دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اوراب سپرم بنک ؟
عمرفاروق۔آگہی
عمرفاروق۔آگہی
این جی اوزکی پشت پناہی سے پاکستان میں بھی سپرم بینک (sperm bank) قائم ہو گیا ہے(یعنی مرد کے مادہ تولید کا بینک) بلکہ سوشل میڈیاکے ذریعے اس کی بھرپورتشہیربھی کی جارہی ہے ۔ جس میں لوگوں کو ترغیب دی جارہی ہے کہ آئیںاپنانطفہ گفٹ کریں ، اپنا نطفہ بیچ کر پیسے کمائیں، اور جس کو نطفہ کی ضرورت ہو وہ آکر لے جائے، کوئی پتہ نہیں کس کا نطفہ کس کے رحم میں جارہاہے اورکس خاندان میں کون سے علاقے میں اس سے بچے پیداہورہے ہیں؟مہنگائی اوربے روزگاری کے اس دورمیں یہ مکروہ دھندہ اس وقت عروج پرہے ۔لیبارٹری میں مصنوعی طور پر بچوں کی پیدائش کے تولیدی عمل کا کانام آئی وی ایف(ان ویٹرو فرٹیلائزیشن) ہے ۔ اس طریقے کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی بھی کہا جاتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر1978سے2022 تک اس طریقے سے 80لاکھ سے زیادہ بچے پیدا ہو چکے ہیں۔اس کی مختلف صورتیں ہیں ۔

1۔کسی مرد یا عورت میں موجود نقص یا پیچیدگی کی وجہ سے جب مرد کا سپرم عورت کے ایگز تک نہ پہنچ سکے اور اس کی وجہ سے قدرتی طور پر بچے کی پیدائش ممکن نہ ہو تو عورت کے ایگز اور مرد (خاوند)کے سپرمز کو ان کے جسم سے باہر نکال کر ان کو لیبارٹری میں ملا دیا جاتا ہے جس کے دو دن بعد اسے عورت(اس کی اپنی بیوی ) کی بچے دانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔تاہم یہ آئی وی ایف کی صرف ایک قسم ہے۔ اس کے علاوہ 'سروگیسی' اور عطیہ شدہ ڈونر ایگ اور عطیہ شدہ سپرم کے ذریعے بھی بچے پیداکرنے کی صورتیں ہیں ۔

2۔سروگیسی کے عمل میں مرد کا سپرم اور عورت کا ایگ ملا کر کسی تیسری خاتون کی بچے دانی میں رکھ دیا جاتا ہے ۔آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ یعنی اگر بیوی کے ایگز کا معیار ٹھیک نہیں تو اس کی جگہ کسی اور کا ایگ شوہر کے سپرم کے ساتھ ملایا جا تاہے اور اسے بیوی کی بچے دانی یا کسی اور عورت(سروگیٹ ماں)کی بچے دانی میں نشونما کے لیے رکھا جا تاہے۔

3۔اس کے علاوہ اگر مرد کا نطفہ یا عورت کے ایگ کا معیار صحت مند بچے پیدا کرنے کے لیے کافی نہیں تو اس کی جگہ کسی تیسرے بندے کا عطیہ شدہ یاخریداگیا ایگز یا سپرمز سے بچے کی پیدائش ممکن بنائی جاتی ہے۔

4۔چوں کہ بہت سے ممالک میں ہم جنس پرستی قانونی طورپردرست ہے تو وہاں یہ سسٹم رائج ہے اورآہستہ آہستہ ہمارے ملک میں بھی اس کورواج دیاجارہاہے ایسے میںجب دو مردوں نے شادی کر لی ہے تووہ دونوں بچہ پیداکرنے کے لیے کسی عورت کا رحم کرائے پر لیتے ہیں ۔

5۔اسی طرح جب دو عورتوں نے شادی کر لی تووہ بچے کیے لیے کسی کا نطفہ خریدتی ہیں، یہ ہے سپرم بینک کا سسٹم۔ 2018 کے ایک جائزے کے مطابق آسٹریلیا میں عطیے میں نطفہ لینے والے افراد میں سے 85 فیصد یا تو اکیلی رہنے والی خواتین تھیں یا ہم جنس پرست خواتین جوڑے تھے ۔

پاکستان میں بانجھ پن کے علاج کے نام پر آئی وی ایف کا آغاز 1984میں ڈاکٹرراشدلطیف نے لاہور میں پاکستان کے پہلے آئی وی ایف سنٹر 'لائف' کا قیام کرکے اس کاآغازکیااورانہوں نے 1989 میں پاکستان کے پہلے ٹیسٹ ٹیوب بچے کی پیدائش کی تھی۔مگرالمیہ دیکھیں کہ پاکستان میں آئی وی ایف کے آغاز کو 40سال سے زیادہ عرصہ ہوگیاہے لیکن پاکستان میں اب تک کتنے بچے آئی وی ایف سے پیدا ہوئے ہیں اور ہر سال کتنے جوڑے بانجھ پن کے علاج کے لیے آئی وی ایف کا انتخاب کرتے ہیں اور اس وقت ملک میں کتنے آئی وی ایف سینٹرز ہیں اس پر کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں۔تاہم ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق سنہ 1989 سے لے کر2021 تک پاکستان میں دس ہزار سے زائد بچوں کی پیدائش آئی وی ایف کے تحت ہو چکی ہے جبکہ 200 سے زیادہ آئی وی ایف سینٹرز اس وقت پاکستان میں کام کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے ان سینٹرز کی باقاعدہ نگرانی کا کوئی نظام موجود نہیں اور نہ ہی اس بارے میں کوئی قانون سازی کی گئی ہے۔

1978 میں جب دنیا کا پہلا ٹیسٹ ٹیوب بچہ پیدا ہوا تو 1980 میں مصر کی جامعہ الازہر نے اس حوالے سے فتوی جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اگر آئی وی ایف میں استعمال ہونے والے ایگز بیوی اور سپرمز شوہر کے ہوں تو اس سے پیدا ہونے والا بچہ جائز اور شریعت کے مطابق ہو گا۔تاہم ایران اور لبنان میں عطیہ شدہ ایگز کے ساتھ بچے کی پیدائش کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ شیعہ مکتبہ فکر میں سروگیسی کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے اور سروگیٹ ماں کو رضاعی ماں سے تشبیہ دی گئی ہے۔

پاکستان میںیہ مسئلہ2015میںاس وقت میڈیامیں آیاجب ایک جوڑے نے آئی وی ایف سے پیدا ہونے والے بچے کی تحویل سے متعلق مسئلہ لے کر وفاقی شریعت کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر فاروق صدیقی اور ان کی بیوی کئی سال سے اولاد سے محروم تھے لہذا انھوں نے اخبار میں اشتہار دیا کہ انھیں بچے کی پیدائش کے لیے کرائے کی کوکھ درکار ہے یعنی ان کے ہونے والے بچے کی سروگیٹ ماں بنے اور اس کے لیے اس عورت کو معاوضہ بھی دیا جائے گا۔اس اشتہار کو پڑھ کر فرزانہ ناہید نے ڈاکٹر فاروق سے رجوع کیا اور ان کے بچے کی ماں بننے پر آمادگی ظاہر کی۔ڈاکٹرفاروق نے فرزانہ کو علاج معالجے کے لیے 25 ہزار روپے دیے۔ فرزانہ نے نو ماہ بعد ایک بیٹی کو جنم دیا لیکن بیٹی کی پیدائش کے بعد انھوں نے بچی ڈاکٹر فاروق اور ان کی بیوی کو دینے سے انکار کر دیا۔

وفاقی شریعت کورٹ نے 2017 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے آئی وی ایف کو صرف اس صورت میں پاکستانی قانون اور شریعت کے مطابق قرار دیا اگر اس میں استعمال ہونے والا ایگ اور بچہ دانی دونوں بیوی کے جبکہ سپرم شوہر کا ہو۔شریعت کورٹ نے اس فیصلے میں عطیہ شدہ ڈونر ایگز اور عطیہ شدہ ڈونر سپرمز سے پیدا ہونے والے بچے کو ناجائز قرار دیا۔اس کے ساتھ ساتھ سروگیسی یعنی کرائے کی کوکھ سے بچے کی پیدائش کو غیر قانونی قرار دیا اور تعزیرات پاکستان میں ترمیم کی سفارش کرتے ہوئے سروگیسی کو قابل سزا جرم قرار دینے کو کہا اور اس میں ملوث مرد، عورت اور ڈاکٹر کے لیے سخت سزا تجویز کرنے کی بھی سفارش کی۔اس فیصلے میں عطیہ شدہ ایگز اور سپرم بینک رکھنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کرنے کو کہا گیا۔ اس فیصلے کے مطابق آئی وی ایف سے پیدا ہونے والا بچے کا قانونی باپ وہ ہو گا جس کا سپرم ہو گا اور بچے کی قانونی ماں وہ ہو گی جس کا ایگ ہو گا۔اس فیصلے میں کہا گیا کہ عطیہ شدہ ایگ یا سپرم سے پیدا ہونے والے بچے کے لیے شریعت کے طے شدہ وراثت کے اصولوں کا اطلاق مشکل ہو گا اس لیے یہ عمل شریعت قوانین کے منافی ہے۔مگرافسوس سے کہناپڑتاہے کہ اس حوالے سے ابھی تک کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکی ہے جس کی وجہ سے یہ دھندہ اب تیزی سے عروج پکڑرہاہے ۔

اس حوالے سے مختلف فتاوی جات موجود ہیں مگرجامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹائون کے کے ایک فتوے کے مطابق ''اسپرم بینک'' کا قیام ہی اسلامی تعلیمات ، تہذیب وثقافت کے منافی ہے، اسلام میں مرد کا نطفہ اپنی بیوی کے علاوہ کہیں اور استعمال کرنا ناجائز اور حرام ہے، اسپرم بینک کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ'مصنوعی تلقیح'' کے ذریعہ اپنے من پسند شخص کا نطفہ حاصل کرکے بچہ حاصل کیا جائے ، یہ سراسر جاہلی طریقہ ہے،جسے اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ حضرت عروہ بن زبیررحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ عہدِ جاہلیت میں نکاح کے چار طریقے رائج تھے۔ان میں سے ایک طریقہ یہ تھا: عورت جب حیض سے پاک ہوتی تو اس کا شوہر اس سے کہتا تھا:تم فلاں شخص کے پاس جائو اور اس سے جنسی تعلق قائم کرو۔ ایسا اچھی نسل سے اولاد حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔اسے نکاح الاستبضاع کہا جاتا تھا۔(یہ استبضاع مذہبی طور پر ہندوں میں بھی ہے اس کو نیوگ کہتے ہیں) ۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے جس طرح نکاح کے بغیر مرد اور عورت کا جنسی تعلق حرام ہے،اسی طرح شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے نطفے سے عورت کے بیضے کی مصنوعی تلقیح بھی حرام ہے، لہذا ''اسپرم بینک'' کا قیام ناجائز ہے ۔نیز اسپرم (مادہ منویہ ) کی بیع بھی شرعا باطل ہے، اس کو فروخت کرنا یا بغیر عوض کے اسپرم بینک کو دینا ہر صورت میں ناجائز اور حرام ہے۔

واپس کریں