عمرفاروق۔آگہی
عمرفاروق /آگہی
شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ واجدبھی عمران نیازی کے نقش قدم چل پڑیں ۔جس طرح عمران نیازی اقتداری سے بے دخلی کاالزام امریکہ پرعائدکرتے ہوئے ایک سائفراورسازشی بیانیہ سامنے لائے تھے اسی طرح شیخ حسینہ بھی امریکہ پرحکومت کے خاتمے کاالزام عائدکرتے ہوئے سینٹ مارٹن جزیرہ کولے آئی ہے ۔شیخ حسینہ نے امریکہ پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ انہیں عہدے سے ہٹانا سینٹ مارٹن جزیرے سے متعلق گیم کا حصہ تھا۔ذرائع کاکہناہے کہ یہ بیان دراصل شیخ حسینہ واجد کا مستعفی ہونے سے قبل قوم سے کی جانے والی تقریر پر مبنی تھا جو انہیں کرنے نہیں دی گئی تھی۔بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی ایک ویڈیو ریکارڈنگ گردش کر رہی ہے جس میں انہیں یہ کہتے سنا گیا کہ 'میں اقتدار میں رہ سکتی تھی اگر میں سینٹ مارٹن آئی لینڈ اور خلیج بنگال امریکا کو دے دیتی۔ امریکہ نے اسٹریٹجک لحاظ سے اہم جزیرے پر اپنا کنٹرول رکھنے کے لیے دبا ئوڈال کر بنگلہ دیش کے سیاسی منظر نامے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ امریکہ کا مقصد سینٹ مارٹن جزیرے پر ایک ایئربیس قائم کرنا ہے جس سے خلیج بنگال پر زیادہ اثر و رسوخ جمانا ہے ، جزیرے کی خودمختاری کے حوالے سے ان کا انکار ان کے سیاسی زوال کا باعث بنا ہے۔ امریکہ نے مبینہ طور پر سیاسی فائدے کے لیے بحران سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ کا مقصد طلبہ کی زیرقیادت مظاہروں پر اثر انداز ہونا تھا جو بالآخر ان کے استعفی پر ختم ہوا، اور دعوی کیا کہ یہ احتجاج خطے کو غیر مستحکم کرنے اور بنگلہ دیش اور میانمار کے کچھ حصوں کو ملا کر ایک نئی "عیسائی ریاست" بنانے کی وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے۔میں اپنے ملک کے لوگوں سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ شدت پسندوں کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ان کااستعفی ایک عارضی دھچکا ہے اللہ کی مہربانی سے میں بہت جلد واپس آئوں گی۔ عوامی لیگ بار بار واپس آئی ہے۔ میں بنگلہ دیش کے مستقبل کے لیے دعاگوں رہوں گی کیونکہ اس ملک کے لیے میرے والد نے اپنی جان دی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب حسینہ واجد نے دعوی کیا ہو کہ وہ سینٹ مارٹن جزیرہ امریکا کو دینے کی اجازت دے کر اقتدار میں رہ سکتی ہیں۔اس سے پہلے بھی وہ یہ بات کرتی رہی ہیں ،بنگلہ دیش میں اس سال جنوری میں ہونے والے انتخابات سے پہلے سابق وزیر اعظم نے کہا تھا کہ 'ایک سفید فام آدمی(امریکی )نے انہیں ایک ایئربیس کے بدلے اقتدار میں دوبار آسانی سے واپسی کی پیشکش کی تھی۔ اسی طرح 2003میں، اس وقت کی امریکی سفیر میری این پیٹرز نے میڈیا کی ان قیاس آرائیوں کو مسترد کر دیا تھاکہ واشنگٹن ڈھاکہ سے ایک فوجی اڈہ لیز پر دینے کے لیے بے چین ہے تاکہ وہ اپنی افواج کو مشرق وسطی اور مشرق وسطی کے درمیان کہیں تعینات کرے۔
سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے دعوے جزیرے کی جغرافیائی سیاسی اہمیت سے جڑے ہوئے ہیں ۔سینٹ مارٹن جزیرہ جو خلیج بنگال کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے، بنگلہ دیش کا واحد مرجانی چٹان والا جزیرہ ہے جو اقتصادی اور حکمت عملی دونوں لحاظ سے کافی اہمیت رکھتا ہے۔اسے بنگلہ دیش میں ناریکیل جنجیرا (ناریل جزیرہ) یا دارو چینی جزیرہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ بنگلہ دیش کا جزیرہ اپنی شاندار قدرتی خوبصورتی، جیسے نیلے پانیوں اور متنوع سمندری زندگی جیسے کورلس کے لیے مشہور ہے۔ یہ جزیرہ خاص طور پر سردیوں میں سیاحوں کا ایک مشہور مقام ہے۔
یہ جزیرہ تقریبا پانچ سے چھ ہزارافراد کی مقامی آبادی پر مشتمل ہے جن کا ذریعہ معاش ماہی گیری، چاول، ناریل کی کاشت اور سیاحت پر منحصر ہے اس کے علاوہ یہاں کے لوگ سمندری گھاس کی کٹائی کاکام کرتے ہیں جسے خشک کرکے میانمار کو برآمد کیا جاتا ہے۔اس جزیرے کا رقبہ صرف تین مربع کلومیٹر ہے، اور یہ کوکس بازار-تنکرف(یاٹیکناف) سے تقریبا 9 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور میانمار کے شمال مغربی ساحل سے 8 کلومیٹر مغرب میں ہے۔سینٹ مارٹن جزیرے کی خودمختاری بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے تنازعہ کو 2012 میں بین الاقوامی عدالت برائے قانون برائے سمندر (ITLOS) نے جزوی طور پر حل کیا، جس نے بنگلہ دیش کے علاقائی سمندر اور خصوصی اقتصادی زون کے اندر جزیرے کی حیثیت کی تصدیق بھی کی تھی۔1937 میں میانمار کی علیحدگی کے بعد یہ جزیرہ برٹش انڈیا کا حصہ رہا تاہم 1947 میں تقسیم کے بعد یہ پاکستان کے کنٹرول میں چلا گیا لیکن 1971 میں یہ بنگلہ دیش کا حصہ بن گیاتاہم بنگلہ دیش کے ساتھ اپنی سمندری حدود کی حد بندی کے تنازع کی وجہ سے میانمار جزیرے پر اپنا دعوی کرتا رہاہے اور 2018 میں میانمار نے اپنے سرکاری نقشے میں سینٹ مارٹن کے جزیرے کو بھی شامل کرلیا تھا۔ میانمار نے بعد میں اس غلطی کو درست کیا اور اس جزیرے کو بنگلہ دیش کا حصہ ہونے کی تصدیق بھی کی تھی۔
یہ جزیرہ اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس جزیرے پر فوجی اڈہ قائم کرنے کا مطلب آبنائے ملاکا پر اسٹریٹجک موجودگی ہے، جسے زیادہ تر چینی اپنی نقل و حمل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اس جزیرے کو نگرانی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس کے ذریعے پڑوسی ممالک بشمول چین، میانمار یا یہاں تک کہ بھارت پر بھی نظر رکھی جاسکتی ہے۔جہاں تک عیسائی ریاست کاتعلق ہے توبنگلہ دیش، میانمار اور ہندوستان میں عیسائی ریاست بنانے کی سازش کرنے والے مغربی ممالک کے متعلق دعوے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ اس جزیرے کے متعلق ایک عرصے سے یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ جزیرے کے اسٹریٹجک محل وقوع اور وہاں موجودگی قائم کرنے میں امریکی دلچسپی کے الزامات نے مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ، بنگلہ دیش، میانمار اور ممکنہ طور پر ہندوستان کے کچھ حصوں پر قبضہ کر کے ایک عیسائی ریاست بنانے کی سازش کررہاہے ، ان ممالک اوربھارت کے منی پوراورآسام میں چلنے والے باغی گروہوں ، جیسے کوکی چن نیشنل فرنٹ (KNF)اور یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام (ULFA)کے درمیان خفیہ تعاون کی بھی خبریں بھی منظرعام پرآتی رہی ہیں ۔
اس حوالے سے مختلف دستاویزات بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ جس میں بتایاگیاکہ اس علاقے میں عیسائی مشنریوں اور مغربی این جی اوز کی خفیہ گرمیاں بھی جاری ہیں ، جس کا مبینہ مقصد مسلمانوں، ہندوئوں، بدھ متوں اور نسلی اقلیتوں کو عیسائیت میں تبدیل کرنا اور بنگلہ دیش، بھارت، اور میانمار پر محیط ایک عیسائی ریاست کے قیام کے لیے بنیادیں تیار کرنا ہے۔این جی اوز کا مقصد مذہبی اقلیتوں کو عیسائیت میں تبدیل کرنا اور عیسائی ریاست کے قیام کی بنیاد رکھنا ہے یہ تنظیمیں عیسائیت کو فروغ دینے اور ممکنہ طور پر ایک عیسائی ریاست کی تشکیل کے مقصد سے ان ممالک کے سرحدی علاقوں، جیسے کہ ٹیکناف، کھگراچھڑی، رنگاماٹی، میزورم، میگھالیہ، اور اراکان صوبے میں خفیہ طور پر کام کر رہی ہیں۔ان حقائق کودیکھتے ہوئے حسینہ واجدکے دعوے یاالزام کوآسانی سے مستردنہیں کیاجاسکتااب نگران حکومت اورآنے والی حکومت کے اقدامات کودیکھناہوگا کہ وہ اس حوالے سے کیاکرتے ہیں ۔نئی بنگالی حکومت کواس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرناہوگی کیوں کہ یہ صرف بنگلہ دیشن کامسئلہ نہیں ہے بلکہ اس خطے میں بسنے والے تمام مسلمانوں کامشترکہ مسئلہ ہے ۔
واپس کریں