دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جعلی انا کی تسکین
جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
-
جسٹس ( ر) منظور گیلانی
ایک دفعہ مرحوم سردار سکندر حیات جو اس وقت آزاد کشمیر کے وزیر اعظم اور میں ہائ کورٹ کا جج تھا ، مجھ سے غیر رسمی گفتگو میں بیٹے کی شادی پہ مبارک دی اور از راہ تفنن کہا کہ آپ نے بلایا نہیں - میں نے کہا جی ہان عام لوگوں کے احترام کی وجہ سے میں سماج میں وی آئ پی سمجھے جانے والے لوگوں کو تکلیف نہیں دیتا کیونکہ پھر سوائے وی آئ پی کے سب مہمان غیر اہم اور ثانوی ہوجاتے ہیں جو سماجی اور زاتی تقاریب میں اچھا ہی نہیں لگتا بلکہ سب کی حفظ مراتب کی ترتیب بدل جاتی ہے کیونکہ ایسی تقاریب میں سب برابر ہوتے ہیں لیکن وی آئ پیز کی وجہ سے توجہ ان پر مرکوز ہوجاتی ہے - وہ بہت خوش ہوئے-
مین 1991 سے 2010 تک مختلف بڑے ریاستی سرکاری عہدوں پر فائز رہا اور اس عرصہ کے دوران میرے پانچ بچے بچیوں کی شادی ہوئ ، سیاست دانوں اور بڑے قد و کاٹھ کے سیاست دانوں سے تعلقات کے باوجود مین نے کبھی کسی ایسی شخصیت کو دعوت نہین دی جس کے میرے ساتھ گھریلو تعلقات اور آنا جانا نہ رہا ہو- - ہاں ا پنے ہم عصر اور ہم منصب لوگوں کو ضرور مدعو کیا اور قریبی اور بعیدی رشتہ داروں میں سے کسی کو نظر انداز نہین کیا کیونکہ وہ دکھ درد اور ہمہ وقتی ساتھ رہنے والے ہوتے ہیں اور شادی بیاہ کے نادر موقعے ہی ہوتے جب سب کو اکھٹے ہونے کا موقعہ ملتا ہے -
اس زمانے کے لوگ ایسے شودے بھی نہیں تھے -
یقین مانیں کہ ہمارے ایک چیف جسٹس مر حوم سید محمد خان اور ان کی بیگم کو ایک بیٹی کی شادی پہ مدعو کیا وہ تشریف لائے اور فارغ ہوکر میرے بیٹے کو کہا کہ ان کے گھر سے ڈرائیور کو بلائے کہ ان کو لینے آجائے جو انہوں نے واپس بھیج دیا تھا - میں نے ناراضگی میں کہا آپ کو ایسا نہیں کرنا چاھئے تھا دو نوالے کھا جاتا - ان کا جواب تھا اس کو دعوت تو نہیں تھی نا کیوں آپ کے سر چڑھاتا - زرا ہم اپنے بغل میں منہ ڈالیں، جج کیا انسان کہلانے میں شرم آتی ہے - کچھ باتیں تو میں نے اپنی آٹو بائیو گرافی مییں لکھی ہیں اگر میں اور گہرائ میں جاؤں تو کچھ لوگو کی انتہائ چھوٹی باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ تنہائ میں بھی شرمساری ہوتی ہے - دل کرتا ہے کہ مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کی طرح لکھ کر وصیت کر جاؤں کہ میرے مرنے کے تیس سال بعد چھپوائ جائیں -
ان وی آئ پیز کو شادی بیاہ میں دعوت نہ دینے کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی کہ ان مین سے اکثر شخصیات کے ساتھ پولیس سکاٹ ، ان کے زاتی ملازم ، طفیلی اور لاؤ لشکر ہوتا ہے جن کے ساتھ دعوت دینے والے کا کوئ لینا دینا نہیں ہوتا - ڈرائیور کی حد تک تو گنجائش رکھی جاتی ہے لیکن جو پولیس اسکاٹ، ٹریفک پولیس ، باڈی گاردز اور اب انٹی Terrorist سکاٹ بھی ساتھ ہوتے ہیں جو وی آئ پی کا جعلی تاثر اور عام آدمی کے لئے انتہائ کوفت اور ازیت کا باعث ہوتا - پھر ان کے لئے انتطار کرنا پڑتا ہے جو اپنی جھوٹھی سچی شان اور دبدبہ دکھانے کے لئے اس لئے بہت دیر سے آتے ہین کہ جب وہ مجلس مین شامل ہون تو سب لوگ اتھ کے ان کی مجبورآ تعظیم کرین تاکہ لوگوں کو احساس ہو کہ کوئ بڑی شخصیت آگئ ہے تاکہ اس کی جعلی انا کی تسکین ہوجائے -
اب تو علمی ادبی محفلوں ، مسجدوں ، عید گاہوں ، کالجوں، یو نیی ورسٹی کی تقاریب میں بھی اگر یہ وی آئ پی شامل ہو نے کو آئیں تو پولیس سکوارڈ ، ٹریفک پولیس ، Anti terrorist squad ساتھ بھی شامل ہوتے ہیں جو فنکشن میں دندناتے ہیں - یہ اگر جان کے خطرے کے لئے رکھتے ہیں تو لوگوں کے انبوہ میں جایا ہی نہ کریں - اگر زاتی، نجی ، سماجی ادبی ، دینی ، مذہبی تقریبات ، جنازوں میں جاتے ہیں تو زاتی حیثیت میں جائیں اس میں ان کے منصب کا کیا تعلق ہے - وی آئ پی بننے سے ایک گھنٹہ پہلے اور اس عہدے سے سبکدوش ہونے کے ایک گھنٹہ بعد ان کے ساتھ کوئ نہیں ہوتا ، اس وقت تو جان کو خطرح نہیں سمجھتے اور نہ عام لوگوں کی طرح جانے پہچانے لوگوں میں گل مل جانے میں کوئ مشکل ، قباحت یا دشواری محسوس کرتے ہیں -
میں نے دو تین سال پہلے ایک کالم میں لکھا تھا کہ آ زاد کشمیر کے چھوٹے چھوٹے شہروں اور سڑکوں میں وی آئ پیز کی بہتات نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہی ہے کہ ہر گلی محلے اور سڑک میں وزیر اعظم ، صدر ، وزیروں ، ججوں ، بڑے پولیس اور انتظامی افسروں کے پولیس سکواڈ کے ہارنوں کے ہا ہو کار نے Noise pollution پیدا کر دیا ہے جو عام مجموعی ٹریفک کو بھی روک دیتے ہیں - یہ کالم اسمبلی کے اجلاس میں بھی زیر بحث آیا - سب نے داد و تحسین دی لیکن جھوٹی انا پھر بھی قائم رہی -
میں زاتی طور لگ بھگ بیس سال ایسے عہدوں پر رہا جس کے گھر اور گاڑی پر فلیگ لہرانے کی قانونی اجازت اور استحقاق ہےاور مومنٹ میں پولیس سکوارڈ کا بھی استحقاق ہے - گھر پہ تو کبھی ایسا نہیں کیا بلکہ موجود گارڈ کو محلے کے اندر وردی پہننے سے بھی منع کر رکھا تھا - سوائے قومی شاھراہ اور کسی ریاستی تقریب کے کبھی گاڑی پر فلیگ یا سکوارڈ استعمال نہیں کیا - میرے اس زمانے کے کولیگ اور ممکن ہے کچھ وکلاء حضرات کو یاد ہو - بلکہ اس زمانے کے کو لیگ بھی ایسا ہی کرتے تھے - صفات زاتی ہوتی ہیں منصب عارضی ہوتا ہے - قومی شاھراہ یا دور دراز سفر کی صورت میں پولیس کنٹرول روم کو اطلاع کرتے تھے جو تھانہ بہ تھانہ یا ضلع بہ ضلع اطلاع دیتے تھے ، متعلقہ تھانہ کی پولیس گاڑی اگلے تھانے تک پہنچا دیتی تھی ، مستقل لاؤلشکر کبھی کسی کے ساتھ نہیں ہوتا تھا - اب تو کوئ وی آئ پی ہسپتال یا کسی عام تقریب میں بھی جانا ہو تو پولیس کا جھمگٹھا ساتھ ہوتا ہے -
میں نے کل ہی سوشل میڈیا پہ لاھور ہائ کورٹ کے ایک جج حاحب کے بیٹے لئے سیکریٹری خارجہ کے نام رجسٹرار ہائ کورٹ کا خط دیکھا کہ جج صاحب کے فرزند ارجمند Emarets کی کسی فلائیٹ کے زریعہ نیو یارک جارہے ہیں ان کے لئے لاھور (یا اسلام آباد) سے دوہا، نیو یارک اور وہاں سے واپسی کی تاریخوں پر پر و ٹو کول کا بند بست کیا جائے - یہ سب کچھ یقینآ دماغ کا خلل ، بر تری ، کمتری یا کسی احساس محرومی کی علامت ہے -
یہ بدعت اگر کوئ چھوڑ نہیں سکتا تو نجی ، زاتی ، سوشل ، علمی ادبی، مذہبی یا کسی تہوار پر دوستوں رشتہ داروں ، تعلقداروں ، ہم منصبوں کے ،
اور سیاست دانوں ، حکمرانوں یا سوڈو وی آئ پیز جو پولیس گارڈز ، ورکرز ، پرائیویٹ سیکریٹریز کو ساتھ رکھنا نا گزیر سمجھتے ہوں تو ان کے لئے الگ الگ دعوتوں کا اھتمام کیا کریں تاکہ ہر مہمان کی عزت وقار کا اھتمام اس طرح کیا جائے کہ کسی کے حفظ مراتبہ میں کوئ آنچ نہ آئے - اخلاقی قدروں کو ترویج دینا ہماری تہذیبی ، ثقافتی اور مذہبی زمہ داری بھی ہے اس کا ادراک اور پاسداری ضرور کریں -
واپس کریں