آزادی ‘کے بعد- مصنف دانش ارشاد ۔ ( کتاب پر تبصرہ )
جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
کہنہ مشق بے لاگ کالم نگار دانش ارشاد کی کتاب “ آزادی کے بعد” نوجوان صحافی فرحان احمد خان نے مجھ تک پہنچا کے ممنون کیا - کتاب کا نام تو آزادی کے بعد ہے لیکن اس میں درج واقعات آزادی سے پہلے اور آزاد کشمیر کی عبوری حکومت قائم ہونے سے ستر سالہ جمود توڑنے والی سال 2023-24 کی عوامی تحریک پر محیط تاریخ ہے - آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا قیام 24 اکتوبر 1947 کو عمل میں آیا جس کے بانی صدر مرحوم سردار محمد ابراھیم خان صاحب تھے جو اس وقت ریاست جموں و کشمیر کی منتخب اسمبلی ، پر جا سبھا کے ممبر بھی تھے - ان کے صدر مقرر کئے جانے کی ایک امتیازی حیثیت ممبر پرجا سبھا ہونے کے علاوہ اس زمانے میں پونچھ اور پونچھ کے سدھن قبیلے سے بیرسٹر اور ریاست کے نمایاں وکیل ہونے اور تحریک آزادئ کشمیر میں پونچھ بالخصوص سدھن قبیلے کی نمایاں قربانیاں بھی تھیں- ویسے حالات میں ایک حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اس کی صدارت قبول کرنا بھی بڑے حوصلے کی بات تھی -
دانش ارشاد نے جہادی سر گرمیوں ،حکومت قائم کرنے ، ریاستی سٹرکچر کی بنیاد رکھنے ، ریاست کے اندر سیاسی سر گرمیوں کے رواں ہونے کے بعد اس خطے کے اندر مختلف گروپس اور طبقات میں اقتدار کی کشمکش ، مقامی ، پاکستانی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں آزاد کشمیر کی حکومت کے قیام کے مقاصد پس پشت چلے جانے اور مقامی سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کے حکومت بنانے اور توڑنے میں معاون کا کردار ، حکومت پاکستان کی بالا دستی اور آزاد کشمیر کے سیاست دانوں کی بے بسی کا اس زمانے کے اخبارات، رسالوں ، لیڈروں کے متضاد بیانات کے رپورٹڈ حوالوں سے تاریخ چشم کشا ہے - سوائے “آزادی کے بعد “ کے ، مجھے آج تک آزاد کشمیر کے کسی مصنف کی کوئ کتاب نہیں مل سکی جس میں مختلف ادوار میں حکومتوں کی تشکیل اور تحلیل ، حکومتی کرداروں کی کار کر دگی ، لیڈروں کے بلند و بالا دعؤ ں کے باوجود اقتدار ملنے پر سکوت اور چھن جانے پر الزام تراشی کو ترتیب سے لکھا گیا ہو -
تاریخ کوئ سائنس نہیں ہوتی بلکہ مختلف ادوار کی کہانی ہوتی ہے جو کسی ملک یا علاقے کے سر کردہ لوگوں کے کردار ، گفتار ، طرز عمل سے بنتی اور بگڑ تی ہے - قوموں اور ریاستوں کا عروج و زوال کسی ایک کردار یا چند کرداروں کے ارد گرد گھو متا ہے - آزادی کے بعد کے مطالعہ سے لگتا ہے آزاد کشمیر پوری ریاست جموں و کشمیر کے کٹے پھٹے اور پسماندہ علاقے ہونے کے باوجود یہاں کے لوگوں کی قربانیوں کی درخشاں کہانی ہے جس کو سیاست دانوں کے اقتدار کی حرص اور کشمکش نے گہنا دیا ہے - لوگوں کو کشمیر کی آزادی کی تمناؤں کی تکمیل، ووٹ کے تقدس ، اچھی حکمرانی کے بلند و باغ دعؤں کے باوجود وہی کچھ کیا جس سے ان کے اقتدار کا عرصہ طول پکڑے لیکن اقتدار میں آ کے وہ سب کچھ بھول جاتے رہے اور اقتدار سے نکلُنے کے بعد پھر نیا راگ الاپنا شروع کرتے ہیں - میں زاتی طور آزاد کشمیر کی حکومتوں کی تشکیل و تحلیل اور بلند و باغ دعؤں کا سال 1977 سے عینی گواہ ہوں ایسا ہی ہوتا رہا جو دانش ارشاد نے لکھا ہے ، یقینآ اس سے پہلے کا بھی ایسا ہی ہوگا جس کو کتاب میں درج حوالہ جات کے تناظر میں دیکھا جائے تو غلط نہیں ہو سکتا -
دانش ارشاد نے لکھا ہے کہ سال 1947 کو قائم کی جانے والی حکومت میں چوہدری غلام عباس مرحوم کو ہندوستانی جیل سے رہائ کے بعد پاکستان آنے پر “ کشمیر ریفیوجیز سنٹرل ریلیف کمیٹی “ کا چئیر میں بنایا گیا جس میں مرکزی وزرا کے علاوہ آزاد کشمیر کے صدر سردار ابراھیم خان صاحب کو ممبر بنایا گیا جہاں سے چوہدری صاحب اور سردار صاحب کے درمیان سیاسی چپقلش شروع ہوئ-اس کے بعد چوہدری صاحب کو آزاد کشمیر حکومت کا سپریم ھیڈ بنایا جو غیر جمہوری عمل تھا جس کے بعد سرکاری افسروں میں تقسیم پیدا ہوگئ اور یہ کشمکش 1970 تک چلتی رہی - دانش صاحب لکھتے ہیں کہ چوہدری صاحب کے کہنے پر 1948 کے اواخر پر حکومت پاکستان نے مسلم کانفرنس کے بے روز گار کارکنوں کو مالی امداد کا فیصلہ کیا گیا جس کی زیادہ سے زیادہ رقم ایک ہزار اور کم از کم تیس روپے تھی جبکہ چوہدری صاحب کو ایک لاکھ روپے دیے گئے- گروپ بندی عروج پر تھی اس لئے رقم کی تقسیم یک طرفہ طور پر ہونے لگی یہ سلسلہ 1952 میں بند کیا گیا - آگے چل کے لکھتے ہیں کہ 1949 میں چوہدری صاحب کی مسلم کانفرنس کی صدارت کے دوران ایک قرار داد کے زریعہ آزاد کشمیر کے صدر کی نامزدگی کا اختیار صدر مسلم کانفرنس کو دیا گیا جو اپنی کیبنٹ صدر مسلم کانفرنس کے مشورہ سے بنائیں گے ، حکومت مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے سامنے جواب دہ ہوگی اور مجلس کی رضامندی تک اپنے عہدے پر قائم رہے گی- بقول دانش صاحب اپریل 1949 کا معاہدہ کراچی کے تحت مسلم کانفرنس اور آزاد حکومت کو اختیارات سے محروم کردیا گیا -سردار محمد ابراھیم خان کی حکومت کو ایک سازش کے تحت گرانے کے لئے دانش صاحب لکھتے ہیں کہ 1949 کے آخر میں چوہدری غلام عباس کی مشتاق گورمانی اور ملک غلام محمد سے سردار ابراھیم کو صدارت سے ھٹانے کی بات چیت ہوئ جس کے بعد انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا اور 31 مئ 1950 کو سید علی احمد شاہ کو صدر آزاد کشمیر نامزد کیا گیا -
ان کے بقول پونچھ میں بغاوت اور متوازی حکومت کی وجہ بھی سردار ابراھیم کی برطرفی کا رد عمل تھا - ان کے بقول بغاوت کو کچلنے والی پاکستانی فوج کی پوری پلٹن نے ھتیاروں پھینک دئے - ان فوجیوں کو پھر ایوب خان نے سزا کے طور راولپنڈی ریلوے سٹیشن سے کوئٹہ تک ریلوے ٹریک پر پٹھو سمیٹ مارچ کرائ جو چھ ماہ میں مکمل ہوئی - اس بغاوت میں لوگوں کی بہادری ، مسلح فو جیوں کی پسپائ کے متعلق چشم کشا واقعات تحریر کئے ہیں - بغاوت کی تحریک بعد ازاں جمہوری نظام رائج کرنے اور ووٹ کے حق میں بدلی گئ - مرکزی وزیر مشتاق گورمانی کے راولاکوٹ آنے پر فوجیوں کے وہ ھتیار واپس کئے گئے جو انہوں نے عوام کے سامنے چھوڑے تھے اور مشتاق گورمانی نے وعدہ کیا کہ لوگوں کو ووٹ کا حق دیا جائے گا لیکن یہ وفا نہیں کیا گیا بلکہ ایسے رولز آف بزنس نافذ کئے گئے جو آمرانہ تھے- علی احمد شاہ کی حکومت ختم کر کے 1951 میں میر واعظ کو صدر مقرر کیا گیا جو “ کشمیری بولنے والے ملازمین کے سوا تمام کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے اور گیارہ ماہ کی مدت حکومت میں جتنے کشمیری بولنے والے ملازم بھرتی کئے گئے وہ دو سال میں نہ کئے جا سکے -“ دانش صاحب نے میر واعظ کے خلاف لکھا ہے کہ “ انہوں نے پنڈت نہرو کو ایک خط لکھا تھا جس میں کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنا ہی بہتر ہے -“ میر واعظ کو گیارہ ماہ کے بعد بر طرف کرکے سدھنوں کو خوش کرنے کے لئے بغیر الیکشن کروائے 1952 میں کرنل شیر احمد کو صدر بنایا گیا - جبکہ چوہدری غلام عباس کی با لا دستی کی پوزیشن بھی منسٹری کشمیر افئیرز کے جوائینٹ کو سپرد کر دی گئ - سردار ابراھیم خآن کے دوبارہ بغیر ووٹ صدر بننے پر دانش ارشاد لکھتے ہیں “ یہ واضع کرتا ہے کہ 5 سالہ تحریک نتیجہ خیز نہ ہوئ اور ووٹ کا حق اور مالیہ نہ دو ، تحریکوں کا مقصد ان کا اقتدار میں آنا تھا نہ کہ عوام کو حق رائے دہی دلانا-“ کشمیر لبریشن مومنٹ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ “ یہ تحریک سکندر مرزا کی ایماء پر شروع ہوئی تھی تاکہ پاکستان میں اعلان کردہ انتخاب ملتوی ہو سکیں —— ایوب خان کے مارشل لا کے نفاذ کے چند دن بعد تحریک ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا —-پھر لبریشن مومنٹ کے تمام قیدیوں کو رہا کردیا-“ کے ایچ خورشید صاحب کے” آزاد کشمیر کو نمائندہ حکومت تسلیم کرو “ کے مطالبہ پر لکھتے ہیں کہ “ ان کی صدارت کے دوران سندھ تاس معاہدہ اور منگلہ ڈیم کی منظوری ہوئ لیکن کے ایچ خورشید اس پر چپ سادھے رہے—— چار سال صدر رہتے ہوئے انہوں نے اس پر کوئ بات نہیں کی نہ ی منگلہ ڈیم کے سنگ بنیاد رکھنے سے قبل معاہدے کی کوئ بات کی—— جبکہ مسلم کانفرنس کے رہنما سردار ابراھیم خان اور سردار عبدا لقیوم خان منگلہ ڈیم کے لئے لوگوں کو تیار کرنے کی کوشش کرتے رہے -“
دانش ارشاد نے آزاد کشمیر کی ہر حکومت اور حکمران کی حکومت کے دوران کئے گئے اعلانات اور عمل کا جا ئزہ لیا ہے - حکومتوں کے بنانے اور توڑنے میں لیڈروں کی اندرونی چپقلش ، سازش ، وزارت امور کشمیر کے سازشوں اور آزاد کشمیر کے لیڈروں اور آزاد کشمیر کی تحقیر کرنے کے سیاسی اور قانونی اقدامات ، ایکٹ 1960- 1964- 1968 کے تحت وزارت امور کشمیر کی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کیا ہے - سال 1968 میں سردار محمد ابراہیم خان ، سردار عبد القیوم خان ، کے ایچ خورشید کے 1964 اور 1968 کے ایکٹ کے خلاف مشترکہ جدو جہد ، جس کو اتحاد ثلاثہ کے طور جانا جاتا ہے کی تحسین کی ہے جس کے نتیجے میں ایکٹ 1970 وجود میں آیا جو ایک باوقار قانونی دستاویز تھی - لیکن جن نکات پر معاہدہ ہوا تھا یہی لیڈر بعد ازاں اس کو فراموش کر بیٹھے اور اس کی روح اور قومی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا -
سال 2023-24 کی عوامی تحریک تو کل کل کی بات ہے اس پر سیر حاصل مواد ریکارڈ پر رکھا گیا ہے جو ہر لحاظ سے کام یاب رہی ہے- اس کے ہم سب گواہ ہیں - گوکہ اس نے بھی آزاد کشمیر کے بے سمت چھہتر سالہ نظام کو ملکی اور عالمی سطح پر کوئ مقام دینے کے لئے کوئ فارمولہ پیش نہیں کیا - سبسڈی ، سستی بجلی ، کسی کو نوکری یا معاوضہ دینا ریلیف تو ہو سکتا ہے ریفارم نہیں - آزاد کشمیر کے اندر جاری آئینی نا انصافیوں اور پاکستان کے ساتھ اس کے آئینی تعلقات کے تعیین کا کوئ نظریہ پیش نہیں کیا گیا - بہ ایں ہمہ اس تحریک سے آزاد کشمیر کے خطءوں کی یکجہتی کا ظہور ایک خوش آئیند عمل ہے - جن حوالوں سے اس تحریک کے آزاد کشمیر کے لوگوں کے حقوق کے حوالے سے یکجان اور پر امن تحریک ہونے کی شہادت پیش کی گئ ہے اس کو دیکھ کے کوئ شخص بھی 1947 سے عوامی تحریک تک پیش کئے گئے مواد پر شک نہیں کر سکتا -
ہر لکھنے والا لکھتے ہوئے اپنے تحت شعور میں آباد خیالات کو نہ چاھتے ہوئے بھی چھپا نہیں سکتا - دانش ارشاد کی پوری کتاب کو پڑھنے کے دوران اور اس کے بعد میں ان کے حوالہ جات کے ساتھ تحریر کئے ہوئے واقعات پر شک تو نہیں کر سکتا تاہم نظریاتی طور ان کے طبعی میلان کا اندازہ لگا سکتا ہوں جس کو آزاد کشمیر میں عرف عام کے طور قوم پرست کہتے ہیں حالانکہ انہوں نے اس حوالے سے کچھ بھی نہیں لکھا - اُن جیسے تحقیقی مصنف اور کالم نگار نے اگر آزاد کشمیر میں چلنے والی مختلف تحریکوں کا معروضی طور بھی جائزہ لیا ہوتا اور زمینی حالات کی روشنی میں قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے رہنے کے بجائے 1947 کے حالات کے تناظر میں نہیں بلکہ 2024 اور ما بعد کے عالمی اور اس خطے کے زمینی حالات اور حقائق کا ادراک کرنے کے لئے سوچنے کی تحریک کی ہوتی وہ بہت ہی بڑی خدمت ہوتی -
آزاد کشمیر کے دانشوروں اور سیاسی جماعتوں سے وابسطہ سوچ وفکر رکھنے والوں کو ہندوستان کے زیر انتظام ریاستی لیڈر شپ سے سبق حاصل کرنا چاھئے جنہوں ہندوستانی آئین کے تحت بھی 1950 سے ہی دفعہ 370/35A کے تحت اپنا مقامی تشخص، مرکز کے تمام پالیسی ساز ، فیصلہ ساز اور قانون ساز اداروں میں اپنی نمائندگی حاصل کرنے اوراپنی قائم کردہ آئین ساز اسمبلی کے زریعہ آئین بنواکر پوری ریاست پر بھی اپنا دعویٰ بر قرار رکھا جس کو نریندرا مودی کی ہندوتا حکومت نے 2019 میں ختم کیا لیکن ریاست کے لوگوں نے اکثریت رائے سے 2024 کے ریاستی الیکشن میں ان ہی کو منتخب کیا جو ریاست کے تشخص کو بحال رکھنے کے دعویدار ہیں -
آزاد کشمیر کے قد آور ترین لیڈرس سے موجود اسمبلی تک کے نمائندوں کا جو کردار رہا ہے اس کا بلا چوں و چرا اس کتاب میں احاطہ کیا گیا ہے - میرے رائے میں یہ سب آزاد کشمیر کے حدود کے اندر اپنے اقتدار کے لئے باریاں لینے کے لئے کشمیر کی آزادی کا کارڈ کھیلتے رہے ہیں - نہ اس علاقہ ، جو اب ایک ریاست کا روپ دھار چکا ہے منہ متھا بنا سکے، نہ اس کا ادراک ہے ، اس لئے ان سے قومی سطح کے کسی بڑے فیصلے کی توقع نہیں کی جا سکتی جو مرکزی بیرو کریسی کی لاٹھی سے ہانکی جارہی ہے - معاملات کو سماجی دانشورو اور ریاستی امور کے ماہرین ہی سر جوڑ کے طے کر سکتے ہیں ، اقتدار کے سیاسی دریوزہ گر اور سیاسی اور جذباتی نعرہ باز نہیں ، یہ صرف روزی روٹی کا زریعہ ہے اور کچھ نہیں - آزاد کشمیر کی سیاست اور سیاسی لیڈروں کا ادراک حاصل کرنے والوں کے لئے دانش ارشاد کی کتاب ایک خزینہ ہے جس کو ہر سیاسی ورکر کو پڑھنا چاھئے - اس سے اختلاف کرنے والے اپنے نکتہ نظر کی تائید میں ارشاد دانش کی طرح مستند حوالوں سے پیش کریں تو قوم کی بہتر رہنمائ ہو سکتی ہے -
واپس کریں