کہانی ، خدا پرستی سے انسان دوستی کے سفر کی کہانی ہے۔

اے میرے نوجوان دوستو!
اگر میں یہ چاہتا ہوں کہ لوگ میرے سچ کا احترام کریں تو مجھے دوسروں کے سچ کا احترام کرنا ہو گا اس سچ کا جس کو میں جھوٹ سمجھتا ہوں اسی طرح جس طرح دوسرے میرے سچ کو جھوٹ سمجھتے ہیں کیونکہ کسی کے سچ کسی کو جھوٹ لگتے ہیں۔
جب میں زندگی کی صبح میں داخل ہو رہا تھا تو سمجھتا تھا کہ میرا سچ ازلی و ابدی و حتمی سچ ہے۔ اب جبکہ میں زندگی کی شام میں داخل ہو رہا ہوں تو مجھ پر یہ منکشف ہو رہا ہے کہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان۔
مجھے اپنی کانفرنس میں بلانے کا اور اپنے خیالات و نظریات پیش کرنے کا شکریہ۔

بشکریہ ہم سب
واپس کریں