دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بنگلہ دیش کاانقلاب؟
عمرفاروق۔آگہی
عمرفاروق۔آگہی
بنگلہ دیش میں جولائی میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والی طلبہ کی تحریک کے نتیجے میں 3سوسے زائدحکومت مخالف مظاہرین کی شہادتوں اور وسیع پیمانے پر عوامی مزاحمت کے بعد76 سالہ شیخ حسینہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر ملک سے فرار ہوکرانڈیاپہنچ گئی ہیں ، شیخ حسینہ واجد فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت پہنچیں تھیں،جہاں استقبال کے لیے ملک کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال اور وزارت خارجہ کے اعلی اہلکار بھی موجود تھے۔،شیخ حسینہ نے پہلی رات بھارتی ائیر بیس کی بیرکس میں گذاری۔بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کے پیش نظر انڈین اسٹیبلشمنٹ کی کوشش ہے کہ وہ انڈیاکی بجائے برطانیہ یاکسی اورملک میں پناہ لیں ۔
شیخ حسینہ کے فرارکے بعدبنگلہ فوج کے سربراہ نے کنٹرول سنبھا ل لیاہے بنگلہ دیش کی فوج کے سربراہ جنرل وقار الزمان کی اہلیہ رشتے میں معزول وزیراعظم حسینہ واجد کی کزن ہیں جبکہ جنرل وقار کے سسر جنرل محمد مستفیض مرحوم، شیخ مجیب الرحمن کے رشتہ دار تھے محمد مستفیض بنگلہ دیش فوج کے سربراہ رہے ہیں انہوں نے پاک فضائیہ میں ایئر ٹریفک کنٹرول کے ایئرمین کی حیثیت سے کیریئر شروع کیا اور پھر پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے کمیشن حاصل کیا تھاحسینہ واجد نے جنرل وقار الزمان کو اس سال 23 جون کو فوج کا سربراہ مقرر کیا تھا۔طلباء تحر یک نے فوجی حمایت یافتہ نگران حکومت کومستردکردیاہے اورکہاہے کہ وہ جلدعبوری قومی حکومت کی تجاویزپیش کریں گے ۔
شیخ حسینہ سنہ 1947 میں مشرقی بنگال میں پیدا ہوئیں،وہ شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی ہیں، جنھیں بنگلہ دیش کا بنگلہ بندھو یعنی بابائے قوم قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی قیادت میں ہی بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدہ ہوا تھا اور وہ 1971 میں ملک کے پہلے صدر بنے تھے۔اس وقت سے ہی شیخ حسینہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک سٹوڈنٹ رہنما تھیں۔ 1975میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے متعدد اراکین کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں صرف شیخ حسینہ اور ان کی چھوٹی بہن شیخ ریحانہ ہی بچ پائی تھیں کیونکہ وہ اس وقت ملک میں نہیں تھیں۔ بعدازاں وہ وہاں سے وہ دلی آئیں اور یہاں کئی برس مقیم رہیں۔اس وقت حسینہ کے شوہر واجدمیاں جو ایک سائنسدان تھے انھیں ایک سرکاری ادارے میں ملازمت بھی دی گئی تھی۔ وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا حصہ رہ چکے تھے اور سقوط ڈھاکہ سے قبل کراچی نیوکلیئر پلانٹ کے چیف سائنسدان بھی تھے لیکن پھر حالات خراب ہونے کے بعد ان کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کر دی گئی تھی۔
وہ انڈیاسے 1981 میں واپس بنگلہ دیش لوٹیں اور اپنے والد کی جماعت عوامی لیگ کی سربراہ مقرر ہو گئیں۔وہ 1996 میں پہلی مرتبہ ملک کی وزیراعظم بنیں 2001 میں وہ اپنی سابق اتحادی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی رہنما بیگم خالدہ ضیا سے الیکشن میں شکست کھا گئیں اور انھیں وزیرِ اعظم کا منصب چھوڑنا پڑا۔بنگلہ دیش کی سیاست پر یہ دونوں خواتین تقریبا پچھلی تین دہائیوں سے چھائی رہیں اور انھیں ملک میں جنگجو بیگمات کے نام سے پکارا جانے لگا۔
2009 میں ایک عبوری حکومت نے ملک میں انتخابات کروائے اور شیخ حسینہ ایک بار پھر ملک کی وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔اپنے سیاسی سفر کے دوران بطور اپوزیشن رہنما شیخ حسینہ متعدد مرتبہ گرفتار ہوئیں اور ان پر حملے بھی ہوئے۔ سنہ 2004 میں ایک ایسے ہی حملے کے سبب ان کی قوتِ گویائی متاثر ہوئی تھی۔کئی مرتبہ انھیں ملک بدر کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور مبینہ کرپشن کے سبب ان پر عدالتی مقدمات بھی قائم کیے گئے۔
حسینہ واجد حد درجہ خوشامد پسند تھیں اور انہیں اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کے سوا کسی شخص کا تذکرہ پسند نہیں تھا جس کے مجسمے بنوا کر پورے ملک میں اہم مقامات پر نصب کردیئے تھے۔ اب عوام شیخ حسینہ اور شیخ مجیب کی ہر علامت کو مسمار کررہے ہیں یا انہیں نذرآتش کیا جارہاہے شیخ مجیب کے دھان منڈی ڈھاکا میں اس کے گھر کو مجیب میوزیم میں تبدیل کردیا گیا تھا مشتعل نوجوانوں نے اسے بھی آگ لگادی ہے اسی مکان میں شیخ مجیب اور اس کے پورے خاندان کو بنگلہ دیش کے نوجوان فوجی افسروں نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔ حسینہ واجد نے ان فوجی افسروں کو اپنی حکومت کے دور میں دور نزدیک سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور انہیں تختہ دار پر لٹکادیا تھا۔
شیخ حسینہ تقریبا 21 برس بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہ چکی ہیں۔ وہ گذشتہ 16 برس سے مسلسل وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھیں۔حسینہ کی مدتِ اقتدار کو کامیابیوں اور تنازعات دونوں سے عبارت ہے۔ شیخ حسینہ کی قیادت میں ملک کی معیشت میں بہتری آتی ہوئی نظر آئی۔ملک میں سب سے زیادہ ترقی کپڑوں یعنی گارمنٹس کے شعبے میں نظر آئی اور بنگلہ دیش میں بنائے گئے کپڑے کو یورپ، شمالی امریکہ اور ایشیا تک رسائی ملی ان کے دور میں بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر تعمیر ہوا اور بنگلہ دیش کی فی کس آمدن صرف دس سال میں تین گنا ہو گئی۔ ورلڈ بنک کے مطابق اس دوران ڈھائی کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے اوپر اٹھ آئے۔لیکن گذشتہ چند برسوں میں ترقی کی یہ تیز رفتار سست ہونا شروع ہو گئی، جس سے لاکھوں نوجوان بیروزگار ہو گئے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو گئے تھے اور بیرونی قرضہ تقریبا دو گنا بڑھ گیا تھا۔ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کی اصل وجہ شیخ حسینہ کی حکومت کی بدانتظامی تھی۔ ان کا دعوی ہے کہ ماضی میں ملک کی معاشی کامیابیوں کا فائدہ صرف انھیں ہی ہوا ہے جو عوامی لیگ کا حصہ تھے۔
اس دوران شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش کومکمل طورپرانڈیاکی جھولی میں ڈال دیا جس کی وجہ سے حسینہ کی پارٹی تیزی سے عوام میں غیر مقبول ہوئی، بنگالیوں میں انڈیاسے نفرت میں اضافہ ہوا، جمہوری ادارے ختم ہوئے اور حکومت سے عوام کی نفرت بڑھی۔سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصہ ان افراد کے اہلخانہ کے لیے مخصوص ہے جنھوں نے1971میں پاکستان کے خلاف جنگ لڑی تھی ۔ 2018 میں ایک بڑے عوامی احتجاج کے بعد اس کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ البتہ بنگلہ دیش ہائی کورٹ نے اس سال جون میں یہ کوٹا بحال کر دیا جس کے بعد جولائی میں طلبہ نے یونیورسٹیوں میں احتجاج شروع کر دیا۔ جب بنگلہ پولیس کے علاوہ عوامی لیگ کے سٹوڈنٹ ونگ نے اس تحریک کو زبردستی روکنے کی کوشش کی تو حالات قابو سے باہر ہو گئے۔
شیخ حسینہ واجد نے 14 جولائی کو ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کی مخالفت کرنے والوں کو پاکستانی ایجنٹ(رضاکار) قرار دیا جس پرمظاہرین مشتعل ہوگئے۔اس کے بعد عدالت نے کوٹا سسٹم دوبارہ ختم کر دیا مگرطلباء تحریک کے مطالبات میں شدت آگئی انہوں نے کہاکہ شیخ حسینہ کو صرف استعفی ہی نہیں دینا چاہیے بلکہ ان پر قتل و غارت، لوٹ مار اور بدعنوانی کا مقدمہ ہونا چاہیے۔بعدازاں طلباء کایہ احتجاج سول نافرمانی کی تحریک میں تبدیل ہوگیاجس کے بعد سابق آرمی چیفس اور آرمی افسران نے ملک کی مسلح افواج سے عام طلبہ کے ہجوم کا سامنا نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
احتجاج کرنے والے طلبہ نے حکومت کو نو مطالبات کی فہرست دی، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ وزیراعظم فسادات کی ذمہ داری قبول کریں اور جاں بحق ہونے والے طلباء کے خاندانوں سے معافی مانگیں۔ وزیرداخلہ اور وزیر ٹرانسپورٹ وزارتوں سے مستعفی ہوں۔ جن مقامات پر لوگوں کو ہلاک کیا گیا وہاں پر تعینات پولیس اہلکاروں سے استعفی لیا جائے۔ ڈھاکہ، جہانگیر نگر اور راج شاہی یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز استعفے دیں۔ طلبہ پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے اور زخمی اور مرنے والوں کو معاوضہ ادا کیا جائے۔عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم بنگلہ چھاترو لیگ پر پابندی لگائی جائے۔ تعلیمی ادارے، طلبہ ہوسٹل اور ہال کھولے جائیں۔ طلبہ کو انتقامی کارروائیاں نہ کرنے کی ضمانت دی جائے، تعلیمی سرگرمیاں معمول کے مطابق بحال کی جائیں۔مگر حکومت نے مطالبات تسلیم نہیں کیے اور اس کے بجائے احتجاج کرنے والوں کے خلاف ہی کارروائیاں شروع کر دیں ۔
فوج کے اعلی سرکردہ حسینہ کو ہٹانے کی قیمت پر حکومت کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں، جنہیں واضح طور پر حکمران طبقے کے لیے حالات کو بچانے کے لیے جانا پڑا۔جرنیلوں کی کوشش ہے کہ عوام کو انصاف سے محروم کیا جائے۔ حسینہ کو عوام کے غیض و غضب سے بچانے کے لیے ملک سے باہر نکالا گیا۔واضح رہے کہ آرمی چیف وقار الزمان ایک منظم تبدیلی کی قیادت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔طلباء تحریک نے واضح کردیاہے کہ یہ انقلاب صرف شیخ حسینہ کے خاتمے کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کے فاشسٹ نظام کے خاتمے کے بارے میں ہے، اور یہ کہ طلبہ ایمرجنسی، فوجی حکمرانی یا کسی نظام کو قبول نہیں کریں گے۔


واپس کریں