ڈاکٹر خالد سہیل
شاگرد : درویش کی کیا پہچان ہے؟ استاد: وہ خود بھی پرسکون ہوتا ہے اور اس کی قربت میں دوسرے انسانوں کو بھی سکون ملتا ہے۔ ایک انسان دوست ماہر نفسیات ہونے کے ناتے میں روحانیت کے مذہبی پہلو سے زیادہ اس کے نفسیاتی پہلو میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ میں عارفانہ شاعری کے ساتھ ساتھ مختلف سنتوں، سادھوؤں، صوفیوں اور درویشوں کی سوانح عمریاں پڑھتا رہتا ہوں تا کہ یہ جان سکوں کہ روحانیت کا راستہ اختیار کرنے کے بعد ان کی طرز زندگی میں کیا تبدیلیاں آئیں۔ میرا خیال ہے کہ اکثر درویشوں کی شخصیت میں مندرجہ ذیل سات خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
1۔ قناعت
درویش قناعت پسند انسان ہوتے ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا احساس ہو جاتا ہے کہ بہت سے لوگ اس مادی دنیا میں حرص کی وجہ سے دکھی رہتے ہیں۔ وہ حریص لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے پاس ایک بڑا سا گھر، بہت سی کاریں، کشتیاں، عیاشی کا سامان اور بینک میں بہت سے ڈالر ہوں گے تو وہ خوش ہوں گے لیکن درویش جانتے ہیں کہ وہ سب سراب ہے۔ جب کوئی شخص حریص ہو جاتا ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حرص کم ہونے کی بجائے بڑھتی رہتی ہے۔پہلے وہ ہزار ڈالر جمع کرتا ہے پھر وہ لکھ پتی بننا چاہتا ہے اور پھر کروڑ پتی۔ درویش یہ راز جان لیتے ہیں کہ زندگی ایک سمندر کی طرح اور انسانی دل ایک کشتی کی طرح ہے۔ جب تک کشتی میں سوراخ نہ ہو وہ تیرتی رہتی ہے لیکن جوں ہی اس کے پیندے میں سوراخ ہو جاتا ہے اور پانی کشتی کے اندر آنا شروع کرتا ہے تو اندر آنے والا دو گیلن پانی سمندر کے دو لاکھ گیلن پانی سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے اور کشتی کو لے ڈوبتا ہے۔ جب لوگوں کے دلوں میں کسی بھی چیز کی حرص داخل ہو جاتی ہے تو وہ انہیں پریشان رکھتی ہے۔
بدھا نے فرمایا تھا ’جب انسان کی اپنی ذات بھی اس کی اپنی نہ ہو تو دولت اور بچے کیسے اس کے ہو سکتے ہیں۔ خلیل جبران نے اپنی کتاب پرافٹ میں لکھا تھا ’ ایک عورت نے، جس نے اپنے بچے کو گود میں اٹھایا ہوا تھا، پوچھا‘ ہمیں بچوں کے بارے میں بتاؤ؟ اس نے کہا ’تمہارے بچے تمہارے نہیں ہیں، یہ زندگی کی امانت ہیں ، انہیں اپنی محبت دو اپنے خیالات نہ دو ، کیونکہ ان کے اپنے خیالات ہیں ، تم ان کے جسموں کا خیال رکھ سکتے ہو روحوں کا نہیں ، ان کی روحیں فردا کے لیے ہیں جہاں تمہاری رسائی نہیں ، خوابوں میں بھی نہیں۔
بہت سے ایسے درویش، جنہوں نے دنیاوی زندگی کو خیرباد کہہ کر درویشانہ زندگی اختیار کی، ان میں ابراہیم ادھم بھی شامل تھے۔ وہ معرفت کی راہ اختیار کرنے سے پہلے بہت مالدار تھے۔ کہاوت ہے کہ ایک رات وہ اپنے محل میں سو رہے تھے کہ چھت پر کسی کے چلنے کی آواز آئی۔ انہوں نے بآواز بلند پوچھا، ’چھت پر کیا کر رہے ہو؟‘ ’ میں اپنا کھویا ہوا اونٹ تلاش کر رہا ہوں‘ ابراہیم ادھم ہنسے اور کہنے لگے ’کبھی کوئی اونٹ چھت پر بھی ملتا ہے؟‘ وہ شخص بھی زور سے ہنسا اور بولا، اور کیا خدا محل میں ملتا ہے؟ ’ اگلے دن ابراہیم ادھم نے محل کو خدا حافظ کہا اور معرفت کی تلاش میں جنگل کی طرف چل دیے۔
میرا ایک شعر ہے
؎ دوست احباب بڑے شوق سے ملنے آئے
ہم جو گھر چھوڑ کے جنگل کو چلے ہیں چپ ہیں
2۔ منکسرالمزاجی
درویش منکسر المزاج ہوتے ہین۔ وہ سب انسانوں کا احترام کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ان کے نام، خاندان اور دولت کی بجائے ان کے کردار کی وجہ سے پرکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سب انسان برابر ہیں۔ وہی انسان بہتر ہیں جن کا کردار اعلیٰ ہے۔ درویش رنگ، نسل، زبان، مذہب اور قومیت کے تعصبات سے بالاتر ہوتے ہیں۔ درویش لوگوں پر مولویوں کی طرح فتوے لگانے کی بجائے انہیں ان کی خامیوں سمیت قبول کرتے ہیں اور دل سے لگاتے ہیں۔ درویش کی کٹیا کا دروازہ سب کے لیے کھلا رہتا ہے۔ایک کہاوت ہے کہ ایک محل میں ایک وزیر رہتا تھا۔ وہ ہر رات سونے سے پہلے ایک کوٹھڑی میں جاتا تھا۔ لوگوں کو پتہ نہ تھا کہ اس کوٹھڑی کا راز کیا ہے۔ جب وہ وزیر مرنے لگا اور لوگوں نے راز پوچھا تو وزیر نے کہا کہ ایک زمانے میں وہ گداگر ہوتا تھا۔ اس نے کوٹھڑی میں وہ گدڑی سنبھال کر رکھی ہوئی تھی اور ہر رات سونے سے پہلے وہ اس گدڑی کو دیکھتا تھا تا کہ وہ مغرور و متکبر نہ ہو جائے۔ اس وزیر کی منکسر المزاجی نے ساری قوم کا دل موہ لیا تھا اور وہ اس کا احترام کرتے تھے۔
سعدیؔ شیرازی فرماتے ہیں
ایک بارش کا قطرہ
جب سمندر کے پاس آیا تو شرمندہ ہوا سوچنے لگا
میں اس سمندر کے آگے کتنا ناچیز ہوں
اس قطرے کی ندامت دیکھ کر
ایک سیپ کو اس پر پیار آ گیا
اور بڑھ کر اسے گلے لگا لیا
اس طرح وہ قطرہ اپنی منکسر المزاجی سے موتی بن گیا۔ درویش جانتے ہیں کہ انسان کی اپنی انا اس کی معرفت کے سفر کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔
میرا ایک شعر ہے
؎ سفر میں خود ہی حائل ہو گیا ہوں۔
میں اپنا راستہ روکے کھڑا ہوں
3۔ عذاب و ثواب سے بالاتر
بہت سے لوگ بچوں کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ اچھا کام کریں تو اس کی جزا چاہتے ہیں اور برا کام کریں تو سزا کی امید رکھتے ہیں۔ جو لوگ معرفت کی منزلیں طے کر چکے ہوتے ہیں وہ بڑے مقاصد کے لیے چھوٹے مقاصد اور بڑی خوشیوں کے لیے چھوٹی خوشیاں قربان کر سکتے ہیں۔ عام مذہبی لوگ اس دنیا میں عبادتیں کرتے ہیں اور قربانیاں دیتے ہیں تا کہ اخروی زندگی میں جنت میں جا سکیں اور جہنم سے بچ سکیں۔درویش معرفت کی اس منزل پر پہنچ جاتے ہیں جہاں نہ تو جنت کی خواہش باقی رہتی ہے نہ جہنم کا خوف۔ ایک کہاوت ہے کہ ایک دفعہ رابعہ بصری بصرہ کے بازار میں ایک ہاتھ میں آگ اور دوسرے ہاتھ میں پانی لیے بھاگی جا رہی تھیں۔ کسی نے پوچھا ’کہاں جا رہی ہیں؟‘ ، کہنے لگیں ’میں جنت کو آگ لگانے اور پانی سے جہنم کی آگ کو بجھانے جا رہی ہوں تا کہ لوگ جنت کی طمع اور جہنم کے خوف سے نیکی اور عبادت نہ کریں‘ ۔
4۔ من کا سکون
درویش اس طرح زندگی گزارتے ہیں کہ ان کے دلوں سے حزن، پریشانی اور دکھ نکل جاتے ہیں اور ان کے من میں آشتی اور سکون پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ ساری دنیا کو تو نہیں بدل سکتے لیکن اپنے دل کو بدل لیتے ہیں۔ وہ زندگی کو قبول کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ ان کی گفتار و کردار کے تضادات آہستہ آہستہ کم ہونے لگتے ہیں۔ وہ چونکہ خود پرسکون ہوتے ہیں اس لیے ان کی قربت میں باقی لوگ بھی پرسکون محسوس کرتے ہیں۔ بدھا نے فرمایا تھا ’اگر کوئی انسان خلوص دل سے گفتگو اور کام کرتا ہے تو خوشی اور سکون اس کا سایہ بن جاتے ہیں۔ ‘
میرا ایک شعر ہے
عجب سکون ہے میں جس فضا میں رہتا ہوں
میں اپنی ذات کے غار حرا میں رہتا ہوں
5۔ مذہبی اداروں کو چیلنج کرنا
بہت سے درویشوں کا خیال ہے کہ مولویوں، پنڈتوں اور پادریوں نے مسجدیں، گرجے اور مندر بنا کر معرفت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ انسانوں کو اپنا سچ تلاش کرنے کے لیے مذہبی رہنماؤں اور اداروں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے رہنما مذاہب اور عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ چنانچہ درویش عوام کو بتاتے ہیں کہ وہ ان مولویوں، پنڈتوں اور پادریوں سے بچ کر رہیں کیونکہ وہ فتوے لگاتے رہتے ہیں۔ جب روایتی مذہبی رہنما ان درویشوں کی غیر روایتی اور درویشانہ باتیں سنتے ہیں تو سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ کبیر داس فرماتے ہیں ،
آؤ برہمن
میں صرف وہ کہتا ہوں جو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں
اور تم
آنکھیں بند کر کے آسمانی کتابیں دہراتے ہو
میں زندگی کی گتھیاں سلجھاتا ہوں
تم انہیں مزید الجھانا چاہتے ہو
ہم ایک دوسرے کے ساتھ کیسے مکالمہ کر سکتے ہیں۔
جب مولویوں، برہنموں اور پادریوں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ سنت، سادھو، صوفی اور درویش مذہبی روایات اور توہمات کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو وہ درویشوں کے خلاف ہو جاتے ہیں اور انہیں طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ جن درویشوں نے ان مصائب کا سامنا کیا ان میں سے ایک منصور حلاج تھے جو ایک درویش شاعر تھے۔ جب انہوں نے ’انالحق، کا نعرہ لگایا اور روایتی مذاہب کو چیلنج کیا تو انہیں بغداد میں سولی پر چڑھا دیا گیا۔درویش روایتی مذہب کی راہ چھوڑ کر معرفت کی راہ اور شریعت کی راہ چھوڑ کر طریقت کی راہ اختیار کرتے ہیں اور آخر میں اپنا سچ تلاش کر لیتے ہیں۔ بدھا نے فرمایا ’ہر انسان کا اپنا تجربہ اس کا سب سے بڑا استاد ہے۔ ‘
6۔ خدمت خلق
بلھے شاہ نے فرمایا
؎ مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا اے
پر کسے دا دل نہ ڈھاویں رب دلاں وچ رہیندا اے
(مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے، ڈھا دے جو کچھ ڈھتا ہے / لیکن کسی کا دل نہ توڑنا، رب دلوں میں رہتا ہے)
درویش لوگ روایتی مولویوں اور پادریوں کی طرح تبلیغ نہیں کرتے بلکہ خدمت خلق کرتے ہیں۔ وہ جس چیز پر ایمان رکھتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔درویشوں کے دلوں میں انسانیت کی ہمدردی ہوتی ہے اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کے دکھ کم اور سکھ زیادہ کریں۔ وہ خدمت خلق میں امیر غریب، چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں کرتے۔ وہ انسان دوست ہوتے ہیں اس لیے ان سے دوسرے انسانوں کا دکھ نہیں دیکھا جاتا۔
مدر ٹریسا کلکتے میں ان تمام لاوارثوں کی خدمت کرتی تھیں جو کلکتے کی گلیوں اور بازاروں میں موت کا انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ وہ انہیں اپنے گھر لے آتی تھیں۔ ان کا ایمان تھا کہ کسی انسان کو اکیلے نہیں مرنا چاہیے۔ کسی نے پوچھا تھا کہ آپ ایسا کیوں کرتی ہیں تو وہ کہنے لگیں مجھے ان لاوارثوں کے چہروں میں عیسیٰ نظر آتے ہیں۔ مدر ٹریسا کی طرح پاکستان کے عبدالستار ایدھی کی درویشانہ شخصیت میں مسیحائی اور خدمت خلق کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ والٹ وٹمین جو امریکہ کے درویش شاعر تھے وہ بھی جنگ کے دوران واشنگٹن کے ہسپتال میں جاتے تھے اور بیمار سپاہیوں کی خدمت کرتے تھے۔ والٹ وٹمین کی ہمدردی اور مسیحائی صرف اپنی قوم کے انسانوں تک محدود نہ تھی بلکہ ساری انسانیت کے لیے تھی۔ ان کی ایک نظم کے چند مصرعے ہیں
میرے سامنے میرے دشمن کی لاش پڑی ہے
وہ بھی انسان ہے، میری طرح مقدس انسان
میں اس پر جھکتا ہوں اور
اس کی پیشانی کو بوسہ دیتا ہوں
درویشوں کو اپنے دشمنوں میں بھی انسان نظر آتے ہیں۔
7۔ موت
درویش موت سے نہیں گھبراتے۔ وہ جانتے ہیں کہ جس طرح ان کی زندگی پرسکون گزری ہے اسی طرح انہیں موت بھی سکون سے آئے گی۔ وہ موت سے گھبرانے کی بجائے وقت آنے پر اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔ ٹیگور فرماتے ہیں
جب موت میرے دروازے پر دستک دے گی
تو میں
اسے خالی ہاتھ نہ بھیجوں گا
اسے اپنی زندگی کی بھری ہوئی صراحی پیش کروں گا
جلال الدین رومیؔ لکھتے ہیں
جب ہم مر جائیں
تو ہمیں قبروں میں ڈھونڈنے کی بجائے
چاہنے والوں کے دلوں میں ڈھونڈنا
بشکریہ ہم سب
واپس کریں