دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کملاہیرس اوران کی والدہ کی دلچسپ کہانی
عمرفاروق۔آگہی
عمرفاروق۔آگہی
امریکی صدر جو بائیڈن نے کئی ہفتوں تک صدارتی انتخابات سے دستبردار ہونے کے بعد اپنی جگہ نائب صدر کملا ہیرس کو ڈیموکریٹ پارٹی کا امیدوار نامزد کر رہے ہیں۔کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی ڈیموکریٹ سینیٹر کملاہیرس2020میں پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں جو بائیڈن کے مخالف تھیں تاہم بائیڈن نے اپنے انتخاب کے بعد کملا کو اپنے نائب کے طور پر چنااوراب انہیں صدارتی امیدوارنامزدکیاہے ۔ امریکہ کی تاریخ میں کملا ہیرس ملک کی نائب صدر بننے والی پہلی خاتون کے ساتھ ساتھ اس عہدے پر پہنچنے والی پہلی سیاہ فام اور جنوبی ایشیائی امریکی بھی ہیں، کملا ہیرس کی والدہ انڈیا جبکہ والد جمیکا میں پیدا ہوئے تھے۔

کملاہیرس کے لیے یہ اعزازاس لیے بھی منفردہے کہ امریکہ کی تاریخ میں اب تک صرف دو خواتین کو نائب صدر کے امیدوار کے طور پر چنا گیا ہے۔ رپبلکن جماعت کی جانب سے سارہ پالن کو 2008میں چنا گیا تھا اور جیرالڈین فیریرو کو ڈیموکریٹس کی جانب سے1984 میں چناگیاتھا ۔ تاہم دونوں کی وائٹ ہاس تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔ صدارتی نامزدگی کے بعدکاملاہیرس کوسب سے پہلاچیلنج ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نامزدگی حاصل کرنے کے لیے حمایت حاصل کرناہے ،تاہم اب خبریں آرہی ہیں کہ کملا نے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے غیر سرکاری طور پر 2200 سے زیادہ ڈیلیگیٹس کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے 1976 ڈیلیگیٹس درکار ہوتے ہیں ، حتمی فیصلہ 19 سے 22 اگست تک جاری رہنے والے پارٹی کے نیشنل کنونشن میں ہو گا۔صدر بائیڈن کی جانب سے انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی کملا ہیرس نے اپنی انتخابی مہم کے لیے آٹھ کروڑ ڈالر سے زائد چندہ جمع کیا۔

کملاہیرس کی کامیابیوں کی کہانی اس وقت تک نہیں لکھی جا سکتی جب تک اس سفر کا ذکر نہ ہو جو ان کی والدہ نے 1958میں اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے انڈیا کے شہرچنائی سے امریکہ تک کیا۔ایک سرکاری ملازم والد اور گھر میں رہنے والی والدہ کے چار بچوں میں شیامالہ گوپالن سب سے بڑی تھیں اور بائیو کیمسٹری پڑھنا چاہتی تھیں۔لیکن دلی میں قائم لیڈی ارون کالج برائے خواتین میں ہارڈ سائنس نھیں پڑھائی جاتی تھی، جس کی وجہ سے انھیں ہوم سائنس میں انڈرگریجویٹ کی ڈگری حاصل کرنا پڑی، جہاں انھوں نے گھرداری جیسے مضامین کا مطالعہ کیا۔
شیامالہ گوپالن نے برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں سکارشپ کی درخواست دی جسے قبول کر لیا گیا۔ صرف 19 برس کی عمر میں شیامالہ گوپالن نے غذائیت اور اینڈو کرینولوجی میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے انڈیا کو ایک ایسے ملک کے لیے چھوڑا جہاں وہ پہلے کبھی نہیں آئی تھیں اور جہاں وہ نہ ہی کسی کو جانتی تھیں۔

امریکہ میں یہ دور انتہائی دلچسپ تھا۔شہری حقوق کی تحریک عروج پر تھی اور نسلی امتیاز کے خلاف برکلے مظاہروں کا مرکز تھا۔ بہت سارے غیر ملکی طلبا کی طرح شیامالہ بھی امریکہ اور دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کی اس جنگ میں شامل ہو گئیں۔دوست انھیں ایک چھوٹے قد کے انسان کی طرح یاد کرتے ہیں جو ساڑھی پہنتی تھیں اور ماتھے پر بندیا لگاتی تھیں۔وہ افریقی امریکی ایسوسی ایشن میں وہ واحد انڈین، واحد غیر افریقی امریکی تھیں۔کملا ہیرس نے 2019میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ( The Truths we Hold) میں اپنی ماں کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ان کی والدہ سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آئیں گی اور ان کی شادی کر دی جائے گی لیکن تقدیر کے منصوبے کچھ اور تھے۔ 1962 میں ان کی ملاقات ڈونلڈ ہیرس سے ہوئی، جو جمیکا سے برکلے معاشیات کی تعلیم حاصل کرنے آئے تھے، اور دونوں میں محبت ہو گئی۔1963 میں دونوں نے شادی کر لی اور ایک برس بعد 25 برس کی عمر میں شیامالہ گوپالن نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لی اور اس کے ساتھ ہی کملا کو جنم دیا۔ دو برس بعد اس جوڑے کے ہاں دوسرے بچے یعنی کملا کی بہن مایا کی پیدائش ہوئی۔

2003 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں تامل برہمن شیامالہ گوپالن نے کہا کہ ایک امریکی سے شادی کر کے انھوں نے خاندان کی اس روایت کو توڑا جو ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے سے چلی آ رہی تھی۔شیامالہ کے والدین نے اپنے داماد سے پہلی ملاقات شادی کے تین برس بعد 1966 میں زیمبیا میں کی، جب شیامالہ کے والد کا تبادلہ وہاں ہوا۔یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور اس جوڑے میں اس وقت علیحدگی ہو گئی جب کملا ہیرس صرف پانچ برس کی تھیں۔کملاہیرس کاکہناہے کہ کہ ان کی والدہ کی زندگی آسان نھیں تھی، وہ گھنٹوں کام کرتیں، کینسر سے متعلق تحقیق کرتیں اور اپنی بیٹیوں کا بھی خیال رکھتی تھیں۔شیامالہ گوپالن کی وفات فروری 2009 میں ستر برس کی عمر میں آنتوں کے کینسر سے ہوئی۔ انھیں دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر میں ہارمونز کے کردار کے حوالے سے دریافتیں کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز برکلے کے ڈیپارٹمنٹ آف زولوجی اور کینسر ریسرچ لیبارٹری سے کیا تھا۔جب شیامالہ کا کینسر پھیلنے لگا تو انھوں نے اپنے زندگی کے آخری ایام انڈیا واپس آ کر اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا لیکن ایسا نھیں ہو سکا۔

کملاہیرس اپنی خود نوشت میں لکھتی ہیں: 'میری والدہ اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ وہ دو سیاہ فام بیٹیوں کی پرورش کر رہی ہیں۔ انھیں پتہ تھا کہ ان کا اختیاری مادر وطن مجھے اور مایا کو دو سیاہ فام لڑکی کے طور پر دیکھے گا اس لیے وہ یہ یقین دہانی کرنا چاہتی تھیں کہ ہم پراعتماد اور فخر کرنے والی سیاہ فام خاتون کے طور پر بڑی ہوں۔کملا نے امریکہ میں کالج کی تعلیم حاصل کی اور چار سال ہارورڈ یونیورسٹی میں گزارے جو کہ ملک میں تاریخی اعتبار سے سیاہ فام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ہارورڈ میں چار سال رہنے کے بعد کملا ہیرس نے ہیسٹنگز میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے قانون کی ڈگری کی اور المیڈا کائونٹی ڈسٹرکٹ اٹارنی کے دفتر سے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔وہ 2003 میں سان فرانسسکو کے لیے اعلی ترین ڈسٹرکٹ اٹارنی بن گئیں۔ اس کے بعد وہ امریکہ کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کیلیفورنیا میں اعلی وکیل اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار کی حیثیت سے ابھریں اور کیلیفورنیا کے اٹارنی جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی پہلی خاتون اور پہلی سیاہ فام شخص منتخب ہوئیں۔

اٹارنی جنرل کی حیثیت سے اپنے عہدے کی تقریبا دو میعادوں میں ہیرس نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ابھرتے ہوئے ستارے کی حیثیت سے شہرت حاصل کی اور ترقی و شہرت کی اس رفتار کا استعمال کرتے ہوئے 2017 میں کیلیفورنیا کی جونیئر امریکی سینیٹر کی حیثیت سے اپنے انتخاب کو مہمیز دی۔امریکی سینیٹ میں منتخب ہونے کے بعد کملا نے سینیٹ کی اہم سماعتوں میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے نامزد امیدوار بریٹ کاوانوف اور اٹارنی جنرل ولیم سے تیکھے سوالات کرنے کے لیے ترقی پسندوں میں مقبولیت حاصل کی۔2019 میں انھوں نے کیلیفورنیا کے شہر آکلینڈ میں 20 ہزار سے زیادہ لوگوں کے ہجوم کے درمیان صدارتی امیدواری کی کوششوں کا آغاز کیا مگروہ کامیاب نہ ہوپائی تھیں ۔

ہم جنس پرستوں کی شادی اور سزائے موت جیسے معاملات پر بائیں بازو کے نظریات کی جانب جھکا ئوکے باوجود انھیں ترقی پسندوں کی طرف سے بار بار حملوں کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ کافی ترقی پسند نہیں ہیں،گزشتہ صدارتی مباحثوں میں کملا ہیرس نے پولیس اصلاحات، منشیات کی اصلاح اور غلط سزائوں جیسے معاملات پر ترقی پسندوں کو مطمئن نہیں کرپائی تھیں ۔والدہ کے انڈین ہونے کی وجہ سے کملاکو انڈین ووٹ مل سکتے ہیںایک اندازے کے مطابق امریکہ میں انڈین کی تعداد 16 سے 20 لاکھ کے درمیان ہے۔تاہم پانچ اگست 2019کے اقدامات کے بعد جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سخت پابندیاں عائد کیں تو کملا ہیرس نے کہا تھا کہ ہمیں کشمیریوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ وہ اپنی اس جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں۔ہم حالات کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں اور اگر حالات کا تقاضہ ہوا تو ہمیں مداخلت کرنے کی ضرورت ہو گی۔

واپس کریں