جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
جسٹس (ر) سید منظور حسین گیلانی
تیرہ جولائ 1931 کو سرینگر کی سنٹرل جیل میں کشمیری مسلمانوں کے قتل عام کے دن کو دنیا بھر میں ریاستی باشندے ، بلخصوص وادی کشمیر اور آزاد کشمیر کے باشندے ہر سال ایک مذہبی اور قومی فرض کے طور مناتے ہیں تاکہ ہماری نسل آگاہ رہے کہ آزادی کے لئے ان کے اجداد نے کیسے کیسے ظلم برداشت کئے ہیں - تیرہ جولائ دراصل اس ظلم ستم ، جبر و بر بریت کا محض ایک چیپٹر ہے جس نے ہندوستان اور دنیا بھر میں توجہ حاصل کرلی ورنہ 1752 سے کشمیر کے لوگ اس ظلم کی چکی پسے چلے آرہے ہیں جب افغانوں کا کشمیر پہ قبضہ ہوا جس کا تسلسل سکھوں نے 1819 میں کشمیر پر قبضہ کے بعد جاری رکھا ، 1846 میں ڈوگرہ خاندان نے اس کو ایک ادارے کی صورت دی اور 1947 کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستانی حکومت نے جاری رکھا ہے - یہ تو اس کا تاریخی تسلسل کا پس منظر تھا لیکن اُس نسل کے لوگو نے پے در پے ظلم و ستم کے خلاف بغاوت کی جو داستان رقم کی اور سہی اس میں اس طرح کے کئ واقعات رونما ہوئے جو لوک کہانیوں کا حصہ بن گئے لیکن دنیا کی توجہ حاصل نہ کرسکے-
ڈوگرہ حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف کشمیر میں پہلی بغاوت اور مظاہرہ شال بافوں نے ناروا ٹیکسز کے خلاف 29 اپریل 1865 کو کیا جس کو کچلُے کے لئے ڈوگرہ فوج نے 28 نہتے کشمیریوں کو خون میں نہلا دیا - دوسرا ایسا واقعہ 1924 کو بھی سرینگر ریشم خانے میں ہوا جہاں مزدوروں نے کم اجرت کے خلاف مظاہرہ کیا - ڈوگرہ کی فوج نے اپنے رسالے کے گھوڑے ان پر دوڑائے جس میں بے دردی سے لوگ کچلے اور شہید کئے گئے - اس کے ساتھ ہی کشمیر وادی میں شیخ محمد عبد اللہ مرحوم اور میر واعظ محمد یو سف شاہ مرحوم نے اور جموں میں چوہدری غلام عباس مرحوم نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے سیاسی سرگرمیاں شروع کیں جن میں میٹینگس اور جلسے جلوس بھی شامل تھے- فلاحی تنظیموں کے نام پر مسلمان اس ظلم کے خلاف جمع ہوتے رہے-
ایسے ہی ایک جلسے میں امروہ یو پی سے تعلق رکھنے والے پٹھان نو جوان عبد القدیر جو کسی انگریز فوجی افسر کا ملازم تھا نے شعلہ بیان تقریر میں لوگوں کے ڈوگرہ حکمران کے خلاف بغاوت کے لئے جذبہ انگیخت کیا - اس کو ڈوگرہ انتظامیہ نے بغاوت کے مقدمہ میں گرفتار کیا اور اس کے خلاف سرینگر سنٹرل جیل میں مقدمہ چلایا - 13 جولائ 1931 کو جب اس کی تاریخ پیشی تھی اس کے ہمدرد لوگ سنٹرل جیل کے احاطہ میں جوک در جوک جمع ہونے لگے ، ڈوگرہ فوجوں نے بلا اشتعال گولی چلائ جس میں مجموعی طور 28 نہتے لوگ شہید ہوگئے- کچھ لوگ ان کی تعداد 22 بھی بتاتے ہیں -اس واقعہ سے ہندوستان بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئ جس وجہ سے کشمیریوں کی حمایت اور ڈوگرہ کے خلاف ایک مہم چل پڑی- کشمیر میں اس واقعہ کے خلاف 22 ستمبر 1931 کو جامع مسجد سرینگر میں ایک جلسے اور مظاہرے کا اھتمام کیا گیا - مسجد میں نہتے لوگوں کے خلاف ڈوگرہ فوج نے گولی چلائ جس میں 24 لوگ شہید ہوئے -
ان واقعات نے ایک ہمہ گیر سیاسی تحریک کو جنم دیا جس کے پس منظر میں 1932 میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد پڑی - ان کی باہمی اختلاف کی وجہ کی بناء پہ سال 1933 میں اس کا نیا دھڑا آزاد مسلم کانفرس کے نام سے بنا- سال 1939 میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا نام بدل کر نیشنل کانفرنس رکھا گیا لیکن ایک سال بعد 1940 چوہدری غلام عباس مرحوم نے دوبارہ مسلم کانسفرنس کا احیا کیا- 1947 میں ریاست کی تقسیم کے بعد پاکستان کے زیر انتظام علاقے تو قتل و غارت سے محفوظ ہیں لیکن ہندوستان کے زیر انتظام علاقوں میں یہ قتل غارت کی تحریک ابھی تک جاری ہے جس میں لاکھوں لوگ 1947 سے لے کر آج تک آزادی کے خواب لیکر شہید ہوگئے اور باقی ابھی تک قطار اندر قطار کھڑے ہیں -
واپس کریں