دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بنگلہ دیش اور آزاد کشمیر کے باسی ، کوٹے کے مارے لوگ
منظور حسین گیلانی
منظور حسین گیلانی
جسٹس (ر) سید منظور حسین گیلانی

بنگلہ دیش میں گزشتہ کئ دنوں سے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی لڑنے والوں کے لئے ملازمتوں میں تیس فیصد کوٹہ کے خلاف ملک گیر مظاہرے چل رہے ہیں - اس کوٹہ کو ہائ کورٹ نے ایک فیصلہ کے زریعہ بحال رکھا تھا جس کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھی - اس دوران اس کو ٹہ کے خلاف خوف ناک مظائرے ٹوٹ پڑے ہیں اور صورت حال کنٹرول سے باہر ہوگئی ہے - مظاہروں میں ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں اور ہزاروں زخمی ہوئے اور ملک بھر میں کر فیو نافذ ہے -- اس دوران سپریم کورٹ نے ہائ کورٹ کا فیصلہ منسوخ کرتے ہوئے کوٹہ کم کر کے سات فیصد کردیا جس میں سے پانچ فیصد ان ویٹرنز veterans کے لئے ہوگا اور دو فیصد پچھڑی زاتوں وغیرہ کو دیا جائیگا - ممکن ہے اب مظاہروں کی شدت کم ہوجائے لیکن پانچ فےصد کوٹہ کی بدعت بحال رکھنے کی کیا جوازیت ہے ؟ برسی کم ہو یا زیادہ ہوتی تو براہ ہی ہے - ملازمتوں میں لو لو ، لنگڑوں اور معزوروں کی دلجوئ اور کار آمد بنانے کے لئے کوٹہ ہونے کے لئے کوئ دلیل تو ہے لیکن باقی کیا جواز ہے؟ - کوٹہ نانصافی اور نالائقی کو پروان چڑھانے ، اقربا پروری اور سیاسی رشوت کو فروغ دینے کا ایک زریعہ ہوتا ہے - یہ نالائقی کو پروان چڑھانے اور میرٹ اور انصاف کا قتل ہوتا ہے - اس کے خلاف شعوری کوشش کرنا ، روکنا اور رکوانہ عظیم مشن ہے ، جس پر بنگلہ دیش کے لوگ سر بہ کفن ہیں -
جنگ آزادی بنگلہ دیش 1971 کا واقعہ ہے جس کو اب 55 سال ہوگئے ہیں - اس عرصہ کے دوران تیسری نسل بھی اوسط عمر مکمل کر گئ ہے - جو آزاد بنگلہ دیش میں معمول کے حالات میں پیدا ہوئ ہے - یہ نہ war veteran ہے نہ ان کی پہلی یا دوسری نسل - پھر ایک جیسے حالات میں پلنے بڑھنے والوں کے لئے تیس فیصد یا بہ الفاظ سپریم کورٹ پانچ فیصد بھی کیوں؟ یہ سوائے سیاسی رشوت اور اقربا پروری کے اور کیا ہو سکتا ہے -؟
-
بنگلہ دیش میں اس خون آشام تحریک کو دیکھ کر مجھے اسی طرح کی ایک بد ترین کلاسیکل مثال آزاد کشمیر میں پچیس فیصد ملازمتوں اور فنی کالجوں میں داخلہ کا کوٹہ “ مہاجرین کشمیر مقیم پاکستان “ کے لئے زہن میں آیا - اب مہاجرین کی چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے - یہ چوتھی نسل کون سی مہاجر ہے ؟ جو ایک settled ملک کے علاقوں میں آباد ، زندگی کی جدید تعلیمی ، صحت اور شہری زندگی سے مستفید ہورہے ہیں - اتنا ہی نہیں ، ریاستی اسمبلی کا 1/3 حصہ مہاجرین مقیم پاکستان کے لئے مختص ہے جن کا آزاد کشمیر کے سرد گرم حالات کے ساتھ کوئ تعلق نہیں جبکہ وہ آزد کشمیر کےبا شندوں کے لئے حکومت بھی بناتے ہیں قانون بھی اور تنخواہ ، مراعات ، سیاسی اثر رسوخ کے علاوہ “ اوپر کی آمدن “ بھی آزاد کشمیر کے قلیل وسائل سے لے جاتے ہیں اور خود اس قانون کے پابند نہیں - یہ کیا ظلم اور ناانصافی ہے جو آزاد کشمیر کے اندر جنوئین رہنے والے بچوں کا قتل اور ظلمُ ہے؟
آزاد کشمیر کے سیاسی لیڈر اپنی سیاسی دال روٹی کی خاطر چپ سادھ بیٹے ہیں جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں - میں نے اس پر کئ بار لکھا اور بولا کیا مجال کسی نے اس پر توجہ دی ہو ، کسی نے اس کا دفاع بھی نہیں کیا- یہ بے حسی کی انتہا ہے ہے یا غیرت کا فقدان اس پر نام نہاد لیڈر خود فیصلہ کر کے اپنے مقام کا تئعین کریں -
عام تاثر یہ ہے کہ یہ شرارت حکومت پاکستان نے پاکستان میں آباد کشمیری مہاجرین کے نام سے اپنے زیر اثر لوگوں کو آزاد کشمیر اسمبلی اور حکومت میں مہاجرین ممبران کے نام سے شامل کر کے مقامی منتخب لوگوں کو یرغمال بنا کے اپنی مرضی کے قوانین اور حکومتی پالسیز بناکر آزاد کشمیر حکومت اور لوگوں کو یر غمال بنا رکھا جائے اور بیروکریسی کی سطح پر کشمیر کونسل اور کشمیر منسٹری کے زریعہ کنٹرول کیا جائے -
آگہی اورحقوق کی بڑھتی ہوئ لہر کے سامنے ایک روز حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومت کو یہاں بنگلہ دیش سے بد تر حالات کا سامنا کرنا پڑے گا ، جبکہ یہ دونوں حکو متیں ماضی قریب میں ریاست گیر لیکن پر امن عوامی مظاہرے کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ایسی شرائط مان گئ ہیں جن کا ملکی انتظامی ، سیاسی اور اقتصادی حالت میں ماننا اگر ناممکن نہیں تھا لیکن مشکل ضرور تھا جس کی باز گشت KPK میں سننی اور غالب ہے کہ ماننی پڑے گی - اور اب حکومت پاکستان کی بھی اس نا انصافی پر IPP کے خلاف بھی حس جاگی ہے-

جس زمانے میں میں ہائ کورٹ کا جج تھا میرے سامنے کوٹہ سسٹم والا صرف ایک کیس آیا تھا جس میں خواتین طالبات نے میڈیکل کالز میں خواتین کا کوٹہ مردوں سے کم رکھنے کو چیلینج کیا تھا - میں نے اس سسٹم کو کالعدم قرار دے کر بلا تفریق میرٹ پر عمل کرنے کا حکم دیا - اب لیڈی ڈاکٹرز بہت زیادہ نہیں تو مردوں سے کم بھی ہیں - افسوس کہ اس نوعیت کا کیس اس زمانے میں میرے پاس نہیں آیا- کسی بھی نا خوشگوار واقع سرزد ہونے سے پہلے آزاد کشمیر کے سیاست دانوں اور لیڈروں ، بلخصوص مرکزی حکومت کو اس پر فورآ توجہ دینا چاھئے - یہ معاملہ اگر سڑکوں کا رخ کر گیا تو یقین مانیں آزاد کشمیر کی سو فیصد آبادی سڑکوں پر ہوگی -

جو لوگ مہاجرین کوٹہ کے نا م پر آزاد کشمیر کی سروس میں آتے ہیں وہ تو ایک مروجہ سکیم کے تحت آتے ہیں - اس میں شک نہیں کہ پبلک سروس کمیشن کے زریعہ جو لوگ آتے ہیں حکومتی عہدوں میں ان کی بھرتی سیاسی وابستگی کی بناء پہ ہی ہوتی ہے ، آزاد کے عام مسائل زدہ لوگوں کا واسط پچیس فی صد اجنبیوں سے پڑتا ہے جن کا سوائے نوکری کے آزاد میں اور یہاں کے لوگوں کے ساتھ کوئ دلچسپی اور لینا دینا نہیں ہوتا - ان کے دن تو گزر جاتے ہیں لیکن ان کی بیزاری کی سزا مقامی لوگوں کو بھگتنی پڑتی ہے - قومیں جب حکو متوں سے بیزار ہوتی ہیں تو سزا ریاست کو بھگتنی پڑتی ہے ، ایسا ہی بنگلہ دیش میں1971 میں پاکستان کو بھگتنا پڑا اور اب بنگلہ دیش خود بھگت رہا ہے - اس کا ارباب اختیار کو ادراک کرنے کی ضرورت ہے - آزاد کشمیر کو یا تو لوکل اتھارٹی کے طور سیاسی اور انتظامی طور مکمل با اختیار بنایا جائے یا مرکز میں وہی مقام ملنا چاھئے جو پاکستان کے دیگر انتظامی یونٹس کا ہے تاکہ سب کا تیرنا ڈوبنا ایک جیسا ہو -

یہ ایک غلط اور مسلط کردہ پالیسی ایشو ہے جس کو مرکزی حکومت نے کشمیر ایشو سے جوڑ کر قانونی رنگ دیا ہے ، آزاد کشمیر کے سیاست دان اور ان کے یرغمال ممبران کی اس کو ختم کرنے کی ہمت نہیں ، گوکہ یہ سب اس سے بیزار اور یہی خیالات رکھتے ہیں جو میرے ہیں ، اس لئے حکومت پاکستان کے پالیسی اور فیصلہ سازوں کو تجربے کی بناء پر میری منصفانہ تجویز یہ ہے کہ ملازمتوں اور فنی کالجوں میں داخلہ کے لئے ہر سطح پر کوٹہ ختم کیا جائے اور سب ریاستی باشندوں کے لئے یکساں موقع فراہم کیا جائے ، تاہم ان میں ترجیح آزاد کشمیر کے رہائشی اور یہاں کے سکولوں، کالجوں ، اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والوں کو دی جائے -ریاستی با شندہ کے قوانین کے تحت اس کی ایک جھلک موجود ہے جن کے تحت ریاستی باشندوں کی تین حصوں میں درجہ بندی کی گئ ہے - ایک سروس کیس میں مجھے ایسے ہی ایک کیس سے واسطہ پڑا تھا جس میں قرار دیا گیا کہ اگر تینوں قسم کی کیٹیگری کے لوگ کسی آسامی یا فنی کالج میں داخلہ کے لئے کامیاب ہوئے ہوں ان میں درجہ اول کو دوئم پر ، دوئم کو سوئمُ پر ترجیح حاصل ہوگی اور اگر پہلی دو کیٹیگری کا کوئی نہ ہو تو تیسری کیٹیگری کے لوگوں کو اسی طور ترجیح دی جائے -

اسمبلی میں مہاجرین کا موجود نظام مکمل طور ختم کر کے جموں اور کشمیر کے لئے دو نشستیں نامزدگی کے زریعہ مختص کی جائیں جن پر کشمیر ایشو کے قانونی اور سفارتی پہلوؤں سے آشنا لوگوں کو نامزد کیا جائے - اس کا جتنی جلدی ادراک کیا جائے مناسب ہوگا ، ورنہ خدشہ ہے کہ آزاد کشمیر میں کسی بھی وقت یہاں کے باشندے کے ہاتھوں گذشتہ مارچ اور بد ترین صورت حال میں بنگلہ دیش جیسے مظاہروں کا سامنا نہ کرنا پڑے - ناگزیر اور نازک معاملات کو وقت سے پہلے حل کرنا چاھئے ، دیر نہیں کرنا چاھئے -

واپس کریں