ڈاکٹر خالد سہیل
وہ میرے لیے اجنبی تھے لیکن میں ان کے لیے اجنبی نہ تھا۔ فون پر ان سے پہلی بار بات ہوئی تو کہنے لگے، ’ میرا نام فرقان ہے۔ میری عمر پچاس برس ہے اور میں پاکستان میں رہائش پذیر ہوں۔ میں کافی عرصے سے آپ کے کالم اور کتابیں پڑھ رہا ہوں۔ میری دلی خواہش تھی کہ میں کبھی آپ سے بات کروں۔ میری خوش بختی کہ مجھے آج اس کا موقع مل رہا ہے‘۔ ’یہ تو آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ یہ میری تخلیقات کی خوش قسمتی ہے کہ اسے آپ جیسا ذہین قاری ملا ہے‘ ۔ ’ڈاکٹر صاحب! آپ کی کتابیں پڑھ کر جہاں مجھے بہت سا فائدہ ہوا ہے وہیں کچھ نقصان بھی ہوا ہے‘۔ ’پہلے بتائیں کہ فائدہ کیا ہوا ہے؟‘ میں متجسس تھا، ’ فائدہ یہ ہوا کہ آپ کے خیالات اور نظریات نے میرا یک نئی دنیا سے تعارف کروایا ہے جس سے میں پہلے بالکل ناواقف تھا۔ میں نے آپ کے اور بلند اقبال کے ٹی وی پر دانائی کی تلاش کے پروگرام بھی دیکھے ہیں۔ ان پروگراموں سے میرا بہت سے ادیبوں شاعروں اور دانشوروں سے بھرپور تعارف ہوا۔
آپ کی کتابیں پڑھنے کے بعد میں نے سگمنڈ فرائڈ اور فریڈرک نیٹشے کی کتابیں بھی پڑھیں۔ ان کتابوں نے میری سوچ کے دائرے کو بہت وسیع کر دیا ہے۔ اب میں عالمی ادب اور بین الاقوامی تحریکوں سے روشناس ہو گیا ہوں ’۔’فرقان صاحب اب آپ یہ بتائیں کہ ان کتابوں کو پڑھنے کا نقصان کیا ہوا؟‘ ’ڈاکٹر صاحب نقصان یہ ہوا کہ میں دھیرے دھیرے ذہنی تنہائی کا شکار ہو گیا۔ اب میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے دور ہوتا جا رہا ہوں۔ اب میری ان کی محفلوں میں دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اب مجھے ان کی روایتی باتیں بے معنی لگتی ہیں۔ اب میرے من میں سنجیدہ مکالمے کی پیاس بڑھتی جا رہی ہے لیکن ایسا مکالمہ کرنے والا یہاں کوئی نہیں ہے۔ میرے ارد گرد تو بہت سے مذہبی اور روایتی لوگ بستے ہیں۔ اگر انہیں میرے خیالات و نظریات کا پتہ چل گیا تو کہیں مجھ پر فتوے ہی نہ لگا دیں مجھے کہیں سنگسار ہی نہ کر دیں۔
ڈاکٹر صاحب! آپ ایک معالج بھی ہیں۔ کیا آپ کی نگاہ میں میرے مسئلے کا کوئی حل ہے؟ کیا میری ذہنی احساس تنہائی کا کوئی علاج ہے؟ اگر ہے تو مجھے ضرور بتائیں۔ ’میں نے فرقان صاحب کی سب باتیں بڑے صبر و تحمل سے سنیں اور پھر میں نے کہا، ’ فرقان صاحب! آپ کو جس ذہنی تنہائی کا سامنا پچاس برس کی عمر میں ہوا ہے مجھے اس تنہائی کا احساس پندرہ برس کی عمر میں ہوا تھا جب میں نے پہلی دفعہ افلاطون کی کتاب ریپبلک میں سقراط اور افلاطون کے مکالمے پڑھے تھے۔ ان مکالموں نے میرے ذہنی میں ان گنت کھڑکیاں کھول دی تھیں اور مجھے بہت سے موضوعات پر نئے انداز سے سوچنے کی دعوت دی تھی۔ ریپبلک پڑھنے کے بعد میں نے بھی بہت سے دانشوروں کی دانائی کی بہت سی کتابیں پڑھیں اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔
میں نے جب ان موضوعات پر اپنے ارد گرد لوگوں سے مکالمہ کرنا چاہا تو کچھ مسکرائے کچھ ہنسے کچھ نے تمسخر اڑایا۔ انہیں ان دقیق مسائل میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا رشتہ زندہ ہمسایوں کی نسبت مردہ فلاسفروں سے کہیں زیادہ مضبوط ہو۔ اس تجربے کے بعد میں نے کتابوں سے دوستی کر لی جو آج تک جاری ہے ’۔’ڈاکٹر صاحب! میرا بھی یہی حال ہے۔ میں نے بھی کتابوں سے دوستی کر رکھی ہے لیکن ان کتابوں نے مجھے انسانوں سے دور کر دیا ہے‘۔’فرقان صاحب کتابوں سے دوستی اچھی بات ہے لیکن صرف کتابوں سے دوستی بھی اتنی اچھی بات نہیں۔ ہمیں انسانوں سے بھی رشتہ قائم رکھنا چاہیے۔
یہ بات درست ہے کہ ایسے لوگ جن سے انسان زندگی کے مسائل کے بارے میں سنجیدہ مکالمہ اور دل کی باتیں کر سکے بہت کم ہیں کیونکہ وہ اقلیت میں ہیں لیکن اس اقلیت میں بھی بہت سے لوگ ہیں جو ساری دنیا میں چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔اب تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے جیسے آپ نے مجھ سے رابطہ قائم کیا ہے آپ اور ادبی اور نظریاتی دوستوں سے بھی رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔ میں اس سلسلے میں آپ کی مدد بھی کر سکتا ہوں۔ہم نے کینیڈا میں ایسے دوستوں کا ایک حلقہ یاراں بنا رکھا ہے جسے ہم نے فیمیلی آف دی ہارٹ کا نام دے رکھا ہے۔ اگر آپ ٹورانٹو میں ہوتے تو میں آپ کو اپنی دو فروری دو ہزار پچیس کی میٹنگ میں بلاتا اور ان دوستوں سے ملواتا جن سے آپ سنجیدہ مکالمہ کر سکتے۔ہم جب مل کر بیٹھتے ہیں تو دل کی باتیں کرتے ہیں ، کتابوں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں ، ایک دوسرے سے چبھتے ہوئے سوال پوچھتے ہیں ، اپنے سچ کا برملا اظہار کرتے ہیں ، اور اختلاف الرائے کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔
فرقان صاحب! آپ کا مسئلہ سب سنجیدہ ادیبوں شاعروں اور آزاد خیال دانشوروں کا مسئلہ ہے۔ اس کتاب کی دوستی کی ایک قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس دوستی کے بارے میں جون ایلیا نے ایک نظم لکھی تھی۔ جانے سے پہلے میں آپ کو وہ نظم سنانا چاہتا ہوں تا کہ آپ اس سے محظوظ بھی ہوں اور اس سے آپ کو تسلی بھی ہو کہ دنیا میں اور بھی بہت سے ایسے انسان ہیں جو ذہنی تنہائی کا شکار رہتے ہیں۔ نظم کا عنوان ہے
رمز
تم جب آؤ گی تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدہ عشرت انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا
فرقان صاحب! مجھے امید ہے کہ جب یہ کالم ’ہم سب‘ پر چھپے گا تو بہت سے آزاد خیال اور غیر روایتی سوچ کے مالک آپ سے سنجیدہ مکالمہ کرنے کو تیار ہو جائیں گے اور آپ کو اپنے فون نمبر دیں گے تا کہ آپ ان سے سنجیدہ مکالمہ کر سکیں۔فرقان صاحب نے میرا شکریہ ادا کیا۔ اس مکالمے کے اختتام تک وہ بھی میرے لیے اجنبی نہ رہے تھے۔میں نے سوچا کتابوں کی دوستی بھی بڑی قیمتی دوستی ہے۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں