دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ماضی کیےجھروکوں سے (۱)
جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
جسٹس ( ر) سید منظور گیلانی
میں نے کئ بار سوچا کہ سن شعور سے آج تک سماجی زندگی کو جس پیرائے میں دیکھا اس کا اس زمانہ سے ایک تقابلی جائزہ یاد ماضی کے طور تحریر کروں تاکہ جدید نسل کو اس کا ادراک ہو کہ میری عمر کے لوگ مٹی کے دور سے گذر کر روبیٹکس (ROBOTICS ) کے دور میں داخل ہوئے - حوش سنبھالنے پر مٹی گارے کے بنے گھروں میں دادے سے پوتے پوتیوں تک سب کو ایک گھر میں رہتے بستے سوکھے سنی روٹے کھاتے پیتے دیکھا - اس اختلاط کی وجہ سے سب لوگوں کے رشتے ناتے حسب مراتب پروان چڑھتے دیکھا - اسی اختلاط کی وجہ سے ماں ، دادی ، نانی ، نانا، خالہ ، پھوپھی ان کے بچے آج بھی اتنے ہی سگے لگتے ہیں جتنے اپنے بچے - چاچے ، پھوپھی، خالہ ماموں کے بچے بچیاں ویسے ہی لگتے تھے جیسے اپنے بہن بھائ ہوتے ہیں - رشتوں ناتوں کی پہچان تو اختلات سے ہی ہوتی ہے ورنہ آدم زاد تو سب ایک جیسے ہوتے ہیں - اس مشینی اور سریح الحرکتی دور میں نوے فیصد لوگوں کی پہچان اور اتہ پتہ بھی معلوم نہیں ہوتا ، اسی لئے رشتے ناطے الفاظ کے طور جانے جاتے ہیں عملی طور نہیں -

مکان جس کو اس زمانے میں گھر کہا جا تا تھا حسب تو فیق ایک دو ، تین حصوں یا کمروں پر مشتعمل ہوتا تھا - ایک حصے میں انسان ، دوسرے میں چوپائے یعنی گائے بھینس ، اس سے منسلک بھیڑ بکریوں کا باڑا جس کو گوال کہتے تھے اور مرغوں کا “ مڑو” بھی ہو اکرتا تھا - سب کے لئے داخلے کا دروازے عمومی طور ایک ہی ہوا کرتا تھا - اگر گھر ایک منزل ہو تو یہ زیادہ تر اس کے پچھلے حصے میں ہوا کرتے تھے اگر زہے نصیب دو منزل ہو تو نییچے والا حصہ جانوروں کے لئے ہوا کرتا تھا - اگر ان کی دیکھ بھال کے لئے کسی آسودہ حال کو چرواہے کی سہولت میسر ہو تو اس کا مسکن بھی ان کے ساتھ ہی ہوا کرتا تھا - کشمیر میں اس زمانے میں آسودہ حال لوگوں کے گھر تین چار منزلہ بھی ہواکرتے تھے - گھر کا رخ شمالآ جنوبآ ہوا کرتا تھا - ایک سے زیادہ چھت والے مکان میں شرقآ غربآ بر آمدہ رکھاجاتا تھا جس کو ڈب کہتے تھے جو سردیوں میں دھوپ سیننکنے کا بہتریں حصہ سمجھا جاتا تھا - یہ ایک طرح کا ویٹنگ روم بھی ہوا کرتا تھا - ہر منزل کا فرش لکڑی کے پھٹوں کا ہوا کرتا تھا جس کے اوپر مٹی ڈالی جاتی تھی اور ترچھی چھت بھی لکڑی کی ہوا کرتی تھی جس کے اوپر لکڑی کی ہی بنی ہوئ پھٹیاں لگاکر اس کو دیدہ زیب بنایا جاتا تھا جس کو سنگلی کہتے تھے - اس سے برف پھسل کے خود گر جاتی تھی - ایسے مکان کے سب سے اوپر والے حصے میں گھر کا سٹاک اورکوڑ کباڑ پڑا رہتا تھا - دو تین فیصد لوگوں کی گھر ٹین چھت کے بھی ہوا کرتے تھے جو امارت کی علامت تھی - 1970 تک کئ دیہاتوں میں لکڑی کی چھت ہلکی ترچھی رکھ کر اس کے اوپر مکئ کے ٹانڈے اور گھاس پھوس اور مٹی ڈال کے اس کے اوپر پھول لگا دئے جاتے تھے - بو ٹینگو سوپور میں میری نانی کے کھر کی دوسری چھت پر بہار اور گرمیوں میں گل داؤدی، گل رعنا، گل نرگس ، گل بنفشہ، گل چھوئ موئی کے چھوٹے چھوٹے پھولوں کی قالین بچھی ہوتی تھیں - کچھ گھروں کی سب سے نیچے والی منزل کے کچن کے پچھلے والے حصے میں چولہے سے منسلک کمار کی بنائ ہوئ مٹی /ڈرم لگایا جاتاتھا جس میں پانی گرم ہوتا رہتا تھا جو غسل اور وضو کے کام آتا تھا - پاخانہ گھر کے اندر ہونے کارواج نہیں تھا بلکہ منحوس سمجھا جاتا تھا - کہیں کہیں گھر سے منسلک اس کا الگ بندوبست ہوا کرتا تھا ، اب توجدید صورت رائج ہے اور کوئ گھر فلش سسٹم کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا - ہندوستان میں نریندرا مودی نے ہر گھر کے متصل پاخانے اور غسل خانے تعمیر کرا دئے ہیں جس وجہ سے تھوڑی جدت پیدا ہوگئ ہے-

غلہ، مکی، دھان ، دالوں وغیرہ کی فصل “ شاردے” موسم میں سمیٹ کے گھر سے متصل ایک کمرے جس کو کٹھار اور کوچھی کہتے تھے ، میں سٹور کر لیتے تھے - کٹھار میں مکی اور کوچھی میں دھان اور دالیں رکھی جاتی تھیں - کچھ گھروں کے اندر ہی اس کا انتظام کیا جاتا تھا اور حسب ضرورت وہاں سے نکال کر پسائ اور چھٹائ کر کے استعمال کرتے تھے - کچن سے منسلک زیر زمیں ایک خلاء رکھا جاتا تھا جس کے اندر جھاڑے / سردیوں میں لکڑی جلا کر ائیر کنیڈیشن بن جاتا تھا جس کو حمام کہتے تھے - گھر کے تقریبآ سب ہی لوگ رات وہیں سویا کرتے تھے - یہ طرز تعمیر اب بھی موجود ہے لیکن دم توڑ رہا ہے - گھر کی ایک سےزیادہ منزلیں ہونے کی صورت میں “ بخاری” بناکے اس کی دھواں نکالنے کی چمنی آخری چھت سے نکال دی جاتی تھی - کشمیر میں میرے گھر کے دو کمروں میں تھی اور روایت کو میں نے آج بھی مظفر آباد میں جاری کیا ہے - ہر خزاں میں شاخ تراشی سے اتنی لکڑی میسر آجاتی ہے کہ تین ماہ بخوشی گزر جاتے ہیں - جن جن کمروں کی دیواروں سے یہ چمنی گذرتی تھی/ یا ہے ، وہاں بھی لکڑی والی بخاری استعمال ہوتی ہے ، اس طرح سارا گھر کرم مرطوب اور معتدل ہوجاتا تھا -
گھروں میں جدید طرز کے بیڈروم نہیں ہواکرتے تھے جن میں بیڈ اور ان کے اوپر بستر بچھے ہوں گوکہ اپنے استعمال کے علاوہ اگر کمرے ہوں تو ان میں حسب ضرورت رات کو سونے کے لئے بستر بچھا دیا جاتا اور صبح اسی جگہ سمیٹ کے رکھ دیا جاتا اور ٹیک لگا کے بیٹھتے یا اسی کمرے میں یا کس دوسری جگہ رکھ دیا جاتا تھا - یہ سلسلہ دیہاتوں بلکہ شہروں میں کہیں کہیں اب بھی موجود ہے لیکن شہروں میں ختم ہوتا جارہا ہے -
واپس کریں