دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
راہول گاندھی کی تقریرپرہنگامہ
عمرفاروق۔آگہی
عمرفاروق۔آگہی
انڈیا کے پارلیمان میںگزشتہ دس سال سے قائد حزب اختلاف کا عہدہ خالی تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ 2014کے بعد سے کوئی بھی اپوزیشن پارٹی قائد حزب اختلاف کے عہدے کے لیے درکار 543 میں سے 10 فیصدیعنی 55 نشستیں نہیں جیت پائی تھیں۔ لیکن حالیہ عام انتخابات میں کانگریس نے 99 نشستیں حاصل کرکے یہ عہدہ حاصل کرلیاہے اورراہول گاندھی قائدحزب اختلاف مقررہوگئے ۔ کانگریس نے اپنے سیاسی اتحادیوں سے مشاورت کے بعدراہل گاندھی کو حزب اختلاف کا لیڈر مقرر کیا ہے۔ اس سیاسی اتحاد کو انڈیا کا نام دیا گیا ہے جس میں اپوزیشن کی 28 جماعتیں شامل ہیں۔اس اتحاد نے عام انتخابات میں توقع سے کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 232 نشستیں حاصل کی تھیں۔راہول گاندھی نے حالیہ الیکشن میںدونشستوں پر بھی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی جن میں ریاست کیرالہ کے وایناڈ اور اتر پردیش کے رائے بریلی کے حلقے کی نشستیں شامل ہیں۔رائے بریلی سے اب ان کی بہن پریانکاضمنی الیکشن میں حصہ لیں گی ۔

انڈین پارلیمان میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی 2004 میں انتخابی سیاست میں آئے اگرچہ وہ 25 سال سے زیادہ عرصے سے سیاست میں ہیں، اور پانچ مرتبہ رکن اسمبلی بھی رہے ہیں لیکن وہ کبھی وزیر نہیں رہے یا اپنی پارٹی کے لیے عام انتخابات نہیں جیت پائے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی کے اہم حریف کسی آئینی کردار میں ان کے سامنے ہیں۔راہل گاندھی اب ان حکومتی کمیٹیوں میں بیٹھیں گے جو اہم حکومتی فیصلے اور تقرریاں کرتی ہیں اور وہ انڈین پارلیمان میں طاقتور سمجھے جانے والے وزیر اعظم مودی کے خلاف مئوثرطریقے سے آوازاٹھائیں گے اورانہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریرمیں یہ ثابت بھی کیاہے۔
انڈیا کی نئی تشکیل شدہ پارلیمنٹ میں ایوان زیریں کے پہلے اجلاس میں حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی کی تقریرنے تہلکہ مچادیاہے ان کی تقریر نہ صرف ایوان بلکہ سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہے۔اوراس وقت انڈیامیں اس تقریرپرہنگامہ برپاہے ۔

راہل گاندھی نے اپنی تقریر میںآخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرکیاانہوں نے ایک پلے کارڈ دکھاتے ہوئے پیغمبر اسلام کے نام پر درود بھیجا جبکہ مسلمانوں کی کتاب قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس نے (خدا نے) فرمایا کہ ڈرو مت! میں تمہارے ساتھ ہوں، سنتا اور دیکھتا ہوں۔انھوں نے مزید زور دیا کہ اسلام میں بھی کہا گیا ہے کہ ڈرنا نہیں۔راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں ہندو مت اور اسلام کے بعد سکھ، بدھ، جین اور عیسائیت کے مذاہب میں بھی بے خوفی کے پیغامات پڑھ کرسنائے ۔راہل گاندھی نے اپنی دوگھنٹے سے زائدکی تقریر کے دوران ملک کے کئی مسائل پر بات کی لیکن انھوں نے سب سے زیادہ وقت بی جے پی، وزیر اعظم مودی اور ان کے پالیسیوں کی تنقید پر دیا۔انھوں نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام لگایا کہ اس نے سماج کے کئی طبقات میں خوف پیدا کر دیا ہے۔راہل گاندھی نے کہا کہ جو لوگ اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں وہ 24 گھنٹے جھوٹ اور تشدد کی بات کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملک تشدد کا ملک نہیں ہے، یہ ملک ڈر کا ملک نہیں ہے۔ اور جو لوگ خود کو ہندو کہتے ہیں وہ 24 گھنٹے تشدد، تشدد، نفرت نفرت کے نعرے لگاتے ہیں۔ جب بی جے پی نے ملک میں خوف پھیلایا تو انڈیا(کانگریس کے اتحادی گروپ) نے آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے اس سوچ کو اپنایا۔

راہول کی تقریر کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے اٹھ کر کہا یہ موضوع بہت سنجیدہ ہے۔ پورے ہندو سماج کو پرتشدد کہنا بہت سنجیدہ (بات)ہے۔جس پر راہل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی پورا ہندو سماج نہیں۔ بی جے پی پورا ہندو سماج نہیں۔ آر ایس ایس پورا ہندو سماج نہیں۔راہول گاندھی کے تابڑتوڑحملوں سے مودی اوراس کے وزراء بیچ وتاب کھاتے ہوئے نظرآئے یہی وجہ ہے کہ راہل گاندھی کی تقریر کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی رہانہ گیااوردو بار کھڑے ہو کرتقریرمیں مداخلت کی۔ نہ صرف یہ بلکہ مرکزی حکومت کے پانچ وزرا نے بھی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کیا۔ان وزرا میں وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، وزیر ماحولیات بھوپیندر یادو، وزیر زراعت شیوراج سنگھ چوہان اور پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو شامل ہیں۔کانگریس لیڈر کی تقریر کے دوران حکومتی بنچوں کی طرف سے جے شری رام کے نعرے بھی لگائے گئے۔

کئی حکومتی وزرا نے ایوان کے اندر راہل گاندھی کی تقریر کی مخالفت کی جبکہ ایوان کے باہر بھی کئی حکومتی وزرا راہل گاندھی کے بیان کے مختصر کلپس شیئر کر رہے ہیں اور ان پر ہندو مخالف ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ نے حزب اختلاف کے رویئے کو پارلیمانی آداب کے پرخچے اڑانا قرار دے دیا اور حزب اختلاف کے طرز عمل کے خلاف قرارداد منظور کرا لی۔ گزشتہ ربع صدی میں یہ پہلا موقع ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے خلاف قرارداد منظور کی گئی ہو۔بی جے پی نے اسی پربس نہیں کیا بلکہ راہول گاندھی کی تقریرکے کئی حصے پارلیمنٹ کی کاروائی سے حذف کروووادیئے ، حتی کہ اسپیکر اوم برلا نے ارب پتی شخصیات گوتم اڈانی اور مکیش امبانی کے مودی اور ان کی حکومت سے گٹھ جوڑ والے جملوں کو بھی حذف کردیا۔سپیکر کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ سپیکر کے اس اقدام کے باوجود سچائی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے منگل کو سپیکر کو خط بھی لکھا ہے جس میں حذف شدہ ریمارکس کو بحال کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون کی خلاف ورزی نہیں تھی بلکہ زمینی حقائق اور حقیقت پر مبنی پوزیشن سے آگاہ کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ میرے ریمارکس کو ریکارڈ سے ہٹانا پارلیمانی جمہوریت کے اصولوں کے خلاف ہے۔

دوسری طرف سے بھارت کے نامور صحافیوں نے کہاہے کہ یہ راہل گاندھی اور اپوزیشن کے نقطہ نظر سے ایک بہترین تقریر تھی۔ کانگریس نے پہلے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور یہ بہت اچھی تقریر کی۔ مودی جی کے کام کرنے کے انداز کے خلاف کسی نے ایسا کیا اور وہ راہل گاندھی ہیں۔ اس سے پہلے جس نے یہ کیا وہ اٹل بہاری واجپائی تھے۔صحافی سمیتا گپتانے بی بی سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ راہل گاندھی کی تقریر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب اپوزیشن لوک سبھا میں خاموش نہیں رہے گی۔ راہل اب صرف فرنٹ فٹ پر کھیلیں گے۔ راہل نے جس طرح بی جے پی پر حملہ کیا، اس سے وزیر اعظم کافی ناراض ہو گئے اور ایسا پہلے نہیں ہوا تھا۔ونود شرما کہتے ہیں کہ بی جے پی اپوزیشن کی جارحیت کو توڑنے کی کوشش کرے گی لیکن راہل کی تقریر نے دکھایا ہے کہ جب تک بی جے پی اقتدار میں ہے اپوزیشن کا رویہ کیا ہو گا۔ ایک مضبوط اپوزیشن جو بی جے پی کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ ثابت ہو چکا۔

بی جے پی کویہ تقریرہضم نہیں ہورہی اس لیے اس وقت انڈیامیں سوشل میڈیاپراس تقریرکے حق اورمخالفت میں ایک جنگ جاری ہے مودی کے متعصب پیروکاراس تقریرکے ذریعے آگ لگانے کی کوشش کررہے ہیں مگردوسری طرف راہول کے حامی بھی کھل کرمیدان میں آگئے ہیں مہاراشترکے سابق وزیراعلی ادھوٹھاکرے نے کہاکہ راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران کچھ بھی غلط نہیں کہا: یہ جھوٹا پروپیگنڈہ ہے کہ بی جے پی ہندوتوا ہے۔ ہمارا ہندوتوا پوتر (مقدس) ہے جس کے آس پاس بی جے پی آتی بھی نہیں۔ بی جے پی نے لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے ہندوتوا کا نقاب پہنا ہواہے۔راہول گاندھی اوراپوزیشن کے کردارسے یہ امیدکی جارہی ہے کہ وہ مودی کی دس سالہ آمریت،اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیزاقدامات کے آگے بندھ باندھیں گے اوربھارت کے سیکولرچہرے کومزیدداغدارہونے سے بچائیں گے ۔

واپس کریں