جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
ادراک ۔ جسٹس ( ر) سید منظور حسین گیلانی
ریاست کشمیر میں 13 کا ہندسہ خونی تاریخ سے عبارت ہوگیا ہے - پہلا واقعہ 13 جولائ 1931 کو رونما ہوا جب سرینگر کی سنٹرل جیل میں نہتے لوگوں پر سرکاری فورس نے گولیاں چلا کر 22 لوگوں کو شہید کردیا جبکہ دوسرا افسوس ناک واقعہ 13 مئی کو مظفر آباد میں وقوع پذیر ہوا جہاں تین نہتے لوگ سرکاری فورسز نے گولیوں کا نشانہ بناکے شہید کر دئے - فرق صرف اتنا ہے کہ سنٹرل جیل میں گولیاں چلانے والے عوام دشمن فوج کے سپاہی تھے جبکہ مظفر آباد میں اپنے ملک کے سپاہیوں نے اپنے ناراض شہریوں کو اپنی ریاست سے مطالبات کرنے کے دوران بھون ڈالا - یہ انتہائ افسوس ناک اور قابل مذمت عمل ہے - پتھر کا جواب پتھر سے ہو سکتا ہے گولی سے نہیں - یہ حدود سے تجاوز ہے - یہ عمل دانستہ تھا یا نادانستہ ہے ، تحقیق طلب امر ہے لیکن اس کی زمہ داری یقینآ گولی چلانے والوں اور حکم دینے والوں پر عائید ہوتی ہے - یہ ہر جمہوری ملک میں ایک مسلمہ اصول ہے - رینجرز اسی دن کس کے حکم سے اور کیوں بلائے گئے ، ان کی destination کیا تھی اور انہوں نے گولی کس کے حکم کے تحت چلائ ؟ اس کا تئعین کیا جانا نا گزیر ہے ، شتر مرغ بننے سے کام نہیں چلے گا -
ریاست جموں کشمیر کے آزاد علاقے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت خصوصی اہمیت کے حامل ہیں جس کے لئے ہندوستان کی طرح پاکستان بھی سلامتی کونسل کے پاس جواب دہ ہے- حکومت پاکستان کو اس زمہ داری کا ادراک کرنا چاھئے - سلامتی خود اور ہندوستان اور پاکستان میں سے کوئ بھی ملک وہاں سوال پیدا کر سکتا ہے - اس کے لئے آئینی طور Structural reforms کی ضرورت ہے - ہندوستان کے مئ 2019 اور اس کے بعد ان کی حکومت کے ہر ایرے غیرے کے جنگی جنون والے بیانات کو نظر انداز نہیں کرنا چاھئے - اس کی نوبت کیوں آئ ؟ ، یہ صرف ایک سال کی بات نہیں بلکہ منگلہ ڈیم سے نیلم جہلم ہائیڈل پروجیکٹ اور جہلم ہائیڈل ( زیر تکمیل ) پراجیک تک پھیلی ہے - ان پراجیکٹس سے پیدا ہونے والی بجلی کا وافر حصہ پیداواری لاگت پر اور ان سے حاصل کئے جانے والا منافع یہاں کے لوگوں کو فراہم کرنے کا تقاضا شروع سے چلا آرہا تھا - یہ مطالبہ رینگتا چلا آرہا تھا جب آزاد کشمیر میں آٹے کی قلعت اور آسمان کو چھونے والی قیمتوں نے ان دو مطالبوں کو ریاست گیر تحریک کی صورت دے دی جس کے لئے ریاستی سطح پر غیر سیاسی تنظیم تاجر جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور حکومتی کمیٹی کے درمیان 19 دسمبر 2023 کو دو ہفتے میں حتمی کرنے پر اتفاق ہوا لیکن حکومت اس پر بر وقت عمل نہ کر سکی اس پر ریاست گیر شٹر ڈاؤن اور پیہہ جام کی ہڑ تال کا فیصلہ ہوا جو گیارہ مئی کو ہونا تھی لیکن یہ ڈو دیال میں ایک ناخوشگوار واقع کی وجہ سے 10 مئی سے شروع ہوئ جس کا مقصد ریاست بھر سے مارچ کرتے ہوئے لوگ مطالبات منوانے کے لئے مظفر آباد اسمبلی کا گھیراؤ کریں گے - اس دوران بھی چکسواری میں ایک سب انسپکٹر کو گولی مار کے شہید کرنے کا واقعہ پیش آیا - اس نے صورت حال کو گھمبیر بنادیا -
کچھ لوگوں کا یہ خیال کہ اس تحریک کے پیچھے ہندوستان کا ہاتھ تھا، بلکل لغو بے بنیاد اور بھونڈا الزام ہے - آزاد کشمیر کے لوگوں کی ہندوستان کوئ آپشن نہیں ، خود مختاری کی ضرور ہے - تاہم ہندوستان نے اس کا بھر پور فائیدہ اٹھایا جس کی زمہ داری پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کے ان زمہ داروں پہ عائید ہوتی ہے جنہوں اس اور اس سے جڑے مسائل پر بر وقت دھیان نہیں دیا - کم از کم ہائ کورٹ کے فیصلے کے بعد اس پر عدم توجہی غفلت مجرمانہ سے کم نہیں - ہندوستان اور پاکستان کو اپنی نالائقی کا ملبہ دوسرے پہ ڈالنے کی عادت ہے - بیرون ملک آباد ریاستی باشندوں کی ہمدردیاں کمیٹی کی ساتھ ضرور تھیں جیسے یہاں کی غالب اکثریت کی ہیں - ممکن ہے کچھ لوگوں نے مدد بھی کی ہو ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں سے کوئ ہندوستانی ایجنڈا پہ ہے - آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حیثیت دیسی زبان میں شاملات جیسی ہے، جو اس کو آباد رکھے گا اسی کے سمجھے جائینگے - بدلتی دنیا میں ان حقائق سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی -
اس سب کا افسو ناک پہلو یہ تھا کہ مقامی حکومت کے کسی وزیر ، اسمبلی کے ممبر یا قابل زکر لیڈر نے اس کو خاطر میں نہیں لایا ، حتی کہ اسلام آباد کی مرکزی حکومت کو مداخلت کرنا پڑی جس نے آٹے کے فی من پر گیارہ صد سبسڈی اور بجلی کی پیداواری لاگت پر فراہمی کے لئے آزاد کشمیر حکومت کو 23 ارب روپے کا پیکیج دیا جو وزیر اعظم آزاد کشمیر کے بیان کے مطابق آزاد کشمیر بجٹ کا مستقل حصہ ہوگا - حکومت پاکستان کے دباؤ پر آزاد کشمیر حکومت نے اس سلسلے میں با ضابطہ نو ٹیفکیشن جاری کر کے اس کو قانونی صورت بھی دے دی - عوامی ایکشن کمیٹی کے ایک اور جائز مطالبہ کو بھی آزاد کشمیر حکومت نے منظور کرتے ہوئے اشرافیہ کی مراعات کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیشن قائم کرنے کی منظوری بھی دی - اس کے لئے ایک آسان سا فارمولہ یہ ہے آزاد کشمیر کے کسی بھی مرتبے کے حامل شخص یا اتھارٹی کو پاکستان کے کسی بھی صوبے یا مرکز میں اس کے ہم پلہ اور ہم مرتبہ شخص یا اتھارٹی سے مماثلت قائم کرنا پڑے گی - ان سے زیادہ یا کم کوئ مراعت نہ دی جائے - آزاد کشمیر کے ہر ادارے کا سٹرکچر اس کی اپنی آبادی اور وسائل کے مطابق تشکیل دیا جائے - اس کے لئے بھی قانون سازی چاھئے - کسی انہونی بات پر اڑے رہنے یا تقاضا کرنے سے پاکستان کے کسی دیگر حصے میں عدم توازن پیدا نہیں ہونا چاھئے، اس کا ہم پر برا اثر مرتب ہوگا -
یہ ایک نادر موقعہ قدرت نے فراہم کیا ہے اس سے اصلاحات کا آغاز کیا جائے - میں اسی عوامی ایکشن کمیٹی کو اس نیک کام کو جاری رکھنے کے لئے مشورہ دوں گا جو سیاست سے بالا تر ہوکر یہ سارے نیک کام انجام دیں - سیاست دان سیاسی خاندانوں کے غلام ہوگئے ہیں اور سیاست روز گار کا ایک زریعہ بن گیا ہے - اس کے لئے بے لوث اخلاقی خدمت کی ضرورت ہے - یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں - کم از کم ہائیڈل پراجیکٹس کے لئے structural reforms چاھئیں - پاکستانی آئین کے تحت تو یہ آئین کا حصہ ہے جس کا اطلاق پاکستانی صوبوں کی حد تک محدود ہے - آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے صوبے نہیں ہیں ، سپیشل علاقے ہیں ان کے لئے سپیشل آئینی ارینجمبٹ ہونی چاھئے اور یہ ارینجمنٹ پاکستان کے آئین کے تحت ہونی چاھئے جس کی گارنٹی پاکستانی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹری اور آئینی ادارے ہونگے - پاکستانی بیرو کریسی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہائیڈل پرو جیکٹ لگانے سے پہلے نہ تو مقامی حکومتوں سے معاہدہ کرتی نہ ہی مقامی حکومتوں میں کروانے کی جان ہے - بجلی کی پیداوار کی ترسیل ، سیلز ٹیکس اور نہ ہی اس پر کمائے گئے منافع کا حساب اور ادائیگی کا معاہدہ ہوتا ہے - 13 مئ والے معاملات ان ہی غیر زمہ داریوں اور آمرانہ روئیوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں - ان سے سبق سیکھنے اور اصلاح کرنے کی ضرورت ہے -
گوکہ اپنے وعدے پر عمل کرنا حکومت کی زمہ داری تھی جو ایسا کرنے میں ناکام رہی ، جبکہ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک پر حکومت پاکستان کی مداخلت سے یہ مطالبات منوانا کمیٹی کی بہت بڑی فتح اور عوام کی بہت بڑی خدمت ہے جس کا فائیدہ ہر عام و خاص کو ملے گا - کمیٹی کا ہر ہر رکن انفرادی اور اجتماعی طور پر امن تحریک چلانے اور اس کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لئے داد و تحسین کا مستحق ہے - اب اس کامیابی کے دعویدار سب بنیں گے ، اگر ناکام ہوتے تو ملبہ کمیٹی پر گرتا - جہاں تک آٹے پر سبسڈی دینے کا سوال ہے یہ ٹارگٹڈ ہونا چاھئے - اس کا اطلاق غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کو ملنا چاھئے جن کی آمدن ایک مقررہ رقم سے کم ہو - اس کے لئے یقینآ حکومت کے پاس اعداد شمار ہونگے ، اگر نہیں تو جمع کر کے ان کے نام راشن کارڈ جاری کرنا چاھئے تاکہ صرف مستحق لوگ اس سے مستفید ہوں - یہ سبسڈی آٹا ملوں کو نہیں ملنا چاھئے - آسودہ حال لوگ تو بازار سے چکی اور زیادہ آسودہ حال whole grain یا Multi grain آٹا استعمال کرتے ہیں ، مل کا نہیں -
آزاد کشمیر حکومت نے اپنے بجٹ سے دس ارب روپے بچا کے بیواؤں، ناداروں ، یتیموں کے لئے ایک Endowment فنڈ بنانے کا جائز طور کریڈٹ لے رہی ہے لیکن یہ بھی ایک مدت کے لئے اور ٹارگٹڈ Targeted ہونا چاھئے جب تک وہ مستحق شخص اپنے پاؤں پہ کھڑا نہیں ہوجاتی جس کو اس کی حیثیت کے مطابق اپنی محنت سے روز گار مہیا کرنے کا وسیلہ نہیں بن جاتا - یہ ہر کیس میں مختلف ہو سکتا ہے لیکن اس طرح بھکاری بننے کا سلسلہ نہیں بلکہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی بیساکھی ثابت بننا چاھئے - یہی صورت حال دیگر مالی معاونت کے فنڈز کی بھی ہے - حکومت ان لوگوں کو گھریلو دست کاری کی طرف راغب کر سکتی ہے جو ہر شخص بہ آسانی کر سکتا ہے -
واپس کریں