دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وادئ سوات ، مختصر تاریخی اور تفریحی جائزہ
جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
(جسٹس ریٹائر ) سید منظور حسین گیلانی-

سوات کی جنت نظیر وادی کا پوتوں نواسوں سمیت یہ میرا پہلا سفر تھا جنکہ سب سے پہلا سفر وکلاء دوستوں کے ہمراہ 1982-83 اور بچے بچیوں سمیت سال 1993-94 میں کیا تھا - مجھے اس کے ساتھ اس لئے عشق ہے کہ یہ میرے وطن مولود وادئ کشمیر سے بہت مشابہت رکھتا ہے - ان کے باشندوں کا حلم ، علم دوستی، خوش اخلاقی اور نرم خوئ بھی کشمیریوں سے ملتی ہے - زمانہ ما قبل عیسوی اور اسلام کے آثار اور کھنڈرات بھی کشمیر جیسے پائے جاتے ہیں - موسم اور ماحول تو ہے ہی کشمیر جیسا- میں سوات کے انتہائی مختصر پس منظر کے بعد سب سے پہلے اور اس تیسرے سفر کی یاداشتیں نظر احباب کرتا ہوں -
سوات تقسیم ہند سے پہلے ایک مقامی ہندوستانی ریاست تھی جو بر صغیر کے دوسرے حصوں کی طرح اپنی لو کیشن اور حسن کی وجہ سے ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے راڈار پر رہی - سکندر اعظم سے لیکر محمود غزنوی ، مغلوں اور انگریزوں کی تختہ مشق بنی رہی - اس ریاست میں بدھ مت سمیت کئ مذاہب کی تہذیب پھلی پھولی ، جن میں بدھ مت کے آثار آج بھی جگہ جگہ نمایاں نظر آتے ہیں - پشاور سمیت یہ وادی گندھارا کا حصہ رہی ہے - جستہ جستہ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کے اسلامی دور کے طور اس علاقے کو ایک ریاست کے طور نام اور مقام سال 1845 بابا عبد الغفور عرف سیدو بابا، جو صاحب علم و معرفت بزرگ تھے، کی وجہ سے ملا جن کو اخوند کا ٹائیٹل بھی دیا گیا تھا اور یہی جدید وادئ سوات کے بانی بھی سمجھے جاتے ہیں - اخوند زات سے موسوم لوگ وادئ کشمیر اور گلگت میں بھی ہیں - انہوں نے اپنی وفات سے پہلے 1849 میں سوات، دیر، بونیر اور باجوڑ کے لوگوں کا ایک جرگہ بلایا پیر بابا کے خاندان سے تعلق رکھنے والے سید اکبر شاہ کو امیر مقرر کیا ، لیکن اس کے کارندوں کے ظلم زیادتی سے لوگ بہت تنگ تھے - اس عرصہ کے دوران سیدو بابا وفات پاگئے جس کے بعد سوات کے لوگوں نے ان کے چھوٹے بیٹے عبد الخالق کو امیر مقرر جس کا انتقال 1892 میں ہوا۔ ان کے دو بیٹے تھے جن میں سے ایک کا نام میاں گل عبد الودود اور دوسرے کا نام میاں گل عبد المنان تھا- ان کی وفات پر ان کے بیٹے میاں گل عند الودود کو حاکم مقرر کیا لیکن کچھ عرصہ بعد ان کو پہلے حکمران سید اکبر نے بے دخل کردیا جو چکدرہ چلے گئے- وہاں سے باضابطہ تیاری کر کے 1917 میں سوات پر حملہ آور ہوئے اور 1917میں کبل کے مقام پر میاں گل عبدالودود کو سوات کا حکمران مقرر کیا گیا۔ لوگوں نے ان کو ’بادشاہ صاحب‘ کا ٹائٹل بھی دے دیا۔
میاں گل عبدالودود تقریباً 32 سال تک سوات کے حکمران رہے اور تقسیم کے وقت جب آزاد ریاستوں کو الحاق کا آپشن دیا گیا، تو بادشاہ صاحب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اور یوں ریاست سوات پاکستان کا حصہ بن گئی لیکن اس کا انظمام باضابطہ طور سال 1969 میں ہوا تھا - اس وقت سوات، صوبہ خیبر پختون خواہ کے مالا کنڈ ڈویژن کا ایک ضلع ہے ، جس کا صدر مقام سیدو شریف ہے - یہ ریاست جموں و کشمیر کی طرح ایک وقت ایک خود مختار ریاست ہوا کرتی تھا - یہ سلسلہ کوہ ہندوکش کی کئ چھوٹی بڑی پہاڑیوں ، وادیوں، جنگلات ، ندی نالوں ، چشموں اور آب شاروں میں گرا سحر انگیز خطہ ہے -
اگر سوات کی تاریخ کاکوئ ماہر ان مختصر واقعات سے اختلاف کرتا ہو یا ان میں کوئ اضافہ کرنا چاھے تو مجھے بہت خوشی ہوگی- میرا مقصد صرف سوات کے تیسرے سفر سے متعلق اپنی معلومات ان دوستوں تک پہنچا نا ہے جو سیر و سیاحت میں دلچسپی رکھتے ہوں -‎والی سوات کا تاریخی محل “وائٹ پیلس” سوات کے علاقہ مرغزار میں واقع ہے - مجھے میرے خیال میں سال 1982 یا 1983 میں مظفر آباد آزاد کشمیر کے وکلاء کے ساتھ سوات کے ایک سفر میں اس وقت کے والی سوات میاں گل اورنگ زیب کے ساتھ ملنے کا اتفاق ہوں جنہوں نے ہمارے لئے خصوصی طور صبح ناشتہ کا اھتمام بھی کیا تھا اور انتہائ بے تکلف گفتگو بھی کی - انہوں سب مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ لوگوں میں سے کسی نے وادئ کشمیر کو دیکھا ہے ؟ سب نے بہ یک زبان کہا کہ گیلانی صاحب حال ہی میں وارد ہوئے ہیں ، صرف انہوں نے دیکھا ؟ دوسرا سوال پوچھا سوات کے کس کس حصے کی آپ نے سیر کی اور تیسرا صرف مجھ سے پوچھا “ کشمیر کا کونسا علاقہ آپ کو ہو بہو کشمیر کے کسی حصے جیسا لگا-“۔ میں نے بر جستہ جواب دیا just like Pehlgam - موصوف خوشی سے اچھل پڑے، گلے لگایا اور کہا “ ہم دریائے لدر کے کنارے رہا کرتے تھے ( یا رہتے تھے) - دریا ئیے لدر قراقرم کے پہاڑوں سے نکلتا ٹھنڈا اور شفاف پانی پہلگام کے بیچوں بیچ سے گذرتا ہے-
اپنی ریاست کے زمانے کی حکومت کے بارے میں کہا ہم نے تعلیم اور نظم و نسق پر بھر پور توجہ دی - آج کے سکولوں کی ابتداء اسی زمانے کی ہے - مختلف جگہوں پر حفاظتی چو کیاں بنائ تھیں جو لوگوں کی حفاظت ، نظم و نسق اور ریاست کی حدود کی نگرانی کرتی تھیں - قتل کی بات ہی نہیں اور چوری چکاری بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی - اگر کہیں ایسی واردات ہوجائے تو دو تین دن میں فیصلہ ہو جاتا تھا - ریاست کے ہر کونے سے دن رات کی اچھی بری اطلاع دن ڈھلنے یا صبح ہونے پہلے مل جاتی تھی - اپنی پہاڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے افسوس سے کہا کہ merger سے پہلے یہ سب پہاڑ گھنے جنگل سے بھرے تھے، جو سب خالی ہوگئے ہیں - کسی دوست نے ان سے سوال کیا کہ کشمیر کا فیصلہ ہونا باقی ہے، آپ کا کوئ مشورہ ؟ انہوں نے جواب دیا جس کے ساتھ بھی جانا ہو ، اپنے پہاڑوں کو ننگا نہ ہونے دینا-
جو بات میں نے اپنے احباب تک پہنچانی تھی وہ اس سفر کی روداد ، سیاحتی مقامات ، تعمیر و ترقی ، مواصلات ، بازار اور سیاحوں کی دلچسپی کی ضروری اطلاعات ہیں - ہم لوگ اسلام آباد سے براستہ ایبٹ آباد دوپہر کے قریب نکلے تھے- فیملی کے بارہ لوگ تھے اور ہم نے تیرہ سیٹوں والی ایک ڈی لکس کوچ کرایہ پہ لی تھی - مناسب بھی یہی رہتا ہے ۔ یہ آرام دہ، اتنے لوگوں کے لئے اپنی تین لینڈ کروزر کی ضرورت پورا کرتی ہے اور خرچہ دو گنہ کم پڑتا ہے - اس کا فی یوم کرایہ اپنے ایندھن کے ساتھ بارہ صد روپیہ تھا جو سی پیک کے زیر اھتمام بننے والی سڑک جگہ جگہ پہاڑوں کو کاٹ کے ٹنلز سے بنی ہے گذرتے ہوئے چار بجے شام کے قریب باب سوات پہ پہنچ کر مالا کنڈ ڈویژن میں داخل ہوئے جو سارے کا سارا سابقہ ریاست سوات ، جو اب ایک ضلع ہے—
وادئ سوات کے سیاحتی مقامات کی سیر کی ابتداء مینگورہ شہر سے ہوتی ہے جو اپنی خوبصورتی کے اعتبار سے تو بہت دل کش ہے البتہ گرمی کے اعتبار سیاح یہاں رہنا زیادہ پسند نہیں کرتے ، تاہم شہری سہولتوں اور آسائیشوں کے اعتبار سے یہ باقی مقامات سے بہت اچھا ہے - جدید طرز کے ہوٹل، ریسٹورنٹ ، گیسٹ ہاوسز حسب استطاعت میسر ہیں - یوں تو وادی سوات کا ہر حصہ ہر موسم میں قابل دید اور روح فرسا ہے لیکن بہار اور گرمیوں کے سیاحتی طور مشہور مقامات میں سے فضا گھٹ، مالم جبہ ، سیدو شریف ، مرغزار، میاں دم ، مدین، بحرین ، کالام ، اُشر کے جنگلات ، پیلوگا، گبن جبہ، بلئیو واٹر پوائینٹ ، اتروٹ ویلی ، شاہی باغ ، بہت ساری جھیلیں جیسے کنڈول اور درال اور آبشاریں جو مینگورہ سے شاہی باغ تک سفر کے دوران سڑک کی دونوں طرف قابل دید ہیں -
اسی کی دہائی کے پہلے حصے میں جب میں پہلی بار جب سوات گیا تھا اس وقت سڑکوں کا اتنا وسیع سلسلہ نہیں تھا لیکن اب تیسری بار محسوس ہوا کہ پہلی سڑکوں کی توسیع کے علاوہ نئی سڑکیں اور لنک روڈس بنائ گئ ہیں - لیکن 2022 کے سیلاب نے دریائے سوات ، اس کے معاون دریاؤں اور برساتی نالو کے آس پاس کی بستیوں ، قصبوں اور شہروں کو ویران کردیا تھا جو اب بحال ہورہے ہیں لیکن مقامی آبادی کے بیانات کے مطابق سڑکوں کی بحالی میں مقامی تاجروں، ہوٹل مالکان اور ٹرانسپورٹرز کاہی بڑا کردار ہے جنہوں نے چندہ کر کے سابقہ سڑکوں کی مرمت اور بحالی کرکے اپنے روز گار کا سلسلہ اور سیاحوں کی دلچسپی بحال کی ہے - طالبان کے زمانے کی افرا تفری اس کے بعد ضرب عظم نے اس علاقے کو ویران کردیا تھا، اب اعتماد بحال ہو رہا ہے لیکن تعمیر وترقی کا عمل رکنے کی وجہ سے وہ رونقیں بحال نہیں رہی ہیں -
بحرین اور مدین میں سے گذرنے والی سڑکوں کی حالت تو ابھی بھی تباہی کا منظر پیش کررہی ہیں - سیلاب سے حکومت اور لوگوں نے بھی کوئ سبق نہیں سیکھا ، اسی طرح کی بے ہنگم تعمیرات جاری ہیں - کسی کنٹرولنگ اتھارٹی کا وجود نظر نہیں آتا - کالام سے شاہی باغ تک لگ بھگ ساٹھ کلو میٹر کا فاصلہ ہے جو قابل دید پہاڑ، جنگلات، بیلے ، آبشاریں اورگلیشرس ہیں- ان تک پہنچنے کے لئے اگر سیلاب سے سڑک کا کوئ حصہ بچا ہے اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے، وہ دریا اور نالے ہیں ، ان سے گذرنے والی سڑک صرف ڈرائیور کو نظر آتی ہے جو دیو ہیکل پتھر اور ، نالے اور دریائے سوات کے پانی سے بھرے علاقے ہیں عام سیاح جیپ میں بیٹھ کے ہچکولے کھاتا اور حسب توفیق پاک کلمات کا ورد کرتا ہے- شاھی باغ واقعی خوبصورت اور دل کش ہے لیکن یہاں رات رہنے اور کھانے کا معقول بندبست نہیں ہے - شام سے بہت پہلے یہاں سے واپس جانا چاھئے ورنہ دریائے کالام کناروں سے بہت آگے پھیل جاتا ہے جہاں سے جیپ گذرنے میں خوف آتا ہے -
کالا م سے آگے جانے والے شوقین ضرور جائیں یہ بھی ایک مہم adventure ہے لیکن مقامی قابل کار جیپ کرایہ پر لیں جو معہ فیول بارہ تیرہ ہزار میں مل جاتی ہے- ان علاقوں میں بہترین فور بائ فور کسٹم فری جیپیں اور لینڈ کوزرس ہیں جو زیادہ سے زیادہ 30/40 لاکھ میں 22/23 ماڈل خریدی جا سکتی ہے ، اپنی گاڑی کو اس مہم جوئ میں استعمال نہ کریں- رہائش کی بکنگ کے بغیر کبھی نہ جائیں ورنہ فیملی والا بندہ خوار ہو جاتا ہے- ‎ ہمارا پہلا پڑاؤ اور رات کا قیام 9200 فٹ بلندی پر مالم ( ملم) جبہ میں تھا جبکہ دو راتیں کالام میں گزریں جس کی بلندی 6500 فٹ کے لگ بھگ ہے جبکہ ایک شاہی باغ میں گذرا جس کی بلندی دس ہزار فٹ سے زیادہ ہے - واپسی کا قیام دوبارہ مالم جبہ میں تھا-
سوات کی ساری ویلی مخلوط تہذیب و تمدن اور قدرتی حسن سے مالا مال ہے - میں کسی حصے کو کسی پر ترجیح نہیں دے سکتا - اس کا تعلق دیکھنے والی آنکھوں سے ہے- کھانے پینے کے لحاظ سے دوران سفر “ ڈرائیور ہو ٹلوں” میں تازہ دال آملیٹ ، اگر چشمے زیادہ لینے ہوں ہو تو کڑائ چکن یا کڑائ گوشت کھائیں جو تازہ پکتا ہے ، لیکن اس میں وقت بہت ضائع ہوتا ہے - منر ل واٹر کے بجائے مقامی چشموں کا پانی پئیں جو ہاضمے کے ٹانک کی حیثیت رکھتا ہے- مقامی لوگوں کے بقول مالا کنڈ ڈویژن کے لوگ دیو بند مکتب فکر کے ہیں- جمعیت علماۓ کے مدرسے زیاد دیکھنے میں آئے لیکن لوگوں کی غالب اکثریت ووٹ عمران خان کو دیتے ہیں -
واپس کریں