دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسماعیل ہنیہ ،پناہ گزین کیمپ سے حماس کی سربراہی تک
عمرفاروق۔آگہی
عمرفاروق۔آگہی
سات اکتوبر2023 کو ہونے والے حملوں کے بعد سے اسرائیل حماس کے رہنمائوں کو نشانہ بنا نے کی کوشش کررہاتھا مگراسرائیل اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکاتھا لیکن بدھ کی صبح وہ اہم ٹارگٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیاتاہم ابھی تک اسرائیل نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے ۔فلسطین کی عسکری تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ 62سالہ اسماعیل ہنیہ کو مقامی وقت کے مطابق رات دو بجے ایک میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ۔اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے ۔ کارروائی میں اسماعیل ہنیہ کے ساتھ ان کے ساتھی وسیم ابو شعبان میںشہید ہوئے ہیں۔اسمعیل کے جسد خاکی کوقطرمیں ان کے مرشد علامہ یوسف قرضاوی کے پہلو میں دفن کیا جائے گا۔ جمعہ کی نماز کے بعد دوحہ کی جامع مسجد امام عبد الوہاب میں جنازہ ہوگا۔

اس سے قبل اس سال جنوری میں جنوبی بیروت لبنان میں صالح العاروری کوایک ڈرون حملے میں شہیدکیاگیا وہ اسماعیل کے نائب اورالقسام بریگیڈکے اہم رہنماتھے اورحسن نصراللہ کی دعوت پر وہ حزب اللہ اور حماس کے درمیان رابطے کی غرض سے لبنان میں موجود تھے۔حماس کے ڈپٹی رہنما امریکہ کے دہشتگردوں کی فہرست کا حصہ تھے اور 2018 سے ان کے سر کی قیمت پچاس لاکھ ڈالر رکھی گئی تھی۔ایران اوربیروت میں حماس کے دواہم ترین رہنمائوں کے اس طرح مارے جانے سے بہت سے سوالات ہیں ایران اورحزب اللہ کے حوالے سے بہت سی انگلیاں اٹھ رہی ہیں فی الحال اسماعیل ہنیہ کے حالات زندگی پرنظرڈالتے ہیں ان سوالات پراگلے کالم میں بات کریں گے ۔

اسمعیل ہنیہ 29 جنوری 1962 کو غزہ کے الشاتی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے، ان کے والدین 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل کے قصبے اشکلون کے قریب اپنا گھر چھوڑکریہاں منتقل ہوئے تھے ۔ہنیہ نے ابتدائی تعلیم بطور ایک پناہ گزین اقوام متحدہ کے سکول سے حاصل کی اس وقت عرب اسرائیل جنگ جاری تھی اور یہ علاقہ مصر کے زیرِ تسلط تھا،انہوں نے الازہر انسٹی ٹیوٹ سے ہائی اسکول کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا، اس کے بعد انہوں نے 1987 میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور عربی ادب میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں اسی یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا۔ اسماعیل عبدالسلام ہنیہ جن کو عبدالعبد کے نام سے بھی جانا جاتاتھا ۔

اسماعیل ہنیہ 1988 میں حماس کے قیام کے وقت ایک نوجوان بانی رکن کی حیثیت سے اس میں شامل ہوئے ،1988 میں پہلے انتفادہ میں شرکت کرنے پر اسماعیل کو اسرائیل نے 6 ماہ قید میں رکھا ،اورپھر 1989 میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور وہ تین سال جیل میں رہے، 1992 میں رہائی کے بعد اسرائیلی قابض حکام نے اسمعیل ہنیہ سمیت حماس کے سینئر رہنماں عبدالعزیز الرنتیسی، محمود ظہار، عزیز دوائیک و دیگر 400 کارکنان کو لبنان جلا وطن کردیا۔جلاوطن کارکنان جنوبی لبنان کے مرج الظہور میں ایک سال سے زائد عرصے تک مقیم رہے جہاں حماس کو میڈیا کی بھرپور کوریج ملی اور یہ عالمی سطح پر مقبول ہوئی۔جس کے اگلے سال اوسلو معاہدے کے بعد اسماعیل ہانیہ کی غزہ واپسی ہوئی۔

اسماعیل ہنیہ دسمبر 1993 میں غزہ واپس آئے اور اسلامی یونیورسٹی کے ڈین مقرر ہوئے۔1997 میں وہ حماس کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین کے پرسنل سیکریٹری بن گئے اورانہیں 1997 میںہی شیخ احمد یاسین کے دفتر کا سربراہ متعین کیاگیاتھا۔اسماعیل ہنیہ نے بہت جلد ہی شیخ یاسین کا اعتماد حاصل کر لیا اور انہیں 2003 میں ان کا حماس کے سربراہ کا مشیر مقرر کیا گیا۔
اسمعیل ہنیہ نے سیاسی سفرتیزی سے طے کیا۔ 2006 میں اسماعیل ہنیہ کو 15 جنوری کے انتخابات میں حماس کی مہم کی قیادت کے لیے منتخب کیا گیا جس میں تحریک کے امیدواروں نے فلسطینی قانون ساز کونسل کی 132 نشستوں میں سے 76 نشستیں حاصل کی تھیں،اسمعیل ہنیہ کو 16 فروری 2006 کو وزیراعظم کے طور پر نامزد کیا گیا اور 29 مارچ 2006 کو اسمعیل ہنیہ نے بطور فلسطینی وزیراعظم عہدے کا حلف اٹھایا۔جون 2007 میں حریف جماعت فاتح پارٹی کے ساتھ پرتشدد تنازع کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس نے اسمعیل ہنیہ کو عہدے سے برطرف کردیا تاہم وہ غزہ کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرتے رہے جہاں حماس نے اپنی غیرسرکاری حکومت قائم کی تھی اور غزہ کی پٹی کے تمام انتظامی امور حماس کے کنٹرول میں تھے۔

2017 میں انہیں خالد مشعال کی جگہ حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا تھامشعل حماس تحریک کے بانیوں میں سے ایک ہیں اور وہ اس تحریک کے آغاز سے ہی اس کے سیاسی بیورہ کے سربراہ تھے۔ وہ 1996 سے 2017 تک تحریک کے سیاسی بیورو کے صدر بھی رہے ہیں۔اسماعیل کے تقرر کے کچھ عرصے بعد ہی امریکہ نے حماس کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔وہ 2016سے ترکیہ اورقطرمیں جلاوطنی کی زندگی گزاررہے تھے اور 2023 وسے وہ قطر میں قیام پذیر تھے،حالیہ ہفتوں میں انہوں نے ترکیہ، مصر، قطر اور ایران کا سفر کیا تھا،وہ بین الاقوامی سفارت کاری کا ایک خوبصورت چہرہ تھے۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ہنیہ نومبر کے اوائل میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات کے لیے تہران آئے تھے۔ خامنہ ای نے اس ملاقات میں حماس کے رہنما کو بتایا تھا کہ ایران غزہ جنگ میں شامل نہیں ہوگا کیوں کہ اس کے بارے میں پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔اسرائیلی افواج نے حماس کے بیشتر رہنمائوں کو نشانہ بنایا۔اسمعیل ہنیہ کوبھی اس سے قبل متعددمرتبہ انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی مگروہ ناکام رہا، اور 2003 میں اسمعیل ہنیہ بھی اسرائیل کے میزائل حملے کی زد میں آئے لیکن اس میں ان کا ہاتھ زخمی ہوا۔2006 میں اسرائیلی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کے دفاتر کو نشانہ بھی بنایا۔ اس حملے میں تین محافظ زخمی ہوئے لیکن اسماعیل ہنیہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔
20 مئی 2024 کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر کریم خان کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کے تحت اسمعیل ہنیہ کے ساتھ ساتھ دیگر حماس رہنمائوں اور اسرائیلی وزیراعظم کے لیے وارنٹ گرفتاری کی درخواست کی گئی تھی۔

اسماعیل ہانیہ نے سولہ سال کی عمر میں اپنی کزن امل ہانیہ سے شادی کی، اور ان کے 13 بچے تھے جن میں آٹھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ان کے آٹھ بیٹوں میں سے تین بیٹے اور چار پوتے، پوتیاں 10 اپریل 2024 کوعید کے دن غزہ کی پٹی میں الشاتی کیمپ میں ہونے والے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں شہیدہوگئے تھے ۔جن میں حازم، عامر اور محمدشامل تھے۔جب اسمعیل سے پوچھاگیا کہ ان کے بیٹوں کی موت سے فائر بندی کے مذاکرات متاثر ہوں گے تو ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی عوام کے مفادات ہر چیز سے بالاتر ہیں۔بعد ازاں گزشتہ ماہ اسرائیل کے غزہ پر فضائی حملے میں اسماعیل ہنیہ کی بہن زہرہ ہنیہ سمیت خاندان کے 10 افرادشہیدہوگئے تھے ۔مجموعی طورپراسماعیل ہنیہ کے خاندان کے سترسے زائدافرادفلسطین کی آزادی کے لیے قربان ہوچکے ہیں۔

واپس کریں