ڈاکٹر خالد سہیل
مجھے ایک دن میری ایک کینیڈین مریضہ نینسی نے کہا، میں ساری عمر مذہبی نہ تھی۔ نہ تو میں بائبل پڑھتی تھی اور نہ ہی میں اتوار کو عبادت کے لیے گرجا جایا کرتی تھی لیکن جب سے میری والدہ فوت ہوئی ہیں میں دن رات اپنی والدہ کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔ وہ میری والدہ ہی نہیں میری دوست بھی تھیں۔والدہ کی وفات کے بعد نینسی نے بائبل بھی پڑھنی شروع کی اور باقاعدگی سے گرجا بھی جانا شروع کر دیا۔ ان باتوں سے اسے سکون ملتا ہے۔ نینسی نے میری رائے پوچھی تو میں نے کہا تم ایک GRIEVING PROCESS سے گزر رہی ہو تمہیں نفسیاتی مدد کی ضرورت ہے۔ چند ماہ کی تھراپی سے نینسی کافی بہتر محسوس کرنے لگی اور اپنی زندگی کے کاموں میں مصروف ہو گئی۔
مجھے ایک اور کینیڈین مریض ڈیوڈ نے بتایا کہ وہ بھی کبھی کبھار گرجا جایا کرتا تھا لیکن جب سے اس کا جوان بیٹا بیمار ہوا ہے اور اس کی کینسر کی تشخیص ہوئی ہے وہ کافی مذہبی ہو گیا ہے۔ اب وہ ہر اتوار کو جا کر خود بھی دعا کرتا ہے اور پادری سے بھی کہتا ہے کہ وہ اس کے بیمار جوان بیٹے کے لیے دعا کرے۔ ڈیوڈ کا ایمان ہے کہ جس دن خدا نے اس کی دعا قبول کی اس دن اس کا بیٹا شفایاب ہو جائے گا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مذہبی لوگ کرامات اور معجزوں پر ایمان رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کوئی مافوق الفطرت طاقت ان کے مسائل کو حل کر سکتی ہے۔
میرے بہت سے دہریہ دوست یہ جان کر حیران ہوتے ہیں کہ میں اپنے مذہبی مریضوں کو کبھی مسجد، مندر، گرجا یا سیناگوگ جانے سے نہیں روکتا بلکہ اگر انہیں اپنے مذہبی دوستوں سے مل کر سکون ملتا ہے تو میں اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔ اگر کسی بھی انسان کو اس کی مذہبی عادات، مذہبی رسومات اور مذہبی دوستوں سے ملاقات سے خوشی اور سکون ملتا ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ میں ان کاموں کو ان کی نفسیاتی ضرورت سمجھ کر قبول کرتا ہوں۔اگر کسی انسان کو اپنے یا اپنے خدا سے راز و نیاز کی باتیں کر کے خوشی ملتی ہے تو بھلا مجھے اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ وہ راز و نیاز کی باتیں اس کا حق ہے۔
ایک ماہر نفسیات ہونے کے ناتے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہر انسان کی نفسیاتی ضرورت ہے کہ وہ کسی اور سے اپنے دل کی باتیں کرے اور اپنا غم غلط کرے اور اگر کوئی انسان نہ ملے جس پر وہ اعتماد و اعتبار کر سکتا ہو تو وہ انسان خدا سے دل کی باتیں کر سکتا ہے اور مذہبی انسان جانتا ہے کہ اس کا خدا تو چوبیس گھنٹے اپنے بندوں کی باتیں سننے کے لیے تیار رہتا ہے۔ ایک انسان دوست ڈاکٹر ہونے کے ناتے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہر شخص کا انسانی حق ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنے ضمیر کی روشنی میں گزارے اور وہ سب کام کرے جن سے اسے ذہنی سکون ملتا ہے۔
گفتگو کے اس موڑ پر میں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک نفسیاتی معالج کے طور پر نفسیاتی مکالمہ ایک انسان دوست دہریہ کے طور پر نظریاتی مکالمے سے بہت مختلف ہے۔ میرے سب دوست جانتے ہیں کہ میں نے مذہب اور خدا کو بہت عرصہ پہلے خدا حافظ کہہ رکھا ہے۔ میرا دل اس وقت دکھتا ہے جب مذہبی انسان غیر مذہبی انسانوں سے ہمدردی کرنے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ تمہاری بیماری تمہارے گناہوں کی سزا ہے اور تمہیں خدا سے معافی مانگنی چاہیے۔میری بھانجی کا ایکسیڈنٹ ہوا تو میں نے دعا کرنے کی بجائے اپنے گھر لا کر کئی ماہ اس کا خیال رکھا اور ہسپتال جا کر اس کے سرجن کا شکریہ ادا کیا جس نے اپنے سائنس اور طب کے علم کی بنا پر اس کی ٹوٹی ہوئی گردن کو چند گھنٹوں کے آپریشن سے جوڑا اور اس کو موت کے چنگل سے بچا کر نئی زندگی کا تحفہ دیا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پچھلی چند صدیوں میں جوں جوں سائنس طب اور نفسیات کے علوم میں اضافہ ہو رہا ہے ان لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جو اندھے یقین کی بجائے سائنسی سوچ کو اپنے دل کے قریب رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ انسان ہی انفرادی اور اجتماعی طور پر دوسرے انسانوں کے مسائل حل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ایسے لوگ کرامات اور معجزوں کا انتظار کرنے کی بجائے اپنے مسائل کا منطقی اور سائنسی حل تلاش کرتے ہیں۔ ایسے سائنسدانوں نے ہی پنسلین بھی دریافت کی اور انسولین بھی اور یہ ادویہ مذہبی اور لامذہبی سب انسانوں کے لیے ہیں۔
اسی لیے اگر کسی پادری یا مولانا کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے تو وہ دعا کرنے کی بجائے دوا کا استعمال کرتا ہے اور ایمبولینس کو فون کر کے جلد از جلد ہسپتال جاتا ہے اور اگر اس کے غریب مذہبی ملک میں علاج میسر نہ ہو تو وہ سائنسی اڑن کھٹولے ہوائی جہاز میں بیٹھ کر کسی متمول غیر مذہبی ملک جا کر اپنا علاج کرواتا ہے۔سائنسی سوچ رکھنے والے مرد اور عورتیں جانتے ہیں کہ موت کے بعد کا منظر کسی نے نہیں دیکھا اور جنت دوزخ کی کہانیاں خواب ہیں سراب ہیں۔ اسی لیے غالب فرماتے ہیں ،
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
ایک نفسیاتی معالج ہونے کے ناتے میں اپنے مذہبی مریضوں کی مذہبی رسوم و روایات کو ان کی نفسیاتی ضرورت سمجھ کر قبول کرتا ہوں اور ایک انسان دوست ہونے کے ناتے مذہبی روایات کو سراب بھی سمجھتا ہوں۔ میرا یہ بھی موقف ہے کہ ہر انسان کو اپنے نظریات پر عمل کرنے کا پورا حق ہے۔ میرے اتفاق کرنے یا اختلاف کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میری کئی مذہبی لوگوں سے گہری دوستی ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے ہم خیال لوگوں سے تو سب دوستی کر سکتے ہیں اصل کمال تو نظریاتی اختلاف کے ساتھ دوستی کرنے میں ہے۔ایک ماہر نفسیات ہونے کے ناتے میں اپنے مریضوں کی دل سے نکلی دعاؤں کا احترام کرتا ہوں اور ایک انسان دوست دہریہ ہونے کے ناتے سمجھتا ہوں کہ انسانی ارتقا کا سفر دعاؤں سے دو اؤں کا سفر ہے۔ آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
بشکریہ ہم سب
واپس کریں