دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جج ، ایجنسیاں ، آپ بیتی اور سپریم کورٹ
جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
جسٹس (ر) منظور گیلانی
اسلام آباد ہاء کو رٹ کے چھ جج صاحبان کی چیف جسٹس پاکستان کو انتظامیہ ، بلخصوص سلامتی سے متعلق ایجنسیوں کی عدالتی معاملات میں مداخلت ، ججوں اور ان کے اعزا کو حراساں کرنے والا خط تشویش ناک صورت حال ہے - پاکستان کو کبھی سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوا- فوجی مداخلت اور مارشل لا کے نفاظ نے فوج کو پاکستان کی سیاست کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے - حکومتوں کے بدلنے ، بگاڑنے اور بنانے میں فوجی اداروں کا بلواسطہ اور بلا واسطہ اہم کردار رہا ہے اور ہے - میں بہت دور کی بات نہیں کرتا صرف 2018 اور 2024 کے الیکشن میں اٹھارہ سال تک کے ہر بالغ ووٹر اور سن شعور والے ہر نوجوان کو ان انتخابات میں فوجی ایجنسیوں کے کردار سے کون واقف نہیں - 2018 کے انتخاب میں تو مادر زاد برہنہ کے طور عمران خان کے حق میں جنونی کمپین چلاء گء - مشرف کے دور سے اس کی ابتدا عدلیہ کے ادارے کی سیاسی تطہیر سے ہوء جس میں تابعداری عہدے پر بر قرار رہنے کی شرط ٹھہری - ، اس سے پہلے بھی ایسا ہوا لیکن وہ فوجی حکومتوں کے راستے میں رکاوٹ کے خدشہ کی وجہ سے تطہیر ہی تھی لیکن انفرادی طور ججوں کے بیڈ روم اور عدالتی کمروں تک پہنچنا افسوس ناک الزام ہے - اس کے اثرات ججوں اور عدالتوں تک کیسے پہنچے یہ حیرانگی کی بات ہے - ملکی دفاعی مفاد پر نظر رکھنا ، سب گن لگانا بے شک حساس ایجنسیاں اور وزارت خارجہ کی اولین زمہ داری ہے لیکن ملکی مفاد میں آئین اور قانون کا نفاظ بھی ہے جو سول انتظامیہ اور عدالتوں کی زمہ داری اور استحقاق ہے ان سے کسی فریق کے حق میں یا خلاف اپنی مرضی سے قومی سلامتی یا مفاد قرار دے کر فیصلہ کے لئے دبا ڈالنا انہونی ہے ، کہاں کا قومی مفاد ہے ؟

میرا آزاد کشمیر کے بے ڈھول سیاسی نظام میں عدلیہ کے اندر تقریبآ بیس سال کا تجربہ ہے - میں حلفآ کہہ سکتا ہوں کہ سوائے ایک موقعہ کے میرے کسی کام میں کبھی مجھ تک نہ کسی نے رساء کی اور نہ ہی مداخلت - وہ ایک موقعہ یوں تھا کہ 2002-3 میں ہاء کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لئے پینل بھیجنے تھے جس میں ایک نام شامل کرنے کے لئے مجھے جنرل مشرف مرحوم کے ملٹری سیکریٹری سید شفاعت شاہ صاحب نے جنرل صاحب کی طرف کہا- میں نے اس سے کہا کہ جنرل صاحب سے پوچھ کے بتائیں وہ اس شخص کی پیشہ ورانہ دیانت سے زاتی طور واقف ہیں ؟ تھوڑی دیر بعد مجھے فون آیا کہ وہ زاتی طور واقف نہیں - اس پر میں نے جواب دیا تو پھر اس کا فیصلہ مجھ تک چھوڑیں - آء گء بات ہوگء اور اس کے بعد میرے تجویز کردہ ناموں میں سے ہی دو کی تقرری کی ہدایت کی منظوری ہوگئی۔

دو اور واقعات جو بلواسطہ کسی مقدمہ یا عدلیہ کے انتظامی معاملات سے متعلق نہیں تھے لیکن ان میں ایجنسیوں کا رول غالب تھا - ایک تو مرحوم سردار محمد عبد القیوم خان صاحب کا علما مشائخ نشست پر اسمبلی کا ممبر اور وزیر بننے کے خلاف رٹ کا تھا جو میرے پاس بطور ویکشن جج لگی تھی جس میں وزیر قانون اور میری اپنی فیملی کے لوگوں نے اس کو ابتداء سماعت پر خارج کرنے دوسرا قائم مقام وزیر اعظم کے خلاف غلط ٹھیکہ الاٹ کرنے پر ریمارکس کے حذف کرنے کا تھا، دونوں باتیں غلط تھیں اس لئے نہیں ہوسکیں - غیض و غضب کا شکار ہوکر ان لوگوں نے میرے خلاف سپریم جو ڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کردیا اور اس دوران میرے خلاف ہندوستانی ایجنسی کے پے رول پہ ہونے کی غلیظ کمپین چلاء جس سے میں یقینآ بہت پریشان ہوا - وطن دشمنی سے زیادہ غلیظ اور کوء الزام نہیں ہوسکتا - اس زمانے میں ایم آء کے ایک مقامی کرنل کا بیٹا جو میرے بیٹے کا کلاس فیلو تھا نے بیٹے کے زریعہ مجھے پیغام بھیجا کہ وہ ملنا چاھتے ہیں - وہ میری گھر تشریف لائے اور بلا تمہید کہا کہ اس پرو پیگنڈہ سے گھبرانے ضرورت نہیں ہے ، کل علی قلی خان جو ایم آء کے ڈی جی تھے مظفر آباد آرہے ہیں ، آپ چاھئیں تو ان سے آپ کی ملاقات کرائیں - ان سے میری ملاقات ہوء ، انہوں نے بھی ایسا ہی کہا اور سردا عبد القیوم خان صاحب کو فون کیا کہ انہیں بھی اس اکا ونٹ کا کوء ثبوت دیں ، سردار صاحب اس الزام کی نفعی کی - ادھر سے وکلا کا پریشر بڑھ گیا تھا جس وجہ سے مجبور ہوکر انہوں نے ریفرنس واپس لے لیا -

اس سے منسلک تیسرا واقعہ مجھ سے چھ سال جو نئیر جج کو ان کے حق میں الیکشن میں دھاندلی کے صلے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ بنانا تھا میں نے لائیٹ موڈ میں وکلا کے ساتھ تبصرہ کیا کہ یہ ایم آء کے جنرل ندیم اور مقامی بر گیڈئیر غضنفر کی ٹکٹوں کی پرو ڈکٹ اسمبلی ہے - اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری صاحب کے ریفرنس کے خلاف راولپنڈی میں وکلا کے احتجاج میں میری شرکت اور اپنی حق تلفی کے خلاف سپریم کورٹ پاکستان میں پٹشن پر بر انگیختہ ایجسی کے ایک بر گیڈئر نے گھر آکر کیا کہ مجھے اپنے کمانڈر اور ہاء آپس کا پیغام دیا کہ سپریم کورٹ پاکستان سے اپنی پٹشن واپس لیں اس سے ملک کی بد نامی ہوتی ہے - میرا ان کو جواب تھا کہ اگر اس لا قانونئیت اور نا انصافی سے کوء نیک نامی ہوء ہے تو بتائیں میں معافی بھی مانگوں گا ، ورنہ اس کو ٹھیک کریں میں پٹشن سپریم کورٹ پاکستان سے واپس لوں گا - بر گیڈئیر یہ جواب لے کے واپس چلے گئے- ان لوگوں کو جیسا کیا جاتا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں کہتے -

ان واقعات کے علاوہ 1992 سے 2004 تک حساس اداروں اور حکومت پاکستان کے خلاف تقریببآ سب کیس سماعت کے لئے میری پاس ہی پیش ہوتے رہے ، ان میں کبھی کسی ایجنسی یا حکومت پاکستان یا مقامی انتظامیہ نے کبھی اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی اور اکثر کے فیصلے ان کی خواہشات اور حکومت پاکستان کے خلاف ہو تے رہے کیونکہ نا انصافی بالا دست ہی کرتا ہے ، لیکن نہ کسی کو للکارا نہ کمزوری دکھای - میرے خیال میں میرے ساتھ عدم مداخلت کی وجہ ہی یہی رہی کہ میں نے اپنی حدود سے کبھی تجاوز نہیں کیا جس وجہ میرے حدود میں بھی کو ئی داخل نہیں ہوا - تاہم غالبآ کسی جگہ یہ بغض قائم رہا جس وجہ سے مجھے چیف جسٹس نہیں بننے دیا گیا - ان میں سے اکثر کا میں نیاپنی کتاب میزان زیست میں بہ تفصیل سے تذکرہ کیا ہے محض ریفرنس کے طور یہاں حوالہ دینا مناسب سمجھتا ہوں - راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے شوکت کشمیری نامی شخص کی حیبئیس کارپس Habeas corpus پٹشن پر میں نے اس متعلقہ ایجنسی کے خلاف نوٹس جاری کیا جس نے بے شمار لیت ولعل کے بعد اس کو ایک گمنام جگہ پہ جاکے چھوڑ دیا - اس نے عدالت میں خود پیش ہوکے ساری داستان سناء ، بیان حلفی دیا اور ایجنسی کے خلاف کارواء کا تقاضا کیا لیکن میں نے اس کا بیان لکھ کر پٹشن یہ لکھ کے خارج کردی کہ وہ زندہ حالت میں پیش ہوکر بیان ریکارڈ کر ا بیٹھا ہے اس لئے مزید کسی کارواء کی ضرورت نہیں - میں مہم جوئی نہیں کرتا-

میرے ساتھ ایسا واقعہ کبھی نہی ہوا جو ان جج صاحبان نے بیان کیا ہے ، سوائے سپریم کورت پاکستان میں میری پٹشن کے دوران مجھے ہر طریقے سے زچ کیا گیا ، لیکن وہ سول انتظامیہ کے زریعہ ہوتا رہا میں ان کو اس کا دوش نہیں دوں گا - البتہ دو کیسز مجھے یاد پڑتے ہیں جہاں حساس ایجنسیز نے سمن / نوٹس لینے سے انکار کیا جس پر میں نے ان کی اعلی سطح کی اتھارٹی کو کورٹ آرڈر کے زریعہ اطلاع دی ، اگلی تاریخ پر انتہاء زمہ دار آفیسر معہ ریکارڈ اور اپنی معروضات لیکر پیش ہوا - ان کی عزت میں کمی نہیں آء نہ عدالتی وقار اور بھرم پر اور متعلقہ فریق کو بھی اطمینان ہوا- جب جج ، انتظامیہ یا ایجنسی سرخ لکیر پار کرتے ہیں تو تصادم ہوجاتا ہے - میں نے اپنا دامن اس سے ہمیشہ پاک رکھا ، لیکن ممکنہ داد رسی ہر کسی کی کی ، گوکہ معتوب بھی رہا - ایجنسیوں کی زیر حراست جورا اٹھنقام میں ایک شخص کی حراست کے خلاف پٹشن کے دوران وہ شخص مبینہ تشدد کی وجہ سے وفات پاگیا ، جبکہ ایجنسیوں کا موقف تھا کہ وہ ہسپتال میں فوت ہوا - میں نے اس کی لاش ورثا کو واپسی کے علاوہ ان کو لاکھوں روپے کی دیت دلاکر معاملہ نپٹا دیا - یہ عملی انصاف تھا ، دیوار سے ٹکریں نہیں مارنا چاھئے لیکن انصاف کے لئے گذر گاہ کو روکنا نہیں چاھئے -

اسی طرح وزارت داخلہ حکومت پاکستان ، جو عملی طور ایجنسیاں ہی ہوتی ہیں نے مقبوضہ کشمیر سے پاکستانی ویزا پر آنے والے خاندانوں کو ویزا کی مدت ختم ہونے پر جبرآ زاد کشمیر سے نکا ل کر ہندوستان بھیجنے کے اقدامات اٹھائے ، دوسرا 1980 کی کشمییر کے انتفادہ کے دوران آنے والو مہاجرین کو آزاد کشمیر میں مستقل قیام ، ریاستی باشندہ ہونے کی دستاویز ، قومی شناختی کارڈ، پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے اور ووٹ کے اندراج کے حق سے انکار پر ان سب متاثرہ لوگوں کو مرکزی وزارت داخلہ، ایجنسیوں اور مقامی حکومت کے انکار اور مخالفت کے باوجو ان کی پٹشنز پر میں ان لوگوں کو کشمیر کا پشتنی باشندہ ہونے کے لحاظ سے یہ سارے حقوق ویسے ہی دینے کی ہدایت کی جیسے آزاد کشمیر کے بسنے والوں اور باقی کشمیری مہاجریں کو حاصل ہیں ، تاہم یہ ریمارکس بھی دئے کہ اگر کسی کے خلاف قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا کوء الزام ہو تو رائج الوقت قانون کے تحت اس کے خلاف کارواء کی جائے - یہ سارے کیسز پاکستان کے قومی قانونی جرائید میں رپورٹ ہوئے ہیں -

ایجنسیاں دور کی نہیں سوچتیں - ان کے فیلڈ کے رپورٹر/ ورکر اس سطح کی سوچ نہیں رکھتے جس کے زریعہ معاملات کو عقل کی کسوٹی پر پر کھا جائے - اس کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے - ان کے اہلکار اپنا ٹارگٹ پورا کرتے ہیں لیکن حکومتی اور عدالتی سطح پر بالغ نظری کی ضرورت ہوتی ہے ، اس کے لئے ٹارگٹ اگلا مورچہ نہیں بلکہ مورچے کے پار اور پس پردہ سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے - دور اندیشی سے قوموں کی ملکی اور خارجہ پالیسی بنتی اور ملکوں میں استحکام پیدا ہوتا ہے - حدود اور ریڈ لائن کے احترام کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اسلام آباد ہاء کورٹ کے فاضل جج صاحبان کی برہمی کے پس پردہ کسی نہ کسی نے ریڈ لائین ضرور کراس کی ہے ورنہ آئین، قانوں ، دانشمندی ، دیانت اور بالغ نظری کے اندر ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے - اس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے - یہی ملکی مفاد ہے -

سید تصدق جیلانی سابق چیف جسٹس پاکستان کو اسلام آباد ہاء کورٹ کے چھ ججوں کی شکایات کی تحقیق اور تفتیش کے لئے یک نفری کمیشن مقرر کیا گیا ، لیکن انئوں نے انکار کردیا ، یہ انکار انتہاء خوش آئیند ہے - سپریم کورٹ اور حکومت کے اتفاق سے اس فیصلہ کو جیلانی صاحب نے اپنے جوڈیشل سنس سے مسترد کر کے اچھی تاریخ رقم کی ہے اور یہ عوامی مزاج و منشا کی طرف اسی طرح ایک قدم ہے جو حالیہ الیکشن کے نتائیج اور ججز کے مکتوب کے عین مطابق ہے - پڑھنے ، سمجھنے اور ادراک رکھنے والوں کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاھئے اور انقلاب کی تباہ کاروئیوں کے بجائے خود احتسابی کی طرف بڑھ کر اصلاح ، غلطیوں کا ادراک، اور آئین کی حکمرانی کی طرف خوش اصلوبی کے طور ایک راہ ہے - عوامی رائے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے- ججز کے مکتوب کا ہر ہر حرف سپریم کورٹ کو 184(3) کے تحت اختیارات کے استعمال کی دعوت دیتا ہے ، نہ معلوم سپریم کورٹ نے کیوں پہلو تہی کر کے اس کو حکومت کے سپرد کیا - یہ عوامی اہمیت کا غیر معمولی واقع ہے جو عدلیہ کی آزادی ، آئین کی اساس ، لوگوں کے حقوق پر فیصلہ دینے والوں کو اس راستے میں حائل ہونے والی ہر طاقت پر لگام ڈالنے کے لئے عوام کا بنیادی حق ہے اور اس کا ازالہ 184(3) کے تحت ہی ہو سکتا ہے - یہ کیا مذاق ہے کہ عدلیہ کے معاملات کو انتظامیہ کے سپرد کردیا جاتا اور ایک ریٹائیرڈ جج حاضر سروس ججوں کو اپنی شکایت کے ثبوت میں پیش ہونے کے لئے سمن کرتے -؟ کیا سب کی مت ماری گء ہے -؟ یہاں تو حاضر سروس کی ایسی درگت بناء جاتی ہے ، ریٹائیرڈ جج کو جتنے چاھے اختیار دیں ، یہ اختیار دینے والے ہی بے اثر بنا دیتے ہیں -

مجھے ہائی کورٹ کے ان ججز کی اس شکایت پر بھی افسوس اور شکایت ہے کہ انہوں نے ان کے ساتھ ایسی نازیبا ، خلاف آئین، قانون اور اخلاقیات حرکت پر اسی وقت خود کارواء کیوں نہیں کی - کم سے کم وہ یہ کر سکتے تھے کہ اس گری حرکت کو متعلقہ شخص یا اشخاص کے نام کے سات چیف جسٹس کو اس یا ان کیسز میں بڑا بنچ تشکیل دینے کے لئے لکھ سکتے تھے اور بڑا بنچ بنانے کی تجویز دیتے جس میں خود بھی بیٹھتے یا جن غیر متعلقہ انتظامی اتھارٹیز نے یہ حرکت کی تھی ان کی اعلی ترین اتھارٹی کو ان کے بارے میں کورٹ آرڈر کے زریعہ اطلاع دیتے - میرے ساتھ اس طرح کا واقعہ کبھی نہی ہوا البتہ دو کیسز مجھے یاد پڑتے ہیں جن کا اوپر زکر کیا ہے کہ بالا اتھارٹی نے فیلڈ افسر کے برعکس تعمیل کی - ان کی عزت میں کمی نہیں آء نہ عدالتی وقار اور بھرم پر اور متعلقہ فریق کو بھی اطمینان ہوا - اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب جو ان جج صاحبان نے کیا وہ غلط ہے ، دیر آئید درست آئید کی مصداق ، عوامی رائے کے ہموار ہونے پر انہوں نے اب کیا یہ بھی بہت اچھی بات ہے ، حوصلہ افزا بات ہے -

عدالتوں پر اثر انداز ہونے والی صرف سیکیورٹی ایجنسیز ہی طاقت ور طاقتیں نہیں ، منظم سیاسی گروہ ، مذہبی جنونی ، فئیوڈل لارڈس ، شاطر بیروکریسی اور بسا اوقات اپنے ہم جھولی بھی ایسی حر کتیں کرتے ہیں ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے انتظامیہ کا سہارا لیتے ہیں - اس کے لئے ، ججوں کو بھی انتظامیہ سے اپنی جائز مراعات کے علاوہ کسی فیور کا تقاضا کرنا یا توہین عدالت کی دھونس دھاندلی سے اپنی بات منوانا اور من مانے فیصلے کروانا ، تقرریاں اور تبادلے کروانا -اعلی بیروکریسی کو عدالتوں میں بلا کے ان کی تزلیل کرنا، عوامی نمائیندگی کرنے والے وزرائے اعظم کو چٹکی بھر میں توہین عدالت کے قانوں کے غلط استعمال سے بر طرف کرکے اپنی جھوٹی انا کی تسکین اور قوم کی توہین کرنا چھوڑنا پڑے گا - اب انتظامیہ کے لئے بھی ان کے پول کھولنے کا وقت آگیا ہے -، سامنے آئیں اور ایک دوسرے کے خلاف شکایات بنچ کے روبرو پیش کریں تاکہ سچ اور مصالحت کا راستہ ہموار ہونے کے وسیع البنیاد اصول مقرر ہوکر سرخ لیکر قائم ہو جس کو پاٹنے کی کوء کوشش نہ کرے - پاکستان کے آئین میں صوبوں کے درمیان تنازعات کی صورت میں سپریم کورٹ کو مفاہمت، مصالحت اور ثالثی کا اختیار حاصل ہے - اس اصول کو وسعت دے کے ایسی صورت حال کو نپٹانا بھی سپریم کورٹ کی زمہ داری اور اختیار قبول کرنا چاھئے-
واپس کریں