دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر عبوری صوبہ
منظور حسین گیلانی
منظور حسین گیلانی
چند دن پہلے آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس کے مقبول عام نعرے “ کشمیر بنے گا پاکستان “ کے ساتھ میں نے فیس بک پر ایک پوسٹ یوں چڑھائ تھی “ واہ کیا منطق ہے ؟ کشمیر بنے گا پاکستان، لیکن آزاد کشمیر کو پاکستان نہیں بننے دیں گے، کیونکہ یہ روز گا کا مسئلہ ہے” اس پر برادر عزیز راجہ زکی جبار صاحب ایڈوکیٹ نے فیس بک پر ہی صوبہ بنانے کے خلاف اپنے دلائل کے ساتھ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے حوالے سے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا - ان کے حق میں اور خلاف احباب نے بھرپور حصہ لیا - ان کا موقف یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک اکائ ہے اس کا فیصلہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے زریعہ ہی ہو سکتا ہے اور جب تک سارا کشمیر آزاد ہوکے یہ فیصلہ نہ کرے آزاد کشمیر کو صوبہ نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ یہ تقسیم کشمیر کے مترادف ہے - اس سوچ کے برعکس خود مختار کشمیر کے حامی دوستوں کی مانگ غیر مبہم اور واضع لیکن زمینی حالات کی روشنی میں نا ممکن - زکی جبار صاحب نے جو کچھ لکھا ہے یہ ایک مکتب فکر کی رائے ہے اور یہ اس معاملہ کا ایک اہم پہلو بھی ہے - مسلم کانفرنس کی زیر اثر جتنی پود بھی پروان چڑھی ہے ان کی رائے زیادہ تر یہی ہے ، جو ان سے الگ ہوکے دیگر جماعتوں کا حصہ بنے ان کا وژن مختلف ہے ، لیکن ان میں سے جو ایسی جماعتوں کا حصہ بن کر اقتدار کے کوریڈورز سے جڑی ہیں وہ بھی صوبہ بنائے جانے کے خلاف اور صورت حال بحال رکھنے کے حق میں ہیں کیونکہ وہ اس بے سمت نظام کے بینیفشری ہیں Beneficiary ہیں -

جہاں تک ساری ریاست جموں و کشمیر ایک اکائ ہے کا تعلق ہے ، یہ بھی ایک واہمہ ہے - سوائے جموں کے اس ساری ریاست کے حصے جبر سے اکٹھے کئے گئے تھے جن کے درمیان کبھی ھم آہنگی نہیں رہی اور نہ جموں کے علاقے کے علاوہ کسی نے ڈوگرہ کو جائز حکمران سمجھا - اس وقت بھی یہی صورت حال ہے کہ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان پاکستان سے اور جموں و لداخ ہندوستان سے پیوست ہیں جبکہ روائیتی “کشمیر “حالت جنگ میں ہے - کشمیر کی آبادی کی غالب اکثریت خود مختار کشمیر کی حامی اور باقی آبادی ہندوستان اور پاکستان کی ترجیحات میں بٹی ہے -کشمیر صرف یہی ہے اور صرف یہی حل طلب ہے - ریاست کے باقی سارے حصے ان ملکوں کے عملی طور حصہ ہیں - آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان والے اجتماعی اور انفرادی طور ڈوگرہ سے آزادی کا کریڈٹ لیتے ہیں جبکہ اسی خطے کے چند لوگ پھر وہی ریاست بحال کرنے کے مختلف انداز میں خواہاں ہیں جبکہ سیاسی طور مقتدر طبقہ اسی حال کو بحال رکھنے کے لئے آخری جنگ لڑ رہے ہیں - مجھے تو یہ فکری تضاد لگتا ہے، کوئ نظریہ نہیں ہے-

میں بدلتی ہوئ دنیا کے حالات کے پس منظر میں ہمیشہ سے اس خیال کا حامی رہاہوں کہ پاکستان کو ہندوستان کے ساتھ دوست مسلم ممالک کی مدد سے زمینی حالات کی روشنی میں اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرنا چاھئے ، جو نکل بھی سکتا ہے ، جس کی روشنی میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنے آئین میں الگ الگ صوبے کے طور شامل کرنا چاھئے - لیکن جب تک کوئ حل نہیں نکلتا پوری ریاست کو اپنے آئین میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نتائج کے تابع اپنا متنازعہ حصہ شامل کر کے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتعمل جو علاقے پاکستان کے زیر انتظام چلے آرہے ہیں زمینی حقائق کی روشنی میں ان کو سپیشل صوبے کے طور پاکستان میں شامل کرنا چاھئے -

چہتر سالہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ سلامتی کونسل کے کمیشن کے تحت ۱۹۴۹ میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ریاست میں جو جنگ بندی لائین قائم ہوئ ہے وہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ ہے جس کو ڈنڈے کے زور پر دونوں ملکوں سے یہ منوایا جا رہا ہے - تاشقند معاہدہ ہو ، شملہ یا کرگل معاہدے ، لاھور، اسلام آباد ، آگرہ یا دہلی ڈیکلریشنز یہ سب اس کے آس پاس گھو متے ہیں - جب تک پہلی اور دوسری جنگ عظیم یا اس کے بعد بین الاقوامی دباؤ کے تحت دنیا کے نقشے کو تبدیل کرنے کا بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ فیصلہ نہیں کرتی ، سلامتی کونسل کی ان قرار دادوں پر کسی نے عمل نہیں کرنا یا کرانا ، تاہم جب تک ان کو سلامتی کونسل منسوخ نہ کرے یہ قائم بھی رہیں گی یا یہ دو ملک اپنے اپنے موقف کے مطابق اسرائیل کی طرح جارحیت سے اس کو بدل سکتی ہیں جو دونوں کے ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں - اس لئے پاکستان اپنے قومی سلامتی اور ان علاقوں کے بہترین مفاد میں اپنے آئین میں سپیشل حصے کے طور شامل کرکے یہاں کے لوگوں کو باقی صوبوں کی طرح مرکز کے تمام پالیسی ساز ، فیصلہ اور قانوں ساز ادروں میں نمائندگی دے کے نیمے دروں نیمے بروں والی پالیسی سے باہر نکلے- سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت صرف دو ہی آپشنز ہیں ، ایک ملک نے تو وہ اپنا لیا ہے ، دوسرے کی ان علاقوں اور ان علاقے کے لوگوں کی اس ملک میں کیا حیثیت ہے ؟ یہ لمحہ فکریہ ہے -
مسلم کانفرنس نے آزاد کشمیر میں الیکشن کے پراسس کی بھر پور مخالفت کی تھی کہ اس سے کشمیر کا مسئلہ متاثر ہوگا جس کے پس پردہ وجہ یہ تھی کہ ۱۹۴۷ سے ۱۹۶۰ تک آزاد کشمیر کی حکومتیں بنانا ، توڑنا اور چلانے کا کلی اختیار مسلم کانفرنس اور منسٹری کشمیر افئیرس کے گھٹ جوڑ سے ہوتا تھا ، جس کے بعد پاکستان میں ایوب خان کی بنیادی جمہوریتوں کے منتخب نمائیندوں کے زریعہ ووٹ کی بنیاد پر پڑا - لیکن ۱۹۷۰ میں جب صدارتی الیکش ہوئے اور مسلم کانفرنس کے لیڈر سردار عبد القیوم خان مرحوم آزاد کشمیر کی عوامی رائے سے صدر منتخب ہوئے تو اس نظام کی افادیت کا احساس ہوا - لیکن اس کے ساتھ ہی " کشمیر بنے گا پاکستان “ کا منترا شروع ہوا جس کی تشریح اس طرح کی جانے لگی کہ “ جب ساری ریاست آزاد ہوگی پھر پاکستان سے الحاق ہوگا، کٹ مریں گے لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بننیں دیں گے “- جبکہ اس سے پہلے گلگت بلتستان سے پاکستان کے حق میں دستبرداری دے دی تھی - اس کے بعد اپنی حکومت کے دوران یکے بعد دیگرے ١٩۷۱ اور ۱۹۸۸ نو ٹیفکیشن جاری کرائے جس کےتحت آآزد کشمیر کو صوبوں کے برابر treat کیئے جانے کی ہدایت کی گئ اور یہ سلسلہ جاری ہے - یہ بات ریکارڈ پر ہی نہیں بلکہ سابق وزیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب نے مجھے خود بتائ کہ یہ نوٹیفکیشنز سردار صاحب کی مشاورت سے کئے گئے ہیں - سردار صاحب مرحوم نے مجھے خود بتایا تھا ایکٹ ۱۹۷۰ اور ۱۹۷۴ میں الحاق پاکستان کی شق بھی میرے کہنے پر ڈالی گئ -

مسلم کانفرنس کی اجارہ داری ختم ہونے اور پاکستانی قومی جماعتوں کی آزاد کشمیر میں توسیع کے بعد آزاد کشمیر میں حکومت سازی کے عمل نے دوسرا رخ اختیار کر لیا جس کے تحت جس سیاسی جماعت کی اسلام آباد میں حکومت ہوتی ہے اسی کی اور اسی طرز پر آزاد کشمیر میں بھی حکومت بن جاتی - حکومت سازی کا لیور Lever (مرکز) بہت حال اسلام آباد والی حکومت ہی ہوتی ہے - پاکستان نے تو سلامتی کونسل کا آپشن اس وقت ہی بند کردیا تھا جب آزاد کشمیر کے آئین میں صرف الحاق پاکستان کی شرط رکھی تھی جبکہ سلامتی کونسل کے تحت انڈیا بھی ایک آپشن ہے - ہندوستان نے دو قدم آگے بڑھ کے پوری ریاست کو ہی اپنے آئین میں اپنا حصہ بنا کے صوبہ بنا دیا تھا ، ۲۰۱۹ کے اقدام کے تحت تو اس کی پرچھائ بھی ختم کردی گئ -

آزاد کشمیر کے آئینی نظام کو24 اکتوبر 1947 کے تحت ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور استوار کیا گیا تھا لیکن اپریل 1949 میں کراچی معاہدہ کے تحت گلگت بلتستان کو پاکستان کے سپرد اور آزاد کشمیر کو پاکستان حکومت کے زیر انتظام کر دیا گیا - آج تک حکومت پاکستان آزاد کشمیر کی حکومت کو پہلے بلدیاتی نظام تشکیل کردہ حکومت، پھر براہ راست صدارتی، پارلیمانی ، دو بار فوجی نظام کے تحت چلا رہا ہے جس کے لئے 1960-64-68-70 اور 74 کے ایکٹ حکومت پاکستان نے ہی نافذ کئے - آزاد کشمیر کا نظام ان سارے معاملات میں حکومتوں پاکستان کے قانوں کا پابند ہے جو فیڈرل سبجکٹ ہیں اور تیرویں ترمیم کے تحت یہ براہ راست پاکستان کو دے دئے گئے ہیں -لیکن باقی انتظامی یونٹس کے بر عکس آزاد کشمیر نہ ان معاملات کی پالیسی سازی میں نہ فیصلہ اور نہ ہی قانون سازی میں حصہ دار ہیں ، لیکن عملی طور زمہ داریوں اور فرائض کی حد تک پاکستان کے صوبوں کے مماثل ہانکا جارہا ہے -

میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کو محض ایک عالمی رائے، صائب مشورہ ، نصیحت ، way forword یا اس زمانے کے حالات کے پس منظر میں ترکیب سمجھتا ہوں جب ہندوستان کی تقسیم بھی ہوئ تھی ، تقسیم کے اصول بھی طے ہوئے تھے جن میں ریفرنڈم اور ثالثی بھی شامل تھی - وقت کے گذرنے کے ساتھ یہ اصول بے اثر ہی نہیں بلکہ دنیا کے طاقت ور سیاسی بلاکوں کے نظر ہوکر Obsolete ہوگئے- سلامتی کونسل کی قرار دادیں جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کی طرح لازمی طور قابل نفاظ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ماننے نہ ماننے کا حق فریقین کے پاس ہے جو اس کے قانونی طور نہیں اخلاقی طور پابند ہیں - ہندوستان نے تو اس کو مکمل طور مسترد کر دیا اور الحاق نامے کی بنیاد پر آگے بڑھتا جارہا ہے ، 2019 میں تو ان کا جنازہ بھی پڑھ دیا اور ہم تماشا دیکھتے رہے - لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسئلہ ختم ہوگیا - مسئلہ تب تک موجود رہے گا جب تک ہندوستان، پاکستان اور ریاست کے لوگ اس کے کسی نہ کسی حل پر متفق ہونگے لیکن وہ حل اس زمانے کے حالات کے مطابق ہوگا ۱۹۴۷ کے حالات کے پس منظر میں نہیں، اور ہوگا بھی بات چیت سے ، سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو دونوں ملکوں نے تاشقد اور شملہ معاہدہ کے تحت باہمی بات چیت میں بدل دیا ہے -

حیران کن بات یہ ہے کہ ہندوستان نے ریاست کے لوگوں کو مکمل اونر شپ دے دی ہے جس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی شامل ہیں ، لیکن پاکستان کی حکومت نے دو ہفتے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ آزاد کشمیر فارن ٹیریٹری ہے پاکستان کا حصہ نہیں جبکہ الحاق پاکستان کا حلف اٹھا نا آزاد کشمیر کے ہر ریاستی باشندے کی زمہ داری ہے - پوری ریاست پر مجموعی طور اور اپنے زیر انتظام علاقوں کو آئین کے تحت کوئ مقام نہ دے کر ہندوستان کے لئے ان علاقوں پر پاکستان کو ناجائز قابض کی لائن میں اور اپنے آئین کے بل بوتے پر ان کا جائز حقدار ہونے کی لائین میں لا کھڑا کیا ہے جس کو الحاقی جماعتیں نا دانستہ طور پروان چڑ ھا رہی ہیں - جولائ 1949 کا UNCIP کے زیر اھتمام کراچی معاہدہ جس کے تحت لائنیں کھینچ کر موقعہ پر تقسیم کی گی ہے اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کو پاکستان ہائ کمان کے سپرد کیا ہے- اسی ہائ کمان نے آزاد کشمیر پر وقتآ فوقتآ سارے آئینی ایکٹ نافذ کئے ہیں - سلامتی کونسل کی قرار دادوں نے دونوں ملکوں نے خلاف ورزیاں کی ہیں - اس وقت دو ملکوں کے درمیان صرف شملہ معاہدہ ہی متفق علیہ ہے گوکہ ہندوستان نے اس کی بھی خلاف ورزی کی ہے لیکن منسوخ نہیں کیا ہے جس کے حوالے سے بات چیت کی گنجائش کھلی چھوڑی ہے-

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان عملی طور پاکستان کے حصہ ہیں ، لیکن پاکستانی دیگر حصوں کے برابر نہیں ، صرف زمہ داریوں کی حد تک ہیں حقوق کی حد تک نہیں - جبکہ مقبوضہ کشمیر ہندوستان کے آئین کے اندر اور اس کے صوبوں کے برابر زمہ داریاں اور حقوق رکھتا ہے لیکن مقامی شناخت اور حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے - سال 1947 میں پیدا ہونے والے مسائل اس زمانے کے حالات کے پس منظر میں پیدا ہوئے تھے اب دنیا اور زمانہ بدل گیا ہے اب ان مسائل کو اس زمانے کی زمینی حقائق اور عالمی حالات کے مطابق حل کیا جا سکتا ہے - ہمارے پاس دو آپشن ہین ؛

۱- دوست ممالک کے زریعہ ہندوستان کو بات چیت پر تیار کر کے زمینی حقائق کے مطابق حل نکالا جائے جس پر وادی کشمیر کے لوگ بلخصوص اور باقی حصوں کے لوگ مطمئن ہوں - تحریک حریت اور تحریک مزاحمت صرف وادی کے اندر ہے باقی سب خطے ان ملکوں سے مطمئن ہیں جن میں ان کے علاقے ہیں اور ان کے ساتھ الحاق کے لئے عہد بند ہیں- آبادی کے اعتبار سے صرف وادی والے مضطرب ، باقی کوئ حصہ نہ تھا اور نہ ہے - ریاست جموں و کشمیر ایک واہمہ ہے جس کی تشکیل ایک سازش جبر اور بندوق کے عمل میں لائ گی تھی ریاست بن گئ لیکن اور اسی طور چلائ بھی گئ ، جب ہندوستان کی تقسیم سے یہ جبر بھی ختم ہوا سوائے جموں کے ڈھائ ضلعوں کے، سب نے سکھ کا سانس لیا- اگر ان حصوں میں ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے لئے acceptance پیدا ہوئ ہوتی ، میں بھی اس ریاست کی بحالی میں شامل ہوتا ، جو نہ کبھی رہی ، نہ ہے اور نہ ہوگی -
۲- اگر ہندوستان یہ بھی ممکن نہیں ہونے دیتا تو پاکستان کو اپنے آئین میں ترمیم کرکے پوری ریاست کو یو این چارٹر کے تحت حتمی فیصلہ ہونے تک اپنا حصہ کے طور شامل کرے اور اپنے ہی آئین میں خصوصی چیپٹر کے تحت آزاد کشمیر اور گلگت کو صوبوں کے مطابق حقوق اور اختیار دے، جب مسئلہ حتمی طور حل ہوگا تو اس ارینجمنٹ کو افہام و تفہیم سے نئی صورت دی جاسکتی ہے -

اس کا ایسے ہی رہنا پاکستان اور آزاد کشمیر و گلگت و بلتستان کی سلامتی کے خلاف سنگین خطرح ہے - میں الحاقی ، لیکن پاکستان سے آئین گریز اور خود مختار ی کے حامی دوستوں کو درج بالا اور بے شمار نا گفتہ بہ جوہات کی بناء پر دعوت فکر دیتا ہوں کہ ریاست کے ان آزاد علاقوں اور پاکستان کو کسی بڑی آزمائش میں ڈالے بغیر زمینی حقائق پر مبنی حتمی اور حتمی ہونے تک ، عبوری حل نکالنے میں مدد کریں تاکہ وادئی کشمیر کو انسانی ، تہذیبی اور معاشی قتل گاہ بننے سے بچا سکیں اور پاکستان کے زیر انتظام علاقے اپنے ہم پلہ پاکستانیوں کے برابر ہو سکیں ، محکوموں والی کیفیت سے نکلیں - اس کا ادراک کریں -

واپس کریں