دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
حماس کے نئے سربراہ یحیی سنوار کون ہیں ؟
عمرفاروق۔آگہی
عمرفاروق۔آگہی
عمرفاروق /آگہی

ایران نے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کابدلہ تونہیں لیا اورنہ لیناہے البتہ حماس نے اپنے نئے سربراہ کااعلان کرکے اسرائیل کوواضح پیغام دے دیاہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دو دن کی طویل مشاورت کے بعد حماس نے اسماعیل ہنیہ کی جگہ یحیی السنوار کو نیا سربراہ مقرر کردیاہے ،دودن حماس کے اہم رہنمائوں کے درمیان اگلے سربراہ کی تعیناتی پر بحث ہوئی جس میں دو نام سامنے آئے۔ ایک نام محمد حسن درویش کا بھی تھا جو حماس کی شوری کونسل کے سربراہ ہیں لیکن اجلاس نے متفقہ طور پر السنوار کو چنا۔یوں حماس نے عسکری شخصیت کوسیاسی ونگ کابھی سربراہ بنادیاہے کیوں کہ اسماعیل ہنیہ مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے ۔جبکہ سنواران سے مختلف ہیں انہیں حماس کی سب سے زیادہ شدت پسند شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ یحیی سنوار کا انتخاب اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ حماس غزہ میں اسرائیل کی جنگ سے ہونے والی دس ماہ کی تباہی اور اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد بھی لڑائی جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔ سنوار عمل پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت بہت مشکل ہو گی۔

لسنواراس وقت 61 برس کے ہیں اور انھیں عرف عام میں ابو ابراہیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔سنوار کے خاندان کا تعلق فلسطینی گائوں المجدل عسقلان سے ہے، جہاں صیہونی ریاست کے قیام کے بعدان کے خاندان کو اسرائیل نے 1948 میں دیگرفلسطینیوں کے ساتھ بیدخل کر دیا تھا۔ اب یہ علاقہ اسرائیلی شہر عسقلان کا حصہ ہے(اسمعیل ہنیہ کاتعلق بھی عسقلان سے تھا)۔سنوار سات اکتوبر 1962 کو خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ ابھی ان کی عمر پانچ برس تھی کہ اسرائیل نے اس شہر پر قبضہ کر لیا۔انھوں نے خان یونس کے ایک سیکنڈری سکول میں تعلیم حاصل کی تھی اور پھر غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی زبان میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی ۔سنوارنے ایک کتاب کانٹے اور پھول(الشوک و القرنفل)بھی لکھی ہے جس میں پناہ گزین کیمپ بیتے دن ،اسرائیلی مظالم اورجیل کے حالات تفصیلی طورپر تحریرکیے ہیں ۔

نوجوانی ہی میں سنوار نے غزہ میں اخوان المسلمون کی تحریک میں شمولیت اختیار کی، جو1987 میں حماس تحریک میں تبدیل ہوگئی تھی السنوار کو 1982 میں پہلی مرتبہ اسرائیل نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ 19 برس کے تھے۔ انھیں انتہا پسند سرگرمیاں کرنے کے الزام میں 1985 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔دو سال بعد یعنی 1987 میں حماس کا قیام عمل میں آیا تو السنوار نے گروپ کا داخلی سکیورٹی شعبہ قائم کیا جسے المجد کا نام دیا گیا۔ وہ اس وقت صرف 25 سال کے تھے۔المجد جلد ہی ایسے لوگوں کو سزائیں دینے کے بارے میںمشہورہوا جن پر اخلاقی جرائم میں ملوث تھے۔رپورٹس کے مطابق انھوں نے اس دوران ایسی دکانوں پر چھاپے مارے جو سیکس ویڈیوز رکھتے تھے اور ساتھ ہی ایسے کسی بھی شخص کو ہلاک کر دیا جو اسرائیل کے ساتھ تعاون(مخبر) کرتا تھا۔

سنہ 1988 میں السنوار نے مبینہ طور پر دو اسرائیلی فوجیوں کا اغوا اور ہلاکت کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور اسرائیل نے بعدازاں انھیں 12 افراد کے قتل الزام میں چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی ۔السنوار نے 1988سے 2011 تک 22 سال جیل میں گزارے اوراسرائیلی مظالم برداشت کیے۔سنوارجیل میں قیدیوں کے رہنماء بن کرابھرے اورقیدیوں پرمظالم کے خلاف ڈھال بن گئے ،متعددمرتبہ قیدیوں کے مسائل پر اسرائیل کوان سے مذاکرات کرناپڑے ۔اسرائیلی حکومت کی جانب سے السنوار کے کردار کے بارے میں کیے گئے تجزیے کے مطابق وہ ایک جابر، دبدبے والے اور بااثر رہنما ہیں جن میں برداشت، چالاکی اور ساز باز کرنے اور تھوڑے وسائل پر گزارا کرنے کی غیر معمولی صلاحیتیں ہیں۔ وہ جیل میں بھی قیدیوں کے درمیان راز رکھتے تھے، اور ان میں ہجوم کی سربراہی کرنے کی صلاحیت تھی۔

سنوار کی ظاہری شبیہ کی بات کریں تو ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید ہیں جبکہ ان کی بھنویں کالی ہیں جو ان کو ظاہری طور پر منفرد بناتی ہیں، انھیں اچھی تقریر کرنا نہیں آتی لیکن جب وہ عوام سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہجوم میں سے ہی کوئی بول رہا ہے۔جب السنوار جیل میں تھے تو انھوں نے عبرانی زبان پر عبور حاصل کیا اوروہ پابندی سے اسرائیلی اخبارات پڑھتے تھے۔عبرانی پر عبور اور اسرائیلی جیلوں میں طویل عرصہ گزارنے کی وجہ سے سنوار خود کو اسرائیلی سیاست اور ثقافت کے ماہر سمجھتے ہیں۔السنوار کو 2011 میں ایک معاہدے کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا جس میں 1028 فلسطینی اور اسرائیلی عرب قیدی رہا ہوئے تھے اور اس کے بدلے میں اکیلے اسرائیلی یرغمالی فوجی جیلاد شالیت کی رہائی ممکن ہوئی۔جیلاد شالت کو حماس نے 2006 میں غزہ کی حدود میں گھات لگا کر قید کر لیا تھا اور یہ کام حماس کے دیگر کارکنوں سمیت السنوار کے بھائی محمدنے کیا تھا۔السنوار کے چھوٹے بھائی محمد نے بھی حماس کے لیے اہم کردار ادا کیا۔اسرائیلی ڈیفنس اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں سے اکثر کا اب بھی ماننا ہے کہ السنوار کو یرغمالی اسرائیلی فوجی کے بدلے جیل سے چھوڑنا سنگین حماقت تھی۔

جیل سے رہا ہونے کے بعد السنوار نے فوری طور پر عزالدین القسام بریگیڈ اور چیف آف سٹاف مروان عیسی سے اتحاد کر لیا۔سنہ 2013 میں انھیں غزہ میں حماس کے سیاسی بیورو کارکن منتخب کیا گیا جس کے بعد2017میں انہیں اسماعیل ہنیہ کی جگہ حماس کے عسکری ونگ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔سنوار کی مبینہ پر پرتشدد فطرت کے باعث انھیں خان یونس کا قصاب کا نام دیا گیا۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جو نظم و ضبط کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ اگر آپ سنوار کی حکم عدولی کریں تو یہ اپنی زندگی دائو پر لگانے کے مترادف ہو گا۔2015 میں امریکہ نے سنوار کا نام عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کیا۔ مئی 2021 میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے خان یونس میں یحی السنوارکے گھر پر بمباری کی جس کے جواب میں27 مئی 2021 کو یحی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینتز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے قدموں پر چل کر اپنے گھر جائوں گا، تمھارے پاس مجھے قتل کرنے کے لیے 60 منٹ ہیں اور پھر وہ اگلے گھنٹے غزہ کی گلیوں میں گھوم رہے تھے اور سلیفیاں لے رہے تھے ۔

مارچ 2021 میں یحی السنوار دوسری مدت کے لیے غزہ میں حماس کے سربراہ منتخب ہوئے اور انہیں غزہ کا ڈی فیکٹو حکمران تصور کیا جانے لگا انہیں حماس میں اسماعیل ہنیہ کے بعد دوسرا طاقتور ترین شخص مانا جاتاہے۔اپریل 2022 میں ٹیلی ویژن پر ایک خطاب میں انھوں نے لوگوں کو کسی بھی طرح سے اسرائیل پر حملہ کرنے کی ترغیب دی تھی۔سات اکتوبر کے حملوں کے بعد سنوارنے ایک بیان میں خبردار کرتے ہوئے کہاتھا کہ قابض رہنمائوں کو جان لینا چاہیے کہ سات اکتوبر صرف ریہرسل تھی۔ یحیی سنوار کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے چار منصوبہ سازوں میں سے ایک ہیں۔ غزہ پر حملہ آور اسرائیلی فوج ڈرونز، حساس جاسوسی آلات اور انسانی انٹیلی جنس کی مدد سے سنوار کو تلاش کر رہی ہے لیکن ابھی تک ان کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔ اسرائیل نے سنوار کو ختم کرنے کا عہد کر رکھا ہے جبکہ وزیر اعظم نتن یاہو نے ان کا موازنہ ہٹلر سے کیا تھا۔ اسرائیل میں سنوار کے خلاف نفرت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اسرائیلی گلوگارہ رینات بار نے آئی ڈی ایف کے فوجیوں کے سامنے پرفارم کرتے ہوئے عربی گیت یا بنت السلطان کے بول بدل کر گائے جس میں انہوں نے کہا، یا یحیی سنوار، آپ کل مر جائیں۔فاکس نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق تل ابیب یونیورسٹی کے دیان سینٹر میں فلسطینی سٹڈیز فورم کے سربراہ مائیکل ملسٹائن نے کہا کہ سنوار حماس رہنماں کی دوسری نسل کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کے پاس نہ صرف غزہ کے معاملات بلکہ پوری تحریک کی قیادت کرنے کی صلاحیت ہے۔

واپس کریں