عمرفاروق۔آگہی
بنگلہ دیش کی تاریخ کے بدترین فسادات کے بعدبالآخراتوارکوبنگلادیش کی سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹے پر بھرتی سے متعلق ہائی کورٹ کے حکم پر عمل درآمد روک دیاہے ،مگراس کے باوجود طلباء تحریک نے احتجاج اورہڑتال ختم کرنے سے انکارکردیاہے طلباء نے اعلان کیاہے کہ وہ اس وقت تک احتجاج جاری رکھیں گے جب تک پرامن احتجاج میں مارے جانے والے طلبہ کو انصاف نہیں مل جاتا۔اس کے علاوہ مطالبات میں مظاہرین کی ہلاکت کے مقدمے کی سماعت، وزیر اعظم کی تقریر واپس لینا، روڈ ٹرانسپورٹ وزیر اور وزیر داخلہ کا استعفی، امتیازی سلوک مخالف طلبہ تحریک کے کوآرڈینیٹرز کی رہائی، تیز رفتار انٹرنیٹ کی واپسی اور یونیورسٹی کیمپس میں عوامی لیگ کے طلبہ ونگ (جسے بنگلہ دیش چھاترا لیگ بھی کہا جاتا ہے)کی سیاست پر پابندی شامل ہیں۔
دنیا کے آٹھویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک بنگلہ دیش کی آبادی 17کروڑ سے بھی زائدہے جس میں تقریبا تین کروڑ 20 لاکھ افراد ملازمت یا تعلیم سے محروم ہیں۔بنگلا دیش میں سرکاری ملازمتوں کا 56 فیصد حصہ کوٹے میں چلا جاتا ہے جس میں سے 30 فیصد سرکاری نوکریاں 1971کی جنگ میں پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کے بچوں، 10فیصد خواتین اور 10فیصد مخصوص اضلاع کے رہائشیوں کے لیے مختص ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال سول سروس میں تین ہزار ملازمتوں کے لیے چار لاکھ گریجویٹ امتحان دیتے ہیں۔بنگلا دیش میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم 2018 میں ختم کردیا گیا تھا جب ملک میں اسی طرح کے مظاہرے شروع ہوئے تھے۔تاہم گزشتہ ماہ ہائی کورٹ نے سرکاری نوکریوں میں 1971 کی جنگ میں لڑنے والوں کے بچوں کے لیے 30 فیصد کوٹہ بحال کرنے کا فیصلہ دیا جس کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔مظاہروں میں شدت کے بعداگرچہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کردیا اور سات اگست تک اس معاملے پر فیصلہ دینے کی یقین دہائی کرآئی لیکن اس کے باجود طلبہ کا احتجاج جاری رہا۔جس کے بعدسپریم کورٹ کواگست کی بجائے 21جولائی اتوار کوہنگامی بنیادوں پرفیصلہ دیناپڑا۔
یہ فسادات اس وقت شدت اختیارکرگئے جب گزشتہ اتوار 14جولائی کو حسینہ واجد نے وزیراعظم ہائوس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ جنگ آزادی اور آزادی کے لیے لڑنے والوں کے خلاف اتنی ناراضگی کیوں ہے؟اگر سرکاری ملازمتوں میں 1971 میں آزادی کے لیے لڑنے والوں کے پوتے پوتیوں کو کوٹہ نہ دیا جائے تو کیا ان رضاکاروں کے پوتے پوتیوں کو دیا جائے جنہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا؟خیال رہے کہ بنگلا دیش میں رضاکار کی اصطلاح 1971 کی جنگ میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔اس بیان کے چند گھنٹوں بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج شروع ہوا جو ملک کے دیگر بڑے تعلیمی اداروں میں بھی پھیل گیا۔
ابتداء میں جب یہ مظاہرے شروع ہوئے توحسینہ واجدنے اپنے پالتوغنڈوں عوامی لیگ کے طلباء ونگ کے ذریعے پرامن مظاہرین کے خلاف پولیس کی سربراہی میں طاقت کااستعمال کیا جس پرطلباء کے ساتھ عوام بھی مشتعل ہوگئے ۔اوراحتجاج کادائرہ کاربڑھ گیا یہاں تک کہ بنگلہ دیش کے 64 اضلاع میں سے تقریبا چالیس سے زائداضلاع میں فسادات شروع ہوگئے ۔یہاں تک مظاہرین نے بنگلہ دیش ٹیلی ویژن کی عمارت پر قبضہ کرکے اس کی نشریات معطل کردیں ،متعددسرکاری عمارتوں کونذرآتش کردیا ۔اوریہ فسادگلی گلی پھیل گیا یہ بنگلہ دیش کی تاریخ کے بدترین مظاہرے تھے جن میں اتنے کم عرصے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔طلبا کا یہ احتجاج شاید جنوری 2009 کے بعد سے حسینہ کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے۔
مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پہلے دن صرف پولیس کو تعینات کیا گیا تھا لیکن ایک موقع پر بارڈر گارڈ فورس بی جی بی کو بھی ان کی مدد کے لیے بلایا گیا۔ اس کے باوجود حالات قابو میں نہیں آ سکے تو اب کرفیو لگا کر فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے۔بنگلہ دیش میں آخری کرفیو11 جنوری 2007 کو اس وقت نافذ کیا گیا تھا جب فوج کی حمایت سے ایک نئی نگران حکومت قائم ہوئی تھی۔ اس وقت کرفیو دو دن تک نافذ رہاتھا۔ اور اس وقت بھی وہ بھی طلبہ کے احتجاج پر قابو پانے کے لیے تھا۔یہ معاملہ حسینہ واجدکے ہاتھ سے نکلتادکھائی دے رہاہے کیوں کہ یہ نوجوان آبادی میں برسوں سے بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کا نتیجہ ہیں۔ ملازمتوں کا کوٹہ ایک دھاندلی زدہ نظام کی علامت بن گیا ہے،اس کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کے ساتھ ساتھ سرکاری بھرتیوں میں بڑے پیمانے پر بے لگام کرپشن اور بے ضابطگیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
حکومت اور حکمران جماعت کے خلاف غصہ کافی عرصے سے پنپ رہا تھا صرف کوٹہ سسٹم ہی نہیں بلکہ بنگالی عوام کے ساتھ مختلف اندازمیں زیادتی کی جارہی تھی۔ بنگلہ دیش میں حالیہ مہینوں میں سوشل میڈیا پر شیخ حسینہ کے قریبی کچھ سابق اعلی عہدیداروں کے خلاف بدعنوانی کے سیکنڈل بھی سامنے آئے ۔ ان میں ایک سابق آرمی چیف، سابق پولیس چیف، سینئر ٹیکس افسران اور ملک میں بھرتی کرنے والے اہلکار شامل ہیں۔چنددن قبل حسینہ واجدکے ایک چپڑاسی کے اکائونٹ سے چارسوکروڑروپے نکلنے کی خبرمنظرعام پرآئی ۔اس کے علاوہ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے علاوہ گذشتہ 15 سالوں کے دوران ملک میں جمہوری سرگرمیوں کے لیے آزادی بھی کم ہو گئی ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق گذشتہ تین انتخابات میں ایک مرتبہ بھی قابل اعتبار آزادانہ اور منصفانہ پولنگ نہیں ہوئی۔شیخ حسینہ کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ اپنا لیڈر خود منتخب نہ کر پانے کے جمہوری حق سے محرومی، بنگلہ دیش کے لوگوں میں کس حد تک عدم اطمینانی کا باعث بن رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گذشتہ 15 سالوں میں 80 سے زائد افراد جن میں سے اکثریت حکومتی ناقدین ہیں، لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان کے اہل خانہ کو ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ملک میں ایسے خدشات پائے جاتے ہیں کہ حسینہ واجد بہت حد تک آمرانہ طرزِ حکومت کو اپنا رہی ہیں، ریاستی اداروں کا غلط استعمال کر کے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے ،اختلاف رائے کو ختم کرکے میڈیا کو کنٹرول کررہی ہیں ۔ شیخ حسینہ واجد نے11 جنوری 2024کوپانچویں بار وزیر اعظم کا حلف اٹھایا76 سالہ حسینہ واجد نے جنوری میں ہونے والے مسلسل چوتھے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی جس میںاپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ کیاتھا ۔
سوال یہ ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری کے باوجودروزگار کے مواقع پیدکیوںا نہیں ہو رہے۔بنگلہ دیش دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہے تاہم یہ ترقی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبا کے لیے ملازمتیں پیدا کرنے کا سبب نہیں بن سکی۔خیال کیا جاتا ہے کہ تقریبا ایک کروڑ80 لاکھ بنگلہ دیشی نوجوان نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔ کم تعلیم یافتہ افراد کے مقابلے میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔بنگلہ دیش تیار شدہ کپڑوں کی برآمدات کا پاور ہائوس بن گیا ہے۔ یہ ملک عالمی منڈی میں تقریبا 40 ارب ڈالر مالیت کے کپڑے برآمد کرتا ہے۔اس شعبے میں 40 لاکھ سے زائد افراد ملازمت کرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیں۔ اگرچہ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے 15 سالہ دورِ حکومت نے دارالحکومت ڈھاکہ میں نئی سڑکیں، پل، کارخانے اور میٹرو ریل بنا کر کافی حد تک ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔
پچھلی دہائی کے دوران ملک میں فی کس آمدنی تین گنا بڑھ گئی ہے اور عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ گذشتہ 20 سالوں میں دو کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ افراد غربت سے نکل آئے ہیں اور اب بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔لیکن اس ترقی کا فائدہ صرف حسینہ کی عوامی لیگ کے قریبی لوگوں کو ہی ہوا ہے۔بنگلہ دیش 1971 میں آزادی کے وقت دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل تھا لیکن 2009 کے بعد سے ہر سال اوسطا چھ فیصد سے زیادہ شرح سے ترقی کر رہا ہے۔لیکن اس ترقی کا زیادہ تر حصہ فیکٹریوں میں کام کرنے والی زیادہ تر خواتین کی مرہون منت ہے جو ملبوسات کی برآمد کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے لاکھوں طالب علموں کے لیے ملازمتوں کا شدید بحران ہے،اوراب یہ مسائل حسینہ واجدکے لیے خطرے کی گھنٹی بن گئے ہیں ۔
واپس کریں