ڈاکٹر خالد سہیل
میں نے جب اپنے سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے ادیب ’شاعر اور دانشور دوستوں سے پوچھا کہ کیا آپ HERMENEUTICS ہرمانیوٹکس کی روایت سے واقف ہیں تو انہوں نے مجھے عجیب و غریب نگاہوں سے دیکھا۔ ان میں سے اکثر نے یہ لفظ اور یہ اصطلاح پہلے نہ سنی تھی لیکن وہ اس کے بارے میں کچھ جاننے کے خواہشمند تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہرمانیوٹکس فلسفے ’نفسیات اور ادب کی وہ روایت ہے جس کا بنیادی موقف یہ ہے کہ کسی بھی تحریر کے ایک سے زیادہ معنی ہوسکتے ہیں کیونکہ لفظ و معنی کا رشتہ دلچسپ بھی ہے اور پر اسرار بھی۔ ہر قاری ہر تحریر کو اپنی سوچ‘ اپنی فکر ’اپنی شخصیت اور اپنے ادبی ذوق کے حوالے سے پڑھتا اور سمجھتا ہے ؎ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔
ہرمانیوٹکس کی روایت کا آغاز اس وقت ہوا جب فلسفیوں نے پادریوں سے کہا کہ بائبل کی آیات و روایات و حکایات کے ایک سے زیادہ معنی ہو سکتے ہیں۔مغرب میں ایک وہ زمانہ تھا جب بائبل کو پڑھنے ’سمجھنے اور سمجھانے کی صرف پادریوں کو اجازت تھی۔ عوام کو صحیفوں سے دور رکھا جاتا تھا۔مشرق میں بھی ایک وہ زمانہ تھا جب ہندوؤں کے صحیفوں کو صرف برہمن پنڈت ہی پڑھ سکتے تھے۔مشرق میں بدھ ازم اور مغرب میں پروٹسٹنٹ روایت نے برہمنوں اور پادریوں کی حاکمیت کو چیلنج کیا اور عوام کو دعوت دی کہ وہ صحیفوں کا خود مطالعہ کریں اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ان سے استفادہ کریں۔
میں نے جب نوجوانی کے چند برسوں میں قرآن کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ قرآنی آیات کا بھی مختلف مسلمان علما نے مختلف انداز سے ترجمہ کیا ہے۔ بعض کا ترجمہ مختلف ہی نہیں متضاد بھی تھا۔ اس کی ایک مثال قرآنی آیات اور ڈارون کا ارتقا کا نظریہ ہے۔ قرآن کی ایک آیت میں ذکر ہے کہ کرہ ارض میں انسان کا آغاز۔ نفس الواحدہ۔ سے ہوا۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اس کا ترجمہ آدم کرتے ہیں کیونکہ وہ آدم و حوا اور جنت کی کہانی کو مانتے ہیں اس لیے وہ ڈارون کے نظریے کو رد کرتے ہیں ہیں۔ اس کے مقابلے میں ابوالکلام آزاد۔ نفس الواحدہ۔ کا ترجمہ۔ آدم۔ کرنے کی بجائے۔ UNICELLULAR ORGANISM۔ AMOEBA۔ کرتے ہیں اور قرآن کی دیگر آیات کا حوالہ دے کر ڈارون کے نظریے کو قبول کرتے ہیں۔
میں نے جب علامہ اقبال کے چھ لیکچرز کا مجموعہ RECONSTRUCTION OF RELIGIOUS THOUGHT IN ISLAM پڑھا تو میں نے یہ سیکھا کہ آسمانی صحیفوں کو پڑھنے کے دو طریقے ہیں۔پہلے طریقے میں الفاظ اور آیات کو لغوی معنی LITERAL MEANINGدیے جاتے ہیں۔ دوسرے طریقے میں الفاظ و آیات کو استعاراتی معنی METAPHORICAL MEANINGدیے جاتے ہیں۔
علامہ اقبال نے اس کی دو مثالیں پیش کیں۔پہلی مثال میں انہوں نے فرمایا کہ آدم و حوا کی کہانی جنت میں ایک مرد اور عورت کی کہانی نہیں بلکہ کرہ ارض پر ہر مرد اور عورت کی استعاراتی کہانی ہے۔دوسری مثال دیتے ہوئے کہا کہ جنت اور دوزخ جگہیں نہیں انسانی کی ذہنی کیفیات کے نام ہیں HELL AND HEAVEN ARE STATES NOT PLACES
ہرمانیوٹکس کی جو روایت مذہبی صحیفوں کی مختلف اور متضاد تفسیروں سے شروع ہوئی وہ آہستہ ٓآہستہ سیکولر تخلیقات تک پہنچ گئی اور زبان کے فلسفیوں جن میں WILHEIM DITHEY، MARTIN HEIDEGGER، HANS-GEORG GADAMER AND FRIEDRICH SCHLEIERMACHER, شامل ہیں ’نے کہا کہ وہ شاعری ہو یا افسانہ‘ ناول ہو یا ڈرامہ ہر تخلیق کے اتنے ہی معنی ہیں جتنے قاری۔
بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ کسی بھی مذہب کے پیروکاروں میں اس لیے مذہبی جنگیں ہوتی ہیں کہ بنیاد پرست اور شدت پسند پیروکار آسمانی صحیفوں کا لغوی ترجمہ کرتے ہیں جبکہ روشن خیال پیروکار ان ہی آیات کا استعاراتی ترجمہ کرتے ہیں جو لغوی معنی سے مختلف بھی ہو سکتا ہے اور متضاد بھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ غالب کے کسی بھی شعر کو مختلف معانی دیے جا سکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ استعاروں کا تخلیقی استعمال ہے۔ شاعری میں نثر کے مقابلے میں تشبیہوں اور استعاروں کا زیادہ استعمال ہوتا ہے اس لیے شاعری کا ترجمہ نثر پارے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
میں دو طرح کے مترجموں کو جانتا ہوں بعض کا ترجمہ اصل تحریر سے وفادار تو ہوتا ہے لیکن خوبصورت نہیں ہوتا اور بعض کا ترجمہ خوبصورت ہوتا ہے لیکن اصل تخلیق سے وفادار نہیں ہوتا۔ اسی لیے کسی ماہر لسانیات نے کہا تھا WHEN TRANSLATION IS BEAUTIFUL IT IS NOT FAITHFUL AND WHEN IT IS FAITHFUL IT IS NOT BEAUTIFUL
مجھے یہ کالم لکھتے ہوئے ایک نیم مزاحیہ واقعہ یاد آ گیا۔ فیض احمد فیض لندن کے اردو مرکز میں ادبی دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ ان کے ایک اجنبی پرستار نے آ کر کہا کہ انہوں نے فیض کی ایک اردو نظم کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے ، فیض صاحب نے فرمایا ’سنائیں‘ ، جب ان صاحب نے ترجمہ سنایا تو وہ اتنا ناقص تھا کہ سب حاضرین خاموش ہو گئے۔ چونکہ فیض صاحب بہت وضعدار انسان تھے اس لیے انہوں نے کہا ’قبلہ! ترجمہ کرنے والے کو کم از کم ایک زبان پر تو عبور ہونا چاہیے۔‘
ترجمہ کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ ہم نے نجانے کتنا عالمی ادب تراجم کے حوالے سے ہی جانا ہے۔کالم ختم کرنے سے پہلے میں آپ کو 1990 کے میکسیکو کے ادبی نوبل انعام یافتہ لکھاری اوکٹاویا پاز کے چند جملے سنانا چاہتا ہوں جو انہوں نے عالمی ادب کے تراجم کے حوالے سے لکھے تھے اور میں آپ دوستوں کے لیے ترجمہ کر رہا ہوں ، ’ کسی دوسری قوم کی زبان کو جاننا‘ سمجھنا اور اس کا ادب اپنی قوم کی زبان میں ترجمہ کرنا انسانی زندگی کی کثرت میں وحدت تلاش کرنا ہے۔
ایسی زبان کی تلاش جسے ساری دنیا کے انسان بول اور سمجھ سکیں انسانی زندگی میں ایک وحدت تلاش کرنے کا خواب ہے۔ جب یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا تو انسان ترجمہ کرنے لگتا ہے۔چونکہ تمام زبانوں کے بنیادی اصول اور منطق ایک جیسے ہیں اس لیے سترہویں صدی کے پورٹ رائل سے لے کر بیسویں صدی کے نوئم چومسکی تک بہت سے مفکرین نے عالمی گرامر تخلیق کرنے کے خواب دیکھے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ زبانیں مختلف سہی لیکن وہ زبانیں جن معانی کی طرف اشارہ کرتی ہیں وہ عالمی ہیں۔ترجمہ کرنے والا ادب کو دوبارہ تخلیق کرتا ہے۔ دوبارہ تخلیق کرتے وقت وہ زمان و مکان کے فاصلے طے کرتا ہے اور ایک قوم کا ادب دوسری قوم اور ایک صدی کا ادب دوسری صدی تک پہنچاتا ہے۔
ایک وہ دور تھا جب چین اور تبت میں ترجمہ کرنے والوں کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔ ایسا کام قوم کے مستند ’معزز اور معتبر سیاحوں کے ذمے تھا جو ایک قوم کی سچائیاں دوسری قوم تک پہنچاتے تھے۔ ان کا ایمان تھا کہ ایک قوم کی زبان کا ادب دوسری قوم کی زبان میں ترجمہ ہو سکتا ہے کیونکہ تمام انسانی سچائیاں عالمی اور ابدی ہیں۔انسانی روح ایک ہے اور اس کی زبانیں بہت سی۔ مترجم انسانی وحدت اور کثرت میں لفظ و معنی کا ایک پل تعمیر کرتا ہے اور عالمی ادب تخلیق کرتا ہے۔ ’
بشکریہ ہم سب
واپس کریں