دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قرار داد الحاق پاکستان ، تجزیہ اور تقاضے -
منظور حسین گیلانی
منظور حسین گیلانی
جسٹس ( ر) سید منظور حسین گیلانی

آزاد کشمیر اور بیرون ملک آباد کشمیری مسلمان باشندوں کی غالب اکثریت ہر سال اسی روز 19 جولائ 1947 کے روز آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے لئے پاس کی ہوئ قرار داد کی تائید اور تجدید کرتے ہوئے یہ دن جوش و جذبے سے مناتے ہیں- اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پرطانوی ہند کی ریاستوں کی تقسیم ہندوستان کی آزاد ی کے ایکٹ 1947 کے تحت عمل میں آئ تھی جس کی روشنی میں بھارت اور پاکستان کے نام سے متحدہ ہندوستان کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا - اصول یہ طے پایا تھا کہ جن ریاستوں کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتتعمل تھی اور مجوزہ پاکستانی مملکت سے ملحق تھیںُ ان کو پاکستان سے الحاق کرنے کا حق حاصل تھا ، جو ہندو اکثریت کی ریاستیں تھیںُ اور مجوزہ بھارت سے ملحق تھیںُ ان کو ہندوستان سے الحاق کا حق دیا گیا تھا -

آزادئ ہند کے قانون کی دفعہ 7 کے تحت ہی یہ قرار دیا گیا تھا کہ جہاں تک ہندوستانی ریاستوں ، جن کو شاھی یا پرنسلی Princely ریاستیں کہا جاتا تھا وہ ہندوستان کی آزادی کی مقررہ تاریخ ( پندرہ اگست1947) سے ان تمام معاہدوں کی بندش سے آزاد ہونگی جو ان کے اور برطانوی حکومت کے ساتھ وقتآ فوقتآ ہوئے تھے - اس کے ساتھ ہی برٹش کامن ویلتھ آفس نے متعدد ہدایات اور سر کلر جاری کر کے ہدایت کی تھی کہ یہ شاھی ریاستیں بھی ان ہی دو ملکوں میں سے ان ہی اصولوں کے مطابق الحاق کرنے کی مجاز ہونگی، کوئ بھی آذاد ملک کے طور نہیں رہ سکے گی اور کوئ ملک ان کی آزادی کوتسلیم نہیں کرے گا جو غیر دوستانہ عمل سمجھا جائیگا-شاھی ریاستوں کے حکمران معینہ اصولوں کے مطابق مقررہ تاریخ سے بر طانوی حکومت کے ساتھ معاہدوں سے آزاد اور وہ معاہدے منسوخ تصور ہونگے- ان ریاست کے حکمرانوں کو صرف الحاق کے انتخاب کی حد تک ہی آزادی تھے ، الگ آزاد ملک بنانے یا کسی اور ملک سے الحاق کی آزادی نہیں - ( HMG سرکلر و ہدایات مورخہ 8 و 9 اور 14 اگست 1947)

اس قانونی پوزیشن کے مطابق اس وقت کے مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کو اسی فیصد مسلم اکثریتی ریاست کا الحاق بہر حال پاکستان سے ہی کرنا تھا لیکن تاریخی واقعات سے یہ ثابت ہے کہ اس کی ہندوستانی ہندو ریاستوں ، بلخصوص پنجاب کی ہندو اور سکھ ریاستوں کے زریعہ ہندوستان سے الحاق کرنے کے عہد و پیمان ہوگئے تھے وہ مناسب وقت کے انتظار میں تھا - ادھر مسلم کانفرنس کی لیڈر شپ کے باہمی انتشار اور شیخ عبد اللہ کے پنڈت جواہر لال نہرو سے گٹھ جوڑ، کانگرس کی لیڈر شپ کی پھرتیوں ، مہاراجہ پر مسلسل دباؤ اور مرکزی مسلم لیگ کی کشمیر کے اندر پاکستان سے الحاق کے لئے موثر سر گرمی نہ ہونا جتنی کانگرس کر رہی تھی کی وجہ سے مہاراجہ کو وقت ملتا رہا -

صدر مسلم کانفرنس چوہدری غلام عباس مرحوم کے جیل میں ہونے کی وجہ سے قائمقام صدر چوہدری حمید اللہ خان مرحوم کی مورخہ 24 مئی 1947 کی پریس کانفرنس سے بھی مہاراجہ کو حوصلہ ملا جس میں چوہدری حمید اللہ صاحب نے مہاراجہ کشمیر کو ریاست کا یہ حل تجویز کیا کہ وہ آئینی سربراہ کے طور قائم رہ کر ریاست کی اپنی آئین ساز اسمبلی مرتب کریں - بہ الفاظ دیگر ریاست کو آزاد اور خود مختار ریاست کے طور رہنا چاھئے - چوہدری صاحب کا دعوی تھا کو ان کی اس تجویز کو تمام بڑے مسلم کانفرنس کے لیڈرس اور چوہدری غلام عباس مرحوم کی حمایت حاصل ہے - اس کے بعد چوہدری حمید اللہ صاحب نے مسلم کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی سے اس تجویز کی مورخہ 18 جولائ کے اجلاس میں منظوری بھی کرائی لیکن 19 جولائ کو مسلم کانفرنس کے کنونشن میں اس کے برعکس ریاست کے پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کی قرارداد منظور کر کے 18 جولائ کی قرار داد کو مسترد کردیا - بقول سردار ابراھیم خان صاحب مرحوم، کم از کم دو سو افراد کے مجمع میں سے چوہدری حمید اللہ خان قائمقام صدر مسلم کانفرنس کا ایک بڑا گروپ ریاست کے آزاد اور خود مختار رہنے کے حق بھی موجود تھا-
سردار محمد ابراہیم خان صاحب نے پاکستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کی قرارداد کی غیر مبہم الفاظ میں تصدیق کرتے ہوئ اپنی کتاب کشمیر ساگا میں لکھا ہے کہ یہ قرار داد ان کے گھر پر جولائ میں پاس کی گئ تھی لیکن اس میں تاریخ درج نہیں ہے ، صرف جولائ کا مہینہ درج ہے - جسٹس محمد یوسف صراف مرحوم اپنی کتاب Kashmiris Fight for Freedom میں اس قرارداد کے مسودے کو پیش کرنے کے دعویدار ہیں جس کی عنایت اللہ ککرو ممبر پر جا سبھا نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی طرف سے پیش کی ہے -

اس قرار داد کے تاریخ کی کتابوں میں دو متن (versions ) گشت کرتے ہیں - جس متن کی تصدیق سردار ابرا ھم صاحب مرحوم نے کی ہے میں اسی کو معتبر سمجھتا ہوں کیونکہ یہ ان کے گھر کنونشن میں منظور ہوئ تھی اور وہ پرجا سبھا کی ممبر بھی تھے- ایک متن / ورشن میں یوں مطالبہ کیا گیاتھا کہ “ مہاراجہ کشمیر پاکستان کے ساتھ امور دفاع، امور خارجہ اور امور مواصلات پر الحاق کر کے ریاست میں نئی نمائیندہ اسمبلی بنائے اور خود صرف آئینی سربراہ رہے” -جبکہ اس کے دوسرے متن میں غیر مشروط طور پاکستان سے “ الحاق” کا مطالبہ کیا گیا تھا ، جس متن کی تصدیق سردار ابرا ھم صاحب مرحوم نے کی ہے میں اسی کو معتبر سمجھتا ہوں کیونکہ یہ ان کے گھر کنونشن میں منظور ہوئ تھی اور وہ پرجا سبھا کی ممبر بھی تھے- میرے نزدیک یہی معتبر ہے - دونوں قرار داد وں میں اجلاس میں موجود لوگوں کا نہ تو زکر ہے اور نہ ہی کسی کا دستخط - مقبوضہ کشمیر کے کسی مورخ کی کتاب میں مجھے اس کاروائ اور قرار داد کا زکر نہیں ملا- چوہدری غلام عباس مرحوم جو ان دنوں جموں جیل میں ہی تھے نے بھی اپنی کتاب کشمکش اور شیخ محمد عبداللہ مرحوم کی آتش چنار میں بھی اس کا کوئ تذکرہ نہیں ہے - اس تاریخی واقعہ کا حوالہ ان ریاستی باشندوں کے بیانات پر مبنی ہے جو پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں مقیم ہیں جن میں وہ لوگ شامل ہیں جو اس وقت سرینگر میں موجود تھے یا ان کو زاتی علمیت تھی - یہی ہونا چاھئے تھا اور یہی درست عمل بھی تھا -

لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ جب ریاست میں غاصب ڈوگرہ فوج سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا 2/3 حصہ آزاد کرا لیا تھا، اس کا 19 جولائ کی قرار داد کے تسلسل میں 24 اکتوبر 1947 کو آزاد اور خود مختار حکومت کے بجائے ریاست کی نمائیندہ حکومت بناکر پاکستان سے الحاق کیوں نہیں کیا گیا ؟ یہ بھی اسی سوچ کا انتشار لگتا ہے جو مسلم کانفرنس کے قائمقام صدر چوہدری حمید اللہ کی پریس کانفرنس میں خود مختار کشمیر ، پھر 18 جولائ کو مجلس عاملہ سے خود مختار کشمیر کی قرار داد پاس کرانا اور 19 جولائ کو قرار داد الحاق کے دو متن کا ہونا ہے -
ادھر 24 اکتوبر 1947 کو ڈوگرہ فوج سے آزاد کرائے گئے ریاست کے آزاد حصوں میں پوری ریاست کی نمائیندہ آزاد اور خود مختار ریاست قائم کردی گئ اور یہ حصے کسی طور مہاراجہ کی ریاست کے حصے نہیں رہے - اگر بعد ازاں ان حصوں کا یہ سٹیٹس ختم ہی کرنا تھا تو اسی تاریخ سے اس نمائیندہ حکومت کے زریعہ پوری ریاست کا پاکستان سے الحاق کیا گیا ہوتا ، 26 اکتوبر کو مہاراجہ ہندوستان سے الحاق کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوتا اور سلامتی کونسل کے کٹھہرے میں پاکستان کے بجائے ہندوستان ہوتا -

سردار ابراہیم خان مرحوم نے بھی اپنی کتاب کشمیر ساگا میں لکھا ہے کہ انہوں نے قائد اعظم سے آزاد کشمیر حکومت کے پوری ریاست کے نمائندہ حکومت کی حیثیت سے الحاق کر کے بقیہ ریاست کو آزاد کرانے کے لئے فوج بھیجنے کا کہا ، انہوں نے اس بات کو پسند کیا لیکن لیاقت علی خان مرحوم نے اتفاق نہیں کیا - بہر حال 24 اکتوبر 1947 کے اعلامیہ کے بعد ریاست کے آزاد حصے مہاراجہ کشمیر کی ریاست ، اس کی فوج اور اس کی حکومت حصہ نہیں تھے اس لئے یہ مہاراجہ کی جانب سے 26 اکتوبر کے مبینہ الحاق کا حصہ نہیں ہو سکتے نہ ان پر ہندوستان کے حق میں مہاراجہ ریاست کے 26 اکتوبر کے الحاق نامہ کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ ہی ہندوستان کی ریاست کے ان حصوں پر اس الحاق نامہ کی بنیاد پر دعویداری کی کوئ آئینی اور سفارتی حیثیت ہے -

اگر 24 اکتوبر والی پوزیشن کو بھی بحال رکھا جاتا اور آزاد کشمیر کی حکومت کو پوری ریاست کی نمائندہ حکومت کے طور مضبوط کیا جاتا وہ بھی اچھی حکمت عملی ہوتی لیکن یکم جنوری 1949 کو کشمیر کے محاز پر ہندوستان سے جنگ بندی کو قبول کرنے اور اپریل 1949 میں کراچی معاہدے کے بعد آزاد کشمیر حکومت کے 24 اکتوبر والے سٹیٹس کے بر عکس آزاد کشمیر کے پاکستان کے ساتھ امور دفاع، امور خارجہ ، مواصلات اور مرکزی بیروکریسی کی آزاد کشمیر میں تعیناتی کے بعد کسی آئینی دستاویز کے تحت انظمام تو نہیں کیا ، لیکن یہ سارے اقدامات الحاق کی حیثیت رکھتے ہیں ، جس طرح مہاراجہ کشمیر کا 26 اکتوبر کا مبینہ الحاق نامہ ہے 24 اکتوبر کے معاہدے کے تسلسل میں وقتآ فوقتآ پاکستان حکومت کی جانب سے عبوری آئین 1974 سمیت ، نافذ کی جانے والی ساری آئینی دستاویزات اور کیبنٹ ڈویژن کے 1971 اور 1987 کے یکے بعد دیگر دو نوٹیفیکیشنز ، جن کو تیرویں آئینی ترمیم کے تحت راجہ فاروق حیدر خان صاحب کی حکومت کے دوران آئین کا حصہ بنا دیا گیا ، اس وقت آزاد کشمیر کا نظام اسی طرز پہ ہے جس کے تحت آزاد کشمیر کو بدوں آئینی حقوق و اختیار ، صوبے کے طور چلایا جارہا ہے جو بلا شک و شبہ الحاق کا لفظ لکھے بغیر عملی طور الحا ق سے زیادہ مضبوط رشتہ ہے - اس کے باوجود آزاد کشمیر کی ساری الحاقی اور خود مختار کشمیر کی حامی جماعتیں آزاد کشمیر کو صوبہ ، عبوری صوبہ یا صوبے کے مماثل تابع سلامتی کونسل کی قرار دادو ں کے خصوصی مقام کے ساتھ ، پاکستان کے آئین میں شامل کرنے کے خلاف ہیں جن کو مبینہ طور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے اس حصے کی حمایت بھی حاصل ہے جو اس ڈھیلے ڈھالے غیر مربوط نظام سے فیضیاب ہورہے ہیں - خود مختار کشمیر کے حامیوں کی اس دلیل کے پیچھے ان کی ایک منطقی سوچ ہے لیکن الحاقیوں کی سوائے موقع پرستی کے ، کوئ منطق سمجھ نہیں آتی اور نہ ہے -
ان کے حوالے سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ عمل سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مغائیر ہے اور اس سے کشمیر کا مسئلہ متاثر ہو جائیگا جب ساری ریاست آزاد ہوگی تب اس کے سمیت پوری ریاست کا الحاق پاکستان سے ہوگا-
سلامتی کونسل کی قرار دادیں تاریخی ریکارڈ کا حصہ تو ضرور ہیں لیکن موقع پر UNCIP کی زیر اھتمام اس کے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جولائ 1949 کی حد بندی کے مطابق دونوں ملک ریاست کے زیر قبضہ علاقوں کا نظم و نسق چلا رہے ہیں - بین الاقوامی اسٹیبشمنٹ اس کی سختی سے پاسداری کررہی ہے - ہندوستان اور پاکستان کی تین جنگوں میں ریاست کے جن حصوں پر حد بندی لائین کے مغائیر دوسرے ملک نے قبضہ کیا تھا ان علاقوں کو واپس کراکر بنیادی حد بندی بحال کی گئ - کر گل کا معرکہ اس کی کلاسیکل مثال -
اگر بین الاقوامی اسٹیبشمنٹ کو ریاست کے آزاد اور خود مختار ہونے کا فائیدہ ہوتا تو ہندوستان کی تقسیم کے وقت ہی یہ کرا لیتی - اس نے کمیونزم کے پھیلاؤ ، بہ الفاظ دگر روس اور چین کا گرم پانیوں تک رسائ کے خلاف پاکستان کے قیام کا راستہ ہموار کیا اور اس سے بھر پور فائیدہ اٹھا یا - اب ہندوستان کی طاقت سے ان کا راستہ روک رہی ہے اور ہندوستان بین الاقوامی سطح پر اس کا بھر پور فائیدہ اٹھا رہا ہے - وہ کسی نئی طاقت کو کیوں بنائیں یا بننے دیں جب ان کا کام دونوں ملک کررہے ہیں ؟
حکومت پاکستان کی خواہش ، ہمدردی اور آزاد کشمیر کے لوگوں کی ہمیشہ سے مکمل ہمدردی اور پچھلے تیس سال میں تحریک میں مالی اور جانی مدد بھی شامل رہی - وادی والوں کی جان ، مال ، عزت اور آبرو اس وقت بھی داؤ پہ لگی ہے - تاہم بین الاقوامی صورت حال نے مکملُ پلٹا کھایا ہے - ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کی انفرادیت اور تشخص کو 2019 میں ختم کر کے 44 لاکھ بھارتی نژاد لوگوں کو کشمیر کا باشندہ قرار دیکر مقبوضہ کشمیر کی ڈیمو گرافی تبدیل کردی ہے - لداخ کو الگ یونئین ٹیریٹری بناکر اس کی حثیت پر ضرب لگائ ہے - اگر کبھی استصواب رائے کی صورت پیدا ہوئ تو 44 لاکھ بھارتی لوگوں میں مذید اضافہ کے ساتھ زمینی صورت حال یکسر بدلی ہوگی - میرا ایمان کی حد تک یقین ہے کہ وادئ کشمیر نے بہر حال ہندوستان سے آزاد ہوناہے ، وہ کب یوگا اور حیثیت کیا ہوگی اس کے لئے پیش بندی اور متبادل سوچ پر مشق کی ضرورت ہے -

اس میں شک نہیں ہندوستان نے قرار دادوں کے مغائر اپنے زیر قبضہ علاقے کا سیاسی اور آئینی جغرافیا بھی تبدیل کردیا ہے اور پاکستان کے زیر انتظام علاقوں پر اپنی حاکمیت ، حیثیت ، آئینی حق جتلانے کے علاوہ ہر روز اس کا زبردستی حاصل کرنے کا دعوی بھی کرتا ہے ، اس کے باوجو آزاد حصے کا کوئ علاقہ نہیں لیا - دنیا اس کے زیر قبضہ علاقے کوہی متنازعہ سمجھتی ہے ، جہاں لاکھوں کی تعداد میں فوج کے زریعہ لوگوں کو دبا رکھاہے ، جبکہ پاکستان کے زیر انتظام ایسا کچھ نہیں ، لیکن پاکستان اور آزاد کشمیر کے سیاست دان ہی اس کو متنازعہ کہتے ہیں اور پاکستان کے آئین کے تحت پاکستان کو مسلمہ سیاسی اور قانونی نظام کے باوجود زبانی کلامی دعوؤں کے ، یہاں پاکستان کو کوئ آئینی سٹیٹس دینے اور آزاد کشمیر اور اس کے لوگوں کو پاکستان میں باقی پاکستانیوں کی طرح باوقار مقام دینے کے مخالف ہیں - جہاں تک ساری ریاست کے آزاد ہونے کے بعد اس کو پاکستان کا حصہ بنانے کا تعلق ہے ، اس کی ابتداء کہیں اور کسی طرح تو ہونا چاھئے - اگر آپ پاکستان کو بغیر آئینی حصہ ہونے کے اپنے آپ کو پاکستانی اور آزاد علاقوں کو پاکستان، پاکستان کا دفاعی مورچہ ، اور خود کو پاکستان کا بلا تنخواہ سپاہی سمجھتے ہیں تو سیانوں کی بات مان کر “ یکے را بگیر دیگر را دعویٰ کن “ کے مصداق اس کا عملی مظاہرہ کریں - قانونی ، سائینسی ، فلاسفی ، راسخ العملی کے اصولوں HOLOGRAPHIC PRINCIPLES کے مطابق “ حصے میں کل اور کل میں حصہ” شامل ہوتا ہے جس کو انگریزی میں آسان قانون الفاظ میں part includes whole and whole includes part کہتے ہیں -

ہمیں عقل کی کسوٹی اور زمینی حقائق کی بنیاد پر اس کا ادراک کرنا چاھئے -اس وقت حکومت پاکستان کو آزاد کشمیر کے حوالے سے آزاد کشمیر کے آئین کے تحت وہ سارے اختیارات حاصل ہیں جو پاکستان کی قومی اسمبلی اور حکومت کو باقی صوبوں میں حاصل ہیں - پاکستانی صوبے، قومی اسمبلی اور مرکزی حکومت بنانے ، قانون سازی اور مرکز کے انتظامی اختیار کے ہر شعبہ میں با اختیار ہیں لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان مرکزی حکومت کے حوالے سے سب صوبوں میں محکوم ہے - وہ کیوں ؟ چند لوگوں کے مقامی سیاسی مفادات کی وجہ سے ساٹھ لاکھ لوگ بے حیثیت اور بے شناخت ہیں - نہ ریاستی باشندوں کا ملک کی آئینی زندگی میں کوئ مقام بننے دیتے ہیں نہ ہی پاکستان کے آئین کے تحت آزاد کشمیر میں کسی مقام کا تعیین ہونے دیتے ہیں - ان حقائق کا ادراک کرنا ہی 19 جولائ کی قرار داد الحاق پاکستان کی روح کا تقاضا ہے - ورنہ سب کچھ گپ شپ ہے -

واپس کریں