دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یوم آزادی اور قیام پاکستان کا دن مبارک ہو
منظور حسین گیلانی
منظور حسین گیلانی
جسٹس ( ر) سید منظور حسین گیلانی

آج 14 اگست کے دن ہم 1947 میں بر صغیر ہندوستان کی انگریز استبداد سے آزادی اور پاکستان کے قیام کے دن کی خوشی منا رہے ہیں -یہ صرف کیلنڈر کی تاریخ نہیں بلکہ اس کشمکش ، ان خوابوں کی تعبیر اور ان کے حصول کے لئے دی گئ قربانیوں کے ثبوت کا دن ہے جو بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے ایسا ملک حاصل کرنے اور بنانے کے لئے دیں جس کے اندر رہ کے ہم اپنی اعلیٰ اقدار اور روایات کے مطابق زندگی گذار سکیں - گوکہ قانونی اور عملی آزادی کا دن 15 اگست 1947 ہے لیکن پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں اس کا اعلان آج ہی کی تاریخ کو کیا گیا تھا اس لئے ہم 14 اگست کو ہی آزادی کے دن کے طور مناتے ہیں اور اپنی نسلوں کو یہی باور کرایا ہے کہ پاکستان 14 اگست بروز لیلتہ القدر وجود میں آیا ہے حلانکہ ہندوستان کی آزادی اور اس کے دو حصوں میں تقسیم ایکٹ 1947 کے مطابق بیک وقت 15 اگست کو وجود میں آئے - ہم اس میں معجزے تلاش کرتے ہوئے آدھا ملک گنوا بیٹھے حالانکہ معجزے صرف پیغمبروں کا حصہ ہیں ، ہماری زمہ داری محنت اور حکمت ہے جو ہم میں نہیں آ سکی - گوکہ نہ قائید اعظم کی تصور کا ملک ان کو مل سکا اور جو ملا وہ ہماری غلطیوں سے قائم بھی نہ رہ سکا ، نہ اس کے بنایے ہوئے جغرافیائ حدود والا پاکستان ہم سنبھال سکے ، اور نہ ہی ان خوابوں کی تکمیل کے طور پاکستان کا نظام چلا سکے ، لیکن اس نام اور موجودہ پاکستان کو گونا گون مسائل کے باوجود ہم بچا بھی سکے اور محفوظ بھی کر سکے - اس کے لئے قوم مبارک باد کی مستحق ہے- اسی طرح مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو بھی ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے بننے کو نہ روک سکے اور نہ ہی اسوقت ہندوستان گاندھی اور نہرو کا سیکولر ہندوستان بن سکا - یہ سب تاریخ کا جبر ہے -

آج جبکہ ہم ایک آزاد ملک میں آزادی کا جشن منا رہے ہیں ، ہمیں اس ملک کے خالقین اور ان ہیروز کی قربانیوں کو نہیں بھو لنا چاھئے جو انہوں نے آزاد ی کے سفر میں دی ہیں - یہ آزاد ی کا سفر کوئ آسان سفر نہیں تھا - یہ خون و پسینے اور لاکھوں لوگوں کی قربانیاں پر محیط ہے - اس راہ میں ہزاروں گمنام اور درجنوں نا مور لوگ قربان ہوئے، عزتیں ، عصمتیں اور عظمتیں لٹی ہیں - جس کا پھل ہم کھا رہے ہیں - ہمیں اپنی نسلوں کے لئے اس کو استوار کرنا ہے کہ وہ اس کا پھل بھی کھائیں اور نسل در نسل اس کو مظبوط اور خوشحال بنانے کی کوشش میں بطور زمہ داری مگن رہیں جس طرح قائید اعظم کی قیادت میں اس وقت کی قوم مستعد تھی -
پاکستان کا قیام کوئ سیاسی عمل ہی نہیں تھا بلکہ جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی شان رفتہ کی بحالی اور اس کے تشخص کے احیائے نو کا ادراک اور حصول تھا - اس تشخص کی بحالی کے عظیم کرداروں کو اس کا ادراک تھا کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے مذہب، تہذیب ، اور شناخت ایک آزاد ملک میں ہی پروان چڑھ سکتی ہے - اس سوچ کے پس منظر میں دہائیوں پر محیط لاکھوں لوگوں قربانیوں اور ہمت سے یہ دن دیکھنا نصیب ہورہا ہے -

افسوس کا مقام ہے کہ ستہتر سال گذرنے کے باوجود ہم وحدت اور ہم آہنگی پیدا نہیں کر سکے جو قوم بنانے کے لئے ناگزیر ہے -ہم علاقوں، برادریوں، قبیلوں میں بٹے ہیں - ہم سب ایک متفقہ آئین ہونے پر فخر کرتے ہیں لیکن اس کی روح کے مطابق عمل نہ کرنے پر شرمندہ نہیں ہیں - ہم آخری الہامی دین کے حامل اور منفرد قوم ہونے پر اتنے نازان ہیں کہ جیسے یہ دین 1947 میں صرف پاکستان میں اور پاکستان کی خاطر ہی نازل ہوا ہے اور دنیا میں اسلام یہیں سے گیا ہے - اس کے باوجود اس قومی تشخص کے بجائے علاقائ اکائیوں کے طور زندہ ہیں - ہم سیاسی ، اقتصادی ، اور قومی سلامتی کے مسائل سے دوچار ہیں - قدرت ہمیں بار بار ان بحرانوں پر قابو پانے کا موقع ضرور دیتی ر ہی لیکن ہم عدم برداشت کا شکار ہونے کی وجہ سے اس کو ضائع کر تے رہے - ضروری نہیں کہ اس بے تدبیری قوم کو قدرت ہر بار یہ موقع دے -
فِطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
‎کبھی کرتی نہیں ملّت کے گُناہوں کو معاف

اس ہجوم کو قوم بنانے کے لئے ہماری نظریں ہمارے لیڈروں اور مفکرین پر لگی ہیں - ان کی طرف دیکھتی ہیں اور ان سے رہنمائ چاھتی ہے - ہمیں بکھرنے سے بچائیں ، ہمیں ایک قوم بنائیں جس کا دنیا میں کوئ مقام ہو ، بڑی قوموں کے حامل ہونے کا نام ہو - ہمارا پاسپورٹ کے حساب سے دنیا کے 195 ملکوں میں سے 107 نمبر پر ہے - اس کا حل شہباز شریف اور زرداری صاحب کو حکومت سے یا عمران خان کو جیل سے نکالنا نہیں - اس کا حل ملک کو سیاسی، اقتصادی ، دفاعی ، سفارتی طور مضبوط کرنا ہے - ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہے - ہمسائیوں کے ساتھ صلح جوئ سے رہنا اور آپسی مسائل کا حل اپنے اور ہمسائیوں کے تحفظات کو سامنے رکھ کر زمینی حقائق کے مطابق نکالنا ہے -

یہ تو میں نے مملکت خدا د پاکستان کے حوالے سے بات کی جو ہماری تمنا بھی ہے اور منزل مقصود بھی اور ہم اس ملک اور قوم کے حصے کے طور رہ رہے ہیں ، لیکن اس ملک کے آئین کے مطابق نہ ہم اس کا حصہ ہیں نہ شہری حالانکہ سال 1932 سے کشمیری مسلمانوں کی نمائیندہ جماعت مسلم کانفرنس نے 19 جولائ سال 1947 کو ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے تحریری قرارداد پاس کی جبکہ پاکستان کے دوسرے علاقوں نے اگست سال 1947 کے بعد یہ فیصلہ کیا - آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے با سیوں نے ریاست کے یہ حصے اس وقت آزاد کراکر 24 اکتوبر ‘47 کو پاکستان کے حوالے کئے جب ہندوستان کے مہاراجہ نے ریاست کا الحاق آئین ، قوانین اور سفارت کے تمام اصولوں کے خلاف 26 اکتوبر کو کیا جب یہ علاقے اس کی حاکمیت اور اس ریاست کا حصہ نہیں رہے تھے جو 15 اگست والے دن تھی جب بر طانیہ کے ریاستی مہاراجوں کے ساتھ سارے معاہدے ختم ہوگئے تھے اور لوگ اس جبر سے آزاد ہو گئے تھے- - گلگت بلتستان کے راجوں اور ملکوں نے تحریری الحاق ناموں کے زریعہ پاکستان سے الحاق کیا ، ہم نے اپریل 1949 کو کراچی معاہدہ کے تحت گلگت بلتستان کو براہ راست پاکستان کی مملکت کے حوالے کیا اور امور دفاع، امور خارجہ ، امور مواصلات ، کرنسی کے علاوہ پاکستانی بیروکریسی کی کلیدی اسامیوں کو پاکستان کے حوالے کر دیا ، ہم نے جہاد چھوڑ کر سلامتی کونسل کے کمیشن کے تحت سال 1949 میں جنگ بندی CFL قبول کر کے اپنی صلاحیتوں کو مسدود کردیا ، سملہ معاہدہ کے تحت CFL کو لائین آف کنٹرول کو بھی قبول کر لیا ، پاکستان کی طرف سے سال 1950 سے سال 1974 کی آئینی دستاویزات کے تحت پاکستان کے آئین کے تحت پاکستان کا حصہ ہوئے بغیر سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے بھی برعکس “ پاکستان سے الحاق کا حلف بھی قبول کر لیا “ ، مقبوضہ کشمیر کے ہمارے لاکھوں جگر گوشوں نے پاکستان کے نام پر لاکھوں جانیں قربان کیں اور آج بھی کررہے ہیں ، ہندوستان کی حکومت نے اپنے آئین کے تحت ہماری ریاست کی حثیت ، تشخص اور وحدت کو بھی ختم کردیا جس کے خلاف سخت ترین مذاہمت کے بجائے پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی مدد الفاظ بدل کے “ کشمیر ہائ وے کا نام سرینگر ہائ وے، مقبوضہ کشمیر کو “ IIOJ&K یعنی غیر قانونی طور پر ہندوستان زیر قبضہ جموں و کشمیر اپنے نقشے میں شامل کر کیا لیا ، جیسے کہ “ مقبوضہ حصہ غیر قانونی کے علاوہ قانونی بھی ہو سکتا ہے -

آزاد کشمیر کے حکومت نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ جس کو الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ کونسل لسٹ کہا جاتا ہے ، کے اختیارات براہ راست حکومت پاکستان کو دے دیے، ہم سال 1947 کے بعد سے قانونی طور پر پاکستان میں آباد ہونے والے مہاجرین کشمیری باشندوں کے حق میں اپنے علاقے اور اپنے حصے کا پچیس فیصد سر کاری ملاز متیں اور 1/3 حصہ قانون سازی اور حکومت سازی ان کے حق میں سرنڈر کررہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود نہ ہم آئینی طور پاکستانی ہیں ، نہ پاکستان کا حصہ ہیں - نہ ہم ان امور کی پالیسی سازی ، فیصلہ سازی، قانون سازی اور حکومت سازی کا حصہ ہیں جو ہمیں باقی پاکستانی صوبوں کی طرح ہی متاثر کرتا ہے - جبکہ کیبنٹ ڈویژن کے دو نو ٹیفکیشنز کے تحت “ آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ تو نہیں لیکن اس کو چلایا صوبے کی طرح جائیگا “- جس کا مطلب ہماری جواب دہی صوبے کے طور ہے لیکن حقوق و اختیار وہ نہیں ہونگے ، کیونکہ یہ متنازعہ علاقہ ہے - اس سے زیادہ بری حالت گلگت بلتستان کی ہے - ہمارا کیا قصور ہے کہ ہمہیں مشروط یا غیر مشروطور پاکستان اور پاکستانی نہیں بنایا جاتا جبکہ آزاد کشمیر کے حصے سے 1/4 سرکاری نوکریوں سے اور 1/3 قانون سازیہ اور مقننہ سے لینے کے علاوہ وہی بھائ پاکستان کے قانوں کے تحت پاکستانی شہری اور با شندے ہیں ، لیکن ہم نہیں - اس کوٹے کے سے پیدا ہونے والی نا انصافیاں بنگلہ دیش کی حکومت اور ان کے اداروں کو لے ڈوبی ہیں - ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاھئیں-

ہندوستان نے کشمیر پر مسلمان مجاہد ین کی فتوحات کو لیکر خود سلامتی کونسل میں مداخلت کی اپیل کی ، اس کی قراردادوں کو اس وقت تک مانتا رہا جب تک پوری ریاست کو اپنے آئین کے تحت اپنا حصہ اور صوبہ بنایا ، سملہ معاہدہ کے تحت اس پر بات چیت کے لئے بھی اتفاق کیا لیکن اپنے معاملات کی سمت درست کر کے اپنے آئین کے تحت اس کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اس کی سالمیت ، جغرافیائ وحدت ، بین الاقوامی اور مقامی شناخت ، تشخص اور مقامی حقوق بھی ختم کردئے - آپ کی سوئی ابھی تک “ متنازعہ “ میں اٹکی ہوئ ہے - اس پر حیرانگی اور ستم ظریفی یہ ہے کہ سینٹ کی کمیٹی برائے کشمیر نے کہا کہ گلگت بلتستان کو کشمیر سے الگ کریں وہ کشمیر کا حصہ نہیں - کیا یہ بات تاریخ سے لا علمی ہے یا ہم سے ویسے ہی بے زار ہیں جیسے مشرقی پاکستان سے ہوئے تھے ؟ حوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے - اس سے تو ہم اور ہمارے حقوق متاثر ہو ہی رہے ہیں ، لیکن پاکستان کی ریاست کی سالمیت اور حاکمیت اس سے بھی زیادہ متاثر ہورہی ہے کہ اس کے اپنے آئین کے تحت اس کا ان علاقوں پر کوئ آئینی استحقاق نہیں ہے جس خلاء کو ہندوستان کی پارلیمنٹ، اس کا آئین اور اس کی حکومت پر کرنے کی دعویدار ہے ، کیونکہ خلاء ہمیشہ کسی نہ کسی طریقہ سے پر ہوجاتا ہےوہ خلاء نہیں رہتا - اس وقت یہ خلاء میری نسل کی عمر کے لوگوں نے پر کیا ہے ، دوسری اور تیسری نسل کے لوگوں کے موڈ کو 12/13 مارچ 2024 کے عوامی حقوق مارچ کی تحریک میں دنیا نے دیکھا - قومیں غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں ، لیکن ہم وہی غلطیاں دہرا کر مختلف نتائج کی امید رکھتے ہیں - اس کو آئینسٹائین نے Madness کہا تھا-

جموں و کشمیر 1846 میں یقینآ ایک جبر اور سازش کے تحت ایک معاہدے کی رو سے ریاست اور ملک کے طور وجود میں آئ جس کے سال 1947 میں اسی طرح حسے بخرے ہوگئے جس طرح وجود میں آئ تھی لیکن وادی کشمیر اسی طرح ہندوستان کے خلاف مزاہم ہے جس طرح مغلوں کے زمانے سے ڈوگرہ کے زمانے تک خلاف تھی - اس پر ہندوستان اپنی ہزاروں سالہ پرانی تہزیب کی بناء پر دعویدار ہے جس طرح مسلمان گیارہ سو سال سے مسلم سلاطین کی حیثیت سے ہے - اس میں سے بھی مغلوں، افغانیوں، سکھوں اور ڈوگروں کے زمانے کو منہا کر دیں - اس کی جڑیں تاریخ کے جذبات میں ڈوبی ہیں جس کا حل یقینآ ہوگا لیکن زمینی حقائق کے مطابق باہمی گفت شنید سے ہی ہو سکتا ہے , سب کو اعتماد میں لیکر ، کسی کی مرضی کے مطابق یا اس کے بر عکس لیکن کسی کو نظر انداز کر کے نہیں - اس کی زمہ داری پاکستان پر ہے ، کشمیری اپنا کردار بھر پور ادا کررہے ہیں - لیکن آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان ، جموں اور لداخ کے لوگوں کا طرز عمل اور غالب رجحان واضع ہے ، یہی سلامتی کونسل کے نمائندوں سمیت دنیا کے تیس سے زیادہ مفکرین اور تھنک ٹینکس کی رائے ہے - اس حقیقت کو تسلیم کر کے ہندوستان و پاکستان آگے بڑھیں - معاملہ حتمی ہونے تک پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کو پاکستانی آئین کے تحت خصوصی چیپٹر کے زریعہ وہ مقام دیں اور خود بھی اپنے مقام اور حیثیت کا تئعین کریں جو پاکستان کے دیگر انتظامی یو نٹس کا ہے جس کی سمت آزاد کشمیر کے آئین کی تیرویں ترمیم سے تعیین کی جا سکتی ہے- ایک بار پھر اپنے پاکستانی اور پاکستان سے محبت کرنے والے بھائیوں کو یوم قیام اور آزادی پاکستان کا دن مبار ک ہو -
واپس کریں