دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہندوستانی آئین کی دفعہ 370/35A کی پانچویں برسی
منظور حسین گیلانی
منظور حسین گیلانی
جسٹس( ر) سید منظور حسین گیلانی

ہندوستانی آئین کی دفعہ 370 ، مہاراجہ ہری سنگھ کے ہندوستان کے ساتھ مبینہ الحاق نامہ 26 اکتوبر 1947 کی بنیاد پر رکھی گئ تھی جس کے تحت ہندوستان کے ساتھ دفاع، امور خارجہ ، امور مواصلات اور کرنسی کی حد تک الحاق کیا گیا تھا اور باقی سارے امور مہاراجہ کشمیر نے ریاست کے پاس رکھے تھے - تاہم الحاق نامہ میں شامل امور کا اطلاق ہندوستان کے صدر ریاستی حکومت کی مشاورت سے کرنے کے مجاز تھے اور جو امور الحاق نامہ میں شامل نہ ہوں ان کے اطلاق کی صورت میں ریاستی حکومت کی رضا مندی لازمی تھی - دفعہ 370 کو ریاستی آئین ساز اسمبلی کی سفارش پر صدر ہندوستان منسوخ کرنے کے بھی مجاز تھے - ہندوستان کی حکومت نے دفعہ 370 کا ریاست جموں و کشمیر پر 26 جنوری 1950 کو اطلاق کیا جس دن ہندوستان کے آئین کا پورے ملک پر اطلاق کیا گیا تھا اور اسی دن کو ہندوستان کے یوم جمہوریہ کے طور بھی منایا جاتا ہے - دفعہ 370 کے اطلا ق کی بناء پر ہی اسی دن ہندوستان کے آئین کے دفعہ ایک کا بھی ریاست پر اطلاق کیا گیا جس کے تحت ریاست کو ہندوستان کا حصہ اور صوبائ درجہ بھی دیاگیا - دفعہ 370 کو تو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا حامل قرار دیا جاتا ہے لیکن جس ہیرا پھیری سے الحاق نامہ سے ھٹ کے بھی ہندوستانی آئین کی دوسری دفعات کے ریاست پر اطلاق کی بنیاد اور صدر ہندوستان کو رکھی گئ اور ساتھ ہی ہندوستان کے صدر کو اس کی منسوخی کا بھی اختیار دیا گیا وہی در اصل 5 اگست 2019 کو ریاست کے تشخص اور ریاست کی تحلیل کی بنیاد بھی تھا -

شیخ محمد عبداللہ مرحوم کو 1953 میں ہندوستان نے ریاست کی وزارت عظمی سے معزول کرکے نظر بند کردیا اور بخشی غلام محمد کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا -ریاست کی آئین ساز اسمبلی کے زریعہ سال 1954 میں آئینی ترمیمی حکم کے تحت ہندوستان کے آئین کی وہ ساری دفعات اور 97 مرکزی امور میں سے 95 جو الحاق نامہ اور مرکزی حکومت کے اختیار میں تھے ضروری ترامیم کے ساتھ نافذ کئے گئے جس میں دفعہ 35A بھی شامل تھی- یاد رہے کہ دفعہ 35A پارلیمنٹ کے زریعہ نہیں بلکہ صدارتی حکم کے زریعہ نافذ کی گئ تھی- مہاراجہ کے الحاق نامہ کی تو ثیق بھی کرائ گئ لیکن دفعہ 370 کی بحالی یا منسوخی کی سفارش کئے بغیر آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا گیا ، جس کا بہ الفاظ دیگر یہ معنی لئے جاتے رہے کہ اب اس دفعہ اور اس وقت تک نافذ کردہ مزید کسی آئینی دفعہ کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا نہ دفعہ 370 کو منسوخ کیا جا سکتا ہے کیونکہ آئین ساز اسمبلی کا وجود ہی ختم ہو گیا تھا - لیکن اس کے باوجود 2019 تک ہندوستان نے 44 صدارتی احکامات کے زریعہ ریاستی حکومت کی رضا مندی سے ہندوستان کی متعدد دیگر دفعات کا نفاظ بھی کیا -

ہندوستان میں کانگریس اور جنوب کی لیڈرشپ مجموعی طور لبرل ہے کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ ملک کی آزادی تحریک چلائ تھی اور ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ بھی کانگرس کے قبول کرنے پہ ممکن ہوا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستان کی تقسیم کا ان کو دکھ نہیین تھا اور وہ اس طاق میں نہیں تھے کہ اس کا خاتمہ ہو - کشمیر پر تو پنڈت نہروں کشمیر نژاد ہونے کی وجہ سے فریفتہ تھا - بہلانے اور سلگانے کا سارا تانا بانا بھی اس کے وقت سے بنتا چلتا آرہا تھا - کانگرس کی حکومت کے ہی ایک وزیر گلزاری لال نندہ نے پارلیمنٹ میں دفعہ 370 پر کہا تھا” یہ کوئ دیوار نہیں بلکہ ایک ٹنل ہے جس کے زریعہ بہت ساری ٹرانسپورٹ کشمیر میں داخل ہو گئی ہے اور باقی داخل ہوکر کشمیر اور ہندوستان ایک ہونگے “- بی جے پی نے باقی ٹرانسپورٹ 5 اگست 2019 کو داخل کر کے کانگرسی وزیر کے فرمان کی تکمیل کردی -

میرے ادراک کے مطابق دفعہ 370 بذات خود ایک پھندہ تھا جسے کے زریعہ کشمیر یوں کو بہلایا گیا اور 35A کے تحت کشمیریوں کو مقامی حقوق اور شناخت کے نام پر ہندوستان میں خاص مقام دینے کا دھوکہ دیا گیا - 5 اگست 2019 کی واردات کی ابتدا بھی ان ہی دفعات میں مضمر تھی جس کے لئے وقت کا انتظار تھا - بی جے پی کے آئین اور 2014 کے انتخابی منشور میں دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کے ہندوستان میں مکمل تحلیل کا 26 جنوری 1950 سے ہی اعادہ چلا آرہا تھا لیکن 2014 میں ہندوستان میں نریندرہ مودی کی سربراہی میں حکومت بننے کے بعد اس خواب کی تعبیر کے دن قریب تر آتے گئے جس کی تعبیر کی ابتداء کشمیر میں دسمبر 2014 کے اسمبلی الیکشن میں مفتی محمد سعید مرحوم کی جماعت پی ڈی پی کو 28, بی جے پی کو 25 ، فاروق عبد اللہ کی نیشنل کانفرنس کو 15 اور کانگرس کو 12 نشستیں ملیں - کسی جماعت کو اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے 28 دسمبر کو کشمیر میں گورنر راج نافذ کیا گیا - اس عرصہ کے دوران مفتی سعید کی پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان حکومت بنانے کے لئے اتحاد ہوا جس کے نتیجے میں یکم مارچ 2015 کو مفتی سعید وزیراعلی مقرر ہوئے لیکن 7 جنوری 2016 کو مفتی صاحب وفات پاگئے اور 8 جنوری کو ریاست میں دوبارہ گورنر راج نافذ ہوا جس کے بعد مفتی صاحب کی بیٹی محبوبہ مفتی اور بی جے پی کے درمیان دوبارہ اتحاد کی صورت میں 4 اپریل 2016 کو محبوبہ مفتی نے وزارت اعلیٰ کا حلف لیا لیکن شروع دن سے ہی یہ انتشار کا شکار رہا اور 19 جون کو بی جے پی نے اتحاد ختم کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد ریاست دوبارہ گورنر رول کا شکار ہوگئ ، اس کے بعد صدارتی راج سال 2019 سے آج تک چلا آرہا ہے -

ریاست کے دونوں حصوں میں کوئ بھی جماعت یا حکومت مرکزی حکومت کی مرضی یا اس کے اتحاد اور معاونت سے نہیں بنتی - ریاست کے دونوں حصوں میں نیشنلسٹ سوچ کے لوگوں کا خیال ہے کہ مرکز ریاست کے لوگوں پر اعتماد نہیں کرتا اس لئے کسی بھی مقامی جماعت یا حکومت کو اپنے زوروں پر حکومت نہیں کرنے دیتا - میرا خیال زرا مختلف ہے کہ تعمیر وترقی ، بجٹ ، دفاع اور کئ دوسرے معاملات چونکہ مرکز کے اختیار میں ہوتے ہیں اس لئے کوئ بھی مقامی حکومت مرکز کو اپنے ساتھ ملانا یا اس کو حصہ دار بنائے بغیر چلانا ممکن نہیں سمجھتی اسی لئے مرکز میں حکومت سے اتحاد کرتی ہے اسی وجہ سے پی ڈی پی نے مرکز کی پی ڈی پی حکومت سے اتحاد کیا حالانکہ کانگرس اور نیشنل کانفرنس کے ساتھ مل کے حکومت بنا اور چلا سکتی تھی - میرے خیال میں پی ڈی پی نے ان سے اتحاد نہ کر کے دفعہ 370 اور 35A کے ختم کرنے اور ریاست کی تحلیل کی نادانستہ طور فحش ترین غلطی کی جس کا خمیازہ آج کشمیری بھگت رہے ہیںُ- جب پی جے پی کے منشور میں یہ بات شامل تھی اور اس کی الیکشن کمپین بھی یہی تھی ، اس کے باوجود اس کے جھانسے میں آکر بی جے پی کو ریاست میں پاؤں جمانے کا موقعہ دینا حماقت سے کم نہیں تھا-

بی جے پیُ نے اپنے منشور کو عملی جامعہ پہنانے کےلئے انتہائ راز داری سے ساری تیاری مکمل کی تھی - ریاست میں خصوصی حیثیت سے بنائے گئے آئینی، قانونی اور انتظامی نظام کو بدلنے کا قانونی فریم ورک تیار کر کھا تھا -اس موقع سے بھر پور موقع اٹھا کر 5 اگست 2019 کو دفعہ 370 کے تحت ہی صدارتی حکم نامہ کو منسوخ کر کے لوک سبھا سے ایک قرار داد کے زریعہ اس کی تو ثیق بھی کرائ اور ریاست کی تشکیل نو کا بل بھی پاس کرایا ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے لداخ اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام الگ دو Union Teritories میں تقسیم کردیا جن کا نظم و نسق لیفٹیننٹ گورنر کے زریعہ اپنے کنٹرول میں لے لیا - بی جے پی اور نریندرا مودی نے اس آئینی واردات کے جواز میں یہ دلیل پیش کی تھی “ یہ دو دفعات ریاست کی تعمیر وترقی اور اقتصادی خوشحالی میں رکاوٹ تھیں، ان کی وجہ سے خاندانی حکمرانی اور کرپشن کو فروغ ملا ہے اور دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کو پروان چڑھایا ہے -“ اس بیانئے سے ہندوستان بھر میں بی جے پی کو پذیرائ ملی اور جموں اور لداخ میں بھی ملا جلا رد عمل رہا لیکن وادئ کشمیر میں ، ہندوستان نواز مقامی جماعتوں سمیت شدید رد عمل ہو -

اس واردات سے پہلے ہی وادی کو فوج کے حوالہ کردیا گیا تھا- ہر بڑے چھوٹے لیڈر کو یا تو جیل بھیج دیا گیا تھا یا گھروں میں نظر بند کردیا گیا تھا - وادی میں کرفیو ہی نہیں مارشل لاء جیسی کیفیت پیدا کر کے خوف و حارث پیدا کردیا گیا تھا - اس کے باوجود ہندوستان نواز اور علحدگی اور آزادی پسند لیڈروں اور ورکرز نے اس کے خلاف مختلف انداز میں مزاہمت کی جس کا بئین ثبوت حالیہ پارلیمانی الیکشن میں وادئ کشمیر میں بی جے پی کسی امیدوار کہ نہ صرف کھڑا نہیں کر سکی بلکہ وادی کی تین اور لداخ کی نشست سے مقامی جماعتوں کے امیدوار لاکھوں ووٹ لیکر جیتے ، بلکہ ایک آزاد ی نواز ممبر عبد الرشید انجینئر جیل میں رہتے ہوئے الیکشن جیتا جس کا پارلیمانی حلقہ انتخاب چودہ اسبلی کی نشستوں پر محیط ہے - ان د فعات کو منسوخ کرنے کی وجوہات میں سے ایک بھی وجہ زمینی حقائق کے مغائر ہی نہیں بلکہ اس کے بر عکس نکلی- وادئ کشمیر میں تعمیر وترقی کا کوئ دور س اہمیت کا م نہیں ہوا- بیروز گاری تیس فیصد سے زیادہ بڑھ گئ ہے - اسمبلی 2018 آج تک معطل چلی آرہی ہے - کشمیر کی مشہور پیداوار میوہ جات پر بر آمدید ڈیٹی بڑھا کر کشمیریوں کو مہاراجہ پرتاب سنگھ کے زمانے سے زیادہ برے حالات سے۔ دوچار کردیا ہے - زعفران کی پیداوار تیس فیصد سے زیادہ گھٹ گئ ہے - کشمیر وادی میں پہلے سے زیادہ ہندوستان مخالف جذبات بڑھ گئے ہیں - ملی ٹینسی بھی ختم نہیں ہوئ ہے بلکہ جموں کے پر امن علاقوں میں پھیل گئ ہے اور گزشتہ چند ماہ میں افسروں سمیت کئ فوجی آفسر مارے گئے ہیں - انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ،پریس پر پابندیاں تو پہلے سے زیادہ بڑ ھ گئ ہیں -

چند دن پہلے بھارت کی بیس نام ور شخصیات جو ریٹائر ڈ ججوں، َ بیرو کریٹس ، فوجی آفیسروں اور سوشل سائینسٹس پرمشتعمل ہے نے ایک مشترکہ رپورٹ میںن حیران کن انکشاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “ پانچ سال قبل لئے گئے اس فیصلے نے ریاست جموں کشمیر کو ایک غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے-“ مودی کی مسلمان دشمنی اور کشمیر میں اس کی انتہا کے باوجود ہندوستان میں لبرل سوچ کے حامیوں نے مودی کو 2024 کے الیکشن میں اکثریتی حکومت بنانے کے قابل نہ سمجھ کر اس کے “ کی بار چار سوچار “ کے بجائے صرف 240 نشستیں دے کر اکثریتی حکومت بنانے سے محروم کردیا ہے -

بی جے پی اور نر یندرہ مودی اپنی اسلام ، مسلمان اور کشمیر دشنی کی احمقانہٗ سوچ کے بوجھ تلے تو خود ہی دبتا جارہا ہے، لیکن ہم نے کشمیر کو آزاد کرا کے پاکستان کے ساتھ شامل کرنے اور 2019 کی واردات کی صورت میں ریاست ، بلخصوص وادی کشمیر کے مسلمانوں کی کیا مدد کر سکے ؟ سوائے نعرہ بازی، جلسہ جلوس اور ہندوستان کو بد دعائیں دینے ، چھٹیاں منانے کے کیا اور کیا کر سکتے؟ کشمیر کا مسئلہ حل کروانے ، مسلمانوں کو اس ظلم سے بچانے کے لئے سیاسی جماعتوذُ اور اداروں ، پاکستان کے سارے صوبوں کے اندر یکجہتی، سیاسی اور حکومتی نظام میں استحکام ، اقتصادی خوشحالی اور سفارتی اثر و رسول بڑھانے کے اور کوئ شارٹ کٹ نہیں - دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر پاکستان کو بھی کشمیر پر مقصد بدلے بغیر ، اس کے حصول کے لئے حکمت عملی بدلنا پڑے گی-
واپس کریں