ڈاکٹر خالد سہیل
میں جب امیرؔ حسین جعفری کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے ذہن میں اس بچے کا تصور ابھرتا ہے جو اپنے عہد کے جدید شاعر اخترؔ حسین جعفری کی گود میں پلا بڑھا ہو اور جس کے گھر میں احمد ندیم قاسمیؔ ’ضیاؔ جالندھری‘ سیف الدین سیفؔ ’نجیب احمد‘ خالدؔ احمد اور ساقیؔ فاروقی جیسے اردو ادب کے صف اول کے شعرا کا آنا جانا ہو۔میں جب امیر حسین جعفری کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے ذہن میں اس نوجوان کی تصویر ابھرتی ہے جو پاکستان ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھتا تھا اور انعامات سے نوازا جاتا تھا۔میں جب امیر حسین جعفری کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے اس جوان کا خیال آتا ہے جو ایوب خاور جیسے ڈائرکٹر اور ضیا محی الدین جیسے ایکٹر کا رفیق کار رہا ہو۔میں جب امیر حسین جعفری کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے دماغ میں اس شاعر کا عکس ابھرتا ہے جو جدید شاعری کی تفہیم اور تفسیر جاننے کے لیے اوکٹاویا پاز ’ٹی ایس ایلیٹ‘ ایزراپاؤنڈ اور پابلو نرودا جیسے ادیبوں کی شاعری اور تنقید کا مطالعہ کرتا تھا۔میں جب امیر حسین جعفری کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے ذہن میں اس طالب علم کی تصویر ابھرتی ہے جو اپنے والد کی لائبریری میں کھو جاتا تھا اور ادب ’فلسفہ‘ مذہب ’نفسیات اور سماجیات کی کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا۔
یہ وہ رنگ ہیں جنہوں نے مل کر امیر حسین جعفری کی ادبی شخصیت کی قوس قزح تخلیق کی اور اسے اپنے عہد کا ایک معتبر اور معزز شاعر اور ایکٹر ’ڈائرکٹر اور دانشور بنایا۔مجھے وہ سہ پہر یاد ہے جب میرے کامریڈ دوست سید عظیم نے فون پر خبر سنائی کہ امیر حسین جعفری لاہور سے ٹورانٹو نقل مکانی کر رہے ہیں۔مجھے وہ شام یاد ہے جب جرارڈ سٹریٹ کے ایک سیمینار میں میری پہلی دفعہ امیر حسین جعفری اور ان کی شریک حیات سیمیں جاوید سے ملاقات ہوئی ’میں نے ان کی خدمت میں اپنا شعری مجموعہ‘ سمندر اور جزیرے ’پیش کیا‘ اپنی دوست زہرا نقوی سے تعارف کروایا اور علی بابا رسٹورانٹ میں کھانے کی دعوت دی۔مجھے وہ مشاعرہ یاد ہے جس میں امیر حسین جعفری نے پہلی دفعہ اپنی نظمیں سنا کر سامعین کو محظوظ و مسحور کیا۔مجھے رحمہ فاؤنڈیشن کا وہ پروگرام یاد ہے جس میں امیر حسین جعفری نے سٹیج پر ایکٹنگ کا جادو جگایا اور حاضرین کا دل موہ لیا۔
مجھے فیملی آف دی ہارٹ کا وہ سیمینار یاد ہے جس میں امیر حسین جعفری نے جدید شاعری پر ایک عالمانہ مقالہ پڑھ کر سامعین کو متاثر کیا۔مجھے رفیق سلطان کے گھر کی وہ محفل یاد ہے جس میں امیر حسین جعفری نے خالد احمد کی یاد میں ایک مضمون پڑھا اور حاضرین کی آنکھیں نم ہو گئیں۔مجھے امیر حسین جعفری کے گھر کی وہ محفلیں یاد ہیں جن میں ہم نے ان کے دونوں بیٹوں زائر حسین جعفری اور اختر حسین جعفری جونیر کے ساتھ کھیلتے کھیلتے اس موضوع پر گفتگو کی کہ ادیب اور شاعر اپنی ادبی ’سماجی اور خاندانی زندگی میں کیسے توازن پیدا کرتے ہیں۔مجھے وہ ویکنڈ بھی یاد ہے جب امیر حسین جعفری کے بھائی منظر حسین اختر کو ان کے مجموعہ کلام ’سطر نو‘ پر پاکستان میں ایوارڈ ملا اور میں نے امیر حسین جعفری سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان انہیں بھی اپنا دیوان چھپوا لینا چاہیے۔
یہ میری خوش بختی ہے کہ امیر حسین جعفری جیسا دانشور شاعر میرا دوست ہی نہیں میرا ادبی ہمسفر بھی ہے۔ اس کی شاعری اور زندگی میں اتنا گمبھیرتا ہے کہ اس پر ایک ناول یا تین گھنٹے کا ڈرامہ لکھا جا سکتا ہے۔ میں نے اس ڈرامے کے بارے میں ایک نثری نظم لکھی تھی جس کا عنوان ہے،
اس کی زندگی کے سکرین پلے کا ون لائنر
لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں
وہ وقت سے پہلے اتنا بزرگ کیسے بن گیا ہے
اس کی باتوں میں اتنی گہرائی اور دانائی کہاں سے آئی ہے
اور میں انہیں بتاتا ہوں
نوجوانی میں
اس کے دل میں
ایک ذہین عورت کی محبت کی کلی کھلی تھی
اور ابھی وہ کلی
پوری طرح پھول بھی نہ بن پائی تھی کہ
اس کے شاعر والد کا انتقال ہو گیا
اور وہ چاروں طرف بکھر گیا
اپنے والد کی لائبریری میں کھو گیا
اس نے جب خود کو سمیٹا تو
وہ ایک شاعر بن چکا تھا
وقت سے پہلے بوڑھا ہو چکا تھا
اب وہ
روایت اور بغاوت
قدیم اور جدید کے
چوراہے پر کھڑا
کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہے
شعر کہتا ہے
دانائی کی باتیں کرتا ہے
اور لوگوں کو حیران کرتا ہے
لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں
وہ وقت سے پہلے اتنا بزرگ کیسے بن گیا ہے
اور میں خاموش رہتا ہوں
بشکریہ ہم سب
واپس کریں