دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مبارک ثانی کیس،کب کیسے ،کیاہوا ؟
عمرفاروق۔آگہی
عمرفاروق۔آگہی
سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں درستگی کرتے ہوئے متنازعہ پیراگراف حذف کردیئے ہیں یوں جومعاملہ آٹھ ماہ سے ملک میں کشیدگی اورتنائوکاباعث بناہواتھا وہ معاملہ ختم ہوگیاہے ۔آئیں دیکھتے ہیں کہ یہ معاملہ تھا کیااورکیسے متنازعہ ہوا؟ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ پاکستان میں 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے مطابق قادیانیوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 91 ہزار 737 تھی جب کہ چھ برس بعد ہونے والی 2023 کی مردم شماری میںقادیانیوںکی آبادی ایک لاکھ 62 ہزار 684 ہو گئی ہے۔مگراتنی کم تعدادہونے کے باوجودقادیانی ملکی اوربین الاقوامی سطح پرپاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیںاورقومی اداروں پران کادبائورہتاہے جس کی وجہ سے ملک میں مسائل جنم لیتے ہیں ۔

سات مارچ 2019کومدرسہ الحفظ عائشہ اکیڈمی ومدرسہ کی سالانہ تقریب نصرت کالج فارویمن کے گرائونڈمیں منعقدہوئی جس میں قادیانیوں کی ممنوعہ کتاب تفسیرصغیرودیگرکتابیں تقسیم کی جارہی تھیں جس کے خلاف حسنین معاویہ پولیس کودرخواست دی ۔اس واقعے کے تقریبا تین سال بعد چھ دسمبر 2022 کو چنیوٹ کے علاقے چناب نگر میں قانون کی تین شقوں کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ان میں سے ایک شق پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ)ایکٹ 2010/11 ہے۔اس قانون کے مطابق اگر قرآن مجید کے کسی نسخے میں کسی غیر مسلم کی جانب سے کسی آیت کا ترجمہ، تفسیر یا تبصرہ مسلمانوں کے عقیدے کے برعکس کیا گیا ہو تو اسے تین سال تک کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ دفعہ 295 بی اور 298 سی بھی لگائی گئیں۔ 295 بی کے مطابق قرآن کو توہین آمیز طریقے سے برتنا یا اسے غیر قانونی طور پر نقصان پہنچانا جرم ہے۔ اس کی سزا عمر قید ہے۔298 سی کا تعلق قادیانیوں سے ہے اور اس کے تحت قادیانی اپنے عقائد کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔ اس کی سزا تین برس قید ہے۔اس کے بعد سات جنوری 2023 کو پولیس نے مبارک احمد ثانی کو گرفتار کر لیا ، ابتدائی ایف آئی آر میں اس کا نام شامل نہیں تھا۔مبارک ثانی کی گرفتاری کے خلاف اپیل کی گئی، جو پہلے16نومبرکو ایڈیشنل سیشن جج اور پھر27نومبر2023کو لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کر دی۔جس کے خلاف ملزم نے سپریم کورٹ میں درخواست نمبر1054-L of 2023دائرکی جس پرسماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے چھ فروری 2024 کو مبارک احمد ثانی کی ضمانت منظور کر لی۔

اس فیصلے پراعتراضات اٹھناشروع ہوئے ان میں سے چندایک یہ تھے ۔() پیرا گراف 6۔7۔8۔9۔10۔16پرتھے کہ جن میں قرآن پاک کی آیات کاحوالہ دیاگیا اس کافیصلے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا ۔اورخلط مبحث کی کوشش کی گئی ۔اس کے علاوہ فیصلے میں قادیانیوں اوردیگراقلیتیوں میں فرق نہیں کیاگیا ۔ عدالت نے ملزم مبارک ثانی سے دفعہ 298Cاور295B بھی ختم کردی حالانکہ ملزم نے ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ میں کسی جگہ ان دفعات کے خارج کیے جانے کا مطالبہ ہی نہیں کیاتھا۔عدالت کی جانب سے مبارک ثانی کیس میں نظرِ ثانی کی اپیل پر فیصلے کے پیراگراف نمبر سات میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی آر میں ملزم پر مجموعہ تعزیرات کی دفعہ 295B کا تو ذکر کیا گیا لیکن کسی قانونی شق کا صرف ذکر کرنا ملزم کو اس دفعہ کے تحت جرم کے لیے ذمہ دار ٹھرانے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ ایف آئی آر کے مندرجات میں توہینِ قرآن کا الزام نہ تو بلاواسطہ اور نہ ہی بالواسطہ لگایا گیا تھا، اور چونکہ مذکورہ ادارہ جہاں ایف آئی آر کے مطابق ممنوعہ کتاب تقسیم کی گئی تھی احمدیوں کا ادارہ تھا، اس لیے اس فعل پر مجموعہ تعزیرات کی دفعہ 298C کا اطلاق نہیں ہو سکتا تھا۔ درخواست گزار نے فوجداری درخواست نمبر 1344-L/2023 کے ذریعے ضمانت پر رہائی کی درخواست دائر کی تھی۔ عدالتِ ہذا کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ ملزم قید میں 13 مہینے گزار چکا ہے، جبکہ ممنوعہ کتاب کی تقسیم کا جرم ثابت ہونے پر اسے جس قانون کے تحت سزا سنائی جا سکتی ہے وہ فوجداری ترمیمی قانون، 1932 کی دفعہ 5 ہے جس کے تحت زیادہ سے زیادہ 6 مہینے تک کی سزائے قید دی جا سکتی ہے۔(22اگست کے فیصلے میں یہ پیراگراف حذف کردیاگیا ہے )اس حوالے سے علماء کاکہناتھا کہ پنچاب قرآن بورڈ نے تفسیر صغیر پر 2016 سے اسے غیر قانونی قرار دے کر اس پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ملز اس کتاب کی ترویج و تقسیم میں مصروف تھا جو 298C کے تحت جرم بنتا ہے۔ حکومت جس مواد پر حکومت پابندی لگا دے، اس کی طباعت و اشاعت دہشت گردی کے ضمن میں آتی ہے (ا س حوالے سے دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 8 اور 11W)۔) کودیکھا جاسکتاہے لیکن فاضل چیف جسٹس صاحب اس پر غور ہی نہیں فرما سکے اور ملزمان کو بری کر دیا۔

اسی طرح اس فیصلے میں چیف جسٹس صاحب فرمایا کہ اس مقدمے پر کریمنل امینڈمنٹ ایکٹ 1932 لاگو ہوتا ہے جس کے تحت اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا 6 ماہ قید ہے (جبکہ ملزم اس سے زیادہ قید کاٹ چکا ہے لہذا اس کی ضمانت قبول کی جانی چاہیے تھی)۔ جبکہ مذکورہ ایکٹ 64 سال پہلے پریس اینڈ پبلی کیشن ایکٹ 1960 کے ذریعے ختم کر دیا گیا تھا۔ جس کے ثبوت میں اعلی عدلیہ کے فیصلے دیکھے جا سکتے ہیں۔ جبکہ اس کیس پر اطلاق درحقیقت پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ 2011 دفعہ 7 اور 9 کا ہوتا ہے جس کے تحت اس کی سزا عمر قید اور کم از کم تین سال ہے۔ ایک ملزم چیف جسٹس صاحب کے پاس ضمانت کرانے آیا تھا، باقی ملزمان مفرور تھے۔ چیف جسٹس صاحب نے انہیں بغیر مانگے، ان کی درخواست ضمانت کو اپیل میں بدلا اور پھر اسے قبول کرنے کا اعلان کر دیا، یعنی وہ سب جرم سے بری قرار دیے گئے۔

اس فیصلے پرجب علماء اورمذہبی جماعتوں نے احتجاج کیاتواس کے بعدچیف جسٹس نے 26 فروری 2024 کودینی اداروں اورعلماء سے معاونت طلب کی جس میں دس سے زائداداروں اورشخصیات نے معاونت فراہم کی ۔علماء کے اعتراضاف اوراحتجاج کے بعدپہلے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرِ ثانی فوجداری پٹیشن نمبر:2 of 2024 دائر ہوئی 29مئی کو مختلف مذہبی اداروں اورشخصیات نے پہلے فیصلے پرتفصیلی اعتراضات تحریری وتقریری جوابات جمع کروائے ،24جولائی 2024 کونظرثانی پیٹیشن کافیصلہ سنایاگیامگردینی حلقوں کااضطراب دورنہ ہوسکابلکہ پہلے سے بھی بڑھ گیا ۔ سپریم کورٹ نے نظرثانی فیصلہ اردومیں جاری کرتے ہوئے پچاس پیراگراف تحریرکیے۔مگرپھرباریک واردات ڈالی گئی ۔ نظرِ ثانی فیصلے کے پیراگراف 42 میں لکھاکہ: ''آئینی وقانونی دفعات اور عدالتی نظائر کی اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ احمدیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انہیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار اوراس کی تبلیغ کا حق اس شرط کے ساتھ حاصل ہے کہ وہ عوامی سطح پرمسلمانوں کی دینی اصطلاحات استعمال نہیں کریں گے نہ عوامی سطح پر خود کو مسلمانوں کے طور پر پیش کریں گے تاہم اپنے گھروں عبادت گاہوں اور اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندر انہیں قانون کے تحت مقرر کردہ ''معقول قیود کے اندر ''گھر کی خلوت کا حق حاصل ہے۔(سپریم کورٹ نے اپنے 22اگست کے فیصلے میں یہ پیراگراف بھی حذف کردیا)

اسی طرح سپریم کورٹ کے نظرثانی فیصلے میںپیراگراف نمبر 49سی میں کہاگیاتھا کہ خودکواحمدی کہنے والوں کے مذہبی حقوق کے مسئلے پر،،مجیب الرحمن بنام حکومت پاکستان ،،کے مقدمے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اورظہیرالدین بنام ریاست کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے پانچ ر کنی بینچ کے فیصلوں کولازمی نظیروں کی حیثیت حاصل ہے اورعدالت ہذانے اپنے حکم نامہ چھ فروری 2024میں ان نظیروں سے انحراف نہیں کیا (سپریم کورٹ نے اپنے 22اگست کے فیصلے میں یہ پیراگراف بھی حذف کردیا) اس حوالے سے علماء کرام نے مئوقف اختیارکیاتھا کہ نظرِ ثانی فیصلے کے پیراگراف 42 کا مذکورہ بالا حصہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298C سے صراحتا متصادم ہے کیوں کہ جس طرح قتل کرنا ،منشیات بیچناسرعام جرم ہے اسی طرح یہ چاردیواری کے اندربھی جرم ہے قادیانیوں کوجس طرح سرعام عبادت کی اجازت نہیں اسی طرح چاردیواری کے اندربھی اپنے مذہب کے پرچارکی اجازت نہیں ۔،جبکہ پیراگراف 49سی سپریم کورٹ کے اپنے سابقہ فیصلوں ظہیر الدین بنام ریاست مقدمے میں جسٹس سلیم اختر کے اضافی نوٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے بعنوان ''مجیب الرحمن کے بھی خلاف تھا۔

عدالت نے پہلے فیصلے کے حوالے سے جن حلقوں سے آرا طلب کی تھیں ان کواہمیت ہی نہیں دی گئی بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کوبھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاگیا۔اس کے علاوہ ٹرائل کورٹ میں ابھی شہادتیں پیش کی جا رہی تھیں ملزم کا نہ بیان ریکارڈ ہوا تھا اور نہ اس پر جرح ہوئی تھی اور یہ بحث بھی باقی تھی کہ شہادتوں کی روشنی میں 298C کا جرم ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر ٹرائل کورٹ سے پہلے ہی سپریم کورٹ نے ملزم کے حق میں فیصلہ کردیا۔نظر ثانی فیصلے کے پیراگراف 6 میں ایک بار پھر یہ بحث چھیڑی گئی کہ جب مجرم نے جرم کیااس وقت وہ قانون ہی موجودنہیں تھا حیرت ہے کہ اسے پڑھے اور سمجھے بغیر نظر ثانی فیصلے میں دوسری بار اسی غلطی کا اعادہ کر دیا کہ 2019 کے قانون میں قابلِ اعتراض کتاب کے طابع ناشر یا ریکارڈ رکھنے والے اور مرتب کو مجرم قرار دیا گیا تھاحالانکہ توہین قران کا قانون 2011 سے موجود ہے جبکہ2021 کے قانون میںمزیدترمیم کرتے ہوئے تقسیم کنندہ (Disseminator) کو بھی مجرم قرار دے دیا گیا تھا ۔

دوسرے فیصلے کوبھی علماء کرام نے مستردکرتے ہوئے احتجاج شروع کردیااحتجاج کے بعدیہ فیصلہ قومی اسمبلی میں بھی زیر بحث آ یا جس کے بعد سپیکر نے اسے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کے سپرد کر دیا ۔15اگست کواس حوالہ سے قائمہ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوااوراپنی سفارت سپیکرکوپیش کیں ۔جس کے بعد18 اگست کو سپریم کورٹ میں مبارک احمد ثانی کیس کے فیصلے میں سے بعض حصوں کو خارج کرنے کی وفاقی اورپنچاب حکومتوںکی درخواست دائرہوئیں جو 22 اگست کو سماعت کے لیے مقرر ہوئیں ۔ جس کے بعدسپریم کورٹ نے اپنے 22اگست کودیے گئے فیصلے میں کہاکہ عدالت اپنے 6 فروری اور 24 جولائی 2024 کے فیصلے میں تصحیح کرتی ہے، عدالت اپنے دونوں فیصلوں سے معترضہ پیراگرافس حذف کرتی ہے، ان حذف شدہ پیراگرافس کو نظیر کے طور پر پیش یا استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔ ٹرائل کورٹ ان پیراگرافس سے متاثر ہوئے بغیر مذکورہ مقدمے کا فیصلہ قانون کے مطابق کرے۔ اس مختصر حکم نامے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔


واپس کریں