دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایرانی عوام کی مسعودپزشکیان سے امیدیں
عمرفاروق۔آگہی
عمرفاروق۔آگہی
ایران میں اصلاح پسندوں اورقدامت پسندوں کے درمیان کشمکش جاری ہے مگرکچھ عرصے سے قدامت پسندوں کے خلاف ایرانی عوام کی نفرت بڑھ رہی ہے ،علما ء اورقدامت پسندوں کے خلاف یہ نفرت اور بداعتمادی راتوں رات پیدا نہیں ہوئی بلکہ ایک طویل عرصے سے یہ لاوہ پک رہا تھا۔ اب عوام نے بھی ملک کی معاشی اور سیاسی صورتحال کا ذمہ دار بھی ان قدامت پسندعلماء کو ٹھہرانا شروع کر دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ الیکشن میں رہبراعلی اوران کے حامیوں نے عوام کے سامنے ہتھیارڈالتے ہوئے اصلاح پسندمسعودپزشکیان کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ڈالیں تاکہ عوامی غم وغصے کوکم کیاجاسکے ۔

قدامت پسندوں کی سخت گیرپالیسیوں کی وجہ سے ایرانی عوام کاانتخابات سے اعتماد اٹھتاجارہاہے یہی وجہ ہے کہ حالیہ الیکشن میںصرف80لوگوں صدارتی امیدواربننے کی درخواستیں دی تھیں۔ ایران کی 12رکنی نہایت طاقتور گارڈین کونسل نے ان میں سے74امیدواروں کی درخواستوں کو مسترد کر دیاتھا( جن کے کاغذات مستردکیے جاتے ہیں انہیں اپیل کرنے کابھی حق نہیںہوتا اورنہ ہی کاغذات مستردکرنے کی وجہ بتائی جاتی ہے)حالانکہ2021میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے 590 افراد نے امیدوار بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جن میں 40سے زائدخواتین بھی تھیں مگر صرف سات افراد کے کاغذات نامزدگی کو منظور کیے گئے تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ ایران کے انتخابات میں عوام کی عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ ٹرن آئوٹ میں بھی واضح کمی ہورہی ہے ۔2021میںابراہیم رئیسی نے پہلے مرحلے میں ڈالے گئے تقریبا دو کروڑ 80 لاکھ ووٹوں میںسے ایک کروڑ 80 لاکھ ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی تاہم ٹرن آٹ صرف 49 فیصد سے کم تھا جو 1979 کے انقلاب کے بعد صدارتی انتخابات کے لیے ریکارڈ کم ترین شرح تھی۔اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ اصلاح پسندوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیاتھا۔جبکہ 2017کے انتخابات میں ٹرن آئوٹ 73 فیصد تھا۔

موجودہ الیکشن میں28جون کو ایران میں صدارتی انتخاب منعقد ہوئے تاہم کوئی بھی امیدوار مطلوبہ 50فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر سکا پہلے مرحلے میں ووٹرز کی شرح 40 فیصد رہی تھی ۔ 1979 کے بعد سے یہ سب سے کم ترین ٹرن آئوٹ تھا۔جس کے بعد پانچ جولائی کو صدارتی انتخاب کا دوسرا مرحلہ منعقد کیا گیا دوسرے مرحلے میں مجموعی طور پر تین کروڑ پانچ لاکھ تیس ہزار ایک سو ستاون ووٹ پڑے جن میں سے مسعود پزشکیان کو ایک کروڑ 63 لاکھ چوراسی ہزار چار سو تین ووٹ اور سعید جلیلی کو ایک کروڑ35 لاکھ38 ہزار ایک سو اناسی ووٹ ملے۔ دوسرے مرحلے میں مجموعی ٹرن آئوٹ 49 اعشاریہ 8 فیصد رہا یوںایران میں 14ویں صدارتی انتخاب کے بعدمسعودپزشکیان 9ویںصدر منتخب ہوئے ۔ایران میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد چھ کروڑ 10 لاکھ ہے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کا آہستہ آہستہ علما ء اوورقدامت پسندوں پر سے اعتماد ختم ہو گیا ہے یا اب وہ پہلے جیسا اعتبار نہیں رکھتے۔اقتدار پر قابض علماء پر اعتماد کا فقدان 2022 میں مہسا امینی کی موت کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں میں واضح ہوا جس دوران درجنوں علما ء کی پگڑیاں اچھالی گئیں۔یہ عوامی بے اطمینانی حالیہ انتخابات میں بھی واضح تھی۔ صدر کے انتخاب کے لیے لڑنے والے واحد عالم مصطفی پور محمدی کو پڑنے والے کل ووٹوں کی تعداد مسترد شدہ ووٹوں سے بھی کم تھی،وہ محض 2 لاکھ سے کچھ زائد ووٹ حاصل کرسکے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سپریم لیڈر یعنی رہبر اعلی کے علاوہ علما ء نے کئی سالوں میں بطور صدر، وزیر اعظم(آئینی ترمیم سے پہلے)، عدلیہ کے سربراہ اور سینکڑوں دیگر اہم عہدوں پر کردار ادا کیے ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں سیاسی اور سماجی منظر نامے میں ان کی موجودگی میں تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے۔

یہ تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے کہ علما ایران میں عوام کے لیے اتھارٹی تھے، اسی لیے عوام کے اعتماد کی بدولت وہ انقلاب کے بعد اقتدار پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئے۔2022 کے زبردست مظاہروں سے اسلامی جمہوریہ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ نے جنم لیا۔دو سال پہلے احتجاج کے دوران زن، زندگی، آزادی کے نعرے کے درمیان علما کو ایک بڑے اور اہم چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔مولویوں کو جانا ہو گا اور پگڑی گرا ئوجیسے نعرے اس احتجاجی تحریک کا اس حد تک حصہ تھے کہ مذہبی پیشوا اپنے آپ کوسڑکوں پر غیر محفوظ محسوس کرنے لگے۔ حتی کہ کچھ نے علما ء والا لباس اور پگڑیاں پہننا چھوڑ دیں۔ان کی کارکردگی نے ملک کے مذہبی اداروں کو بھی متاثر کیا ہے اور فی الحال مساجد جو ایرانی علما ء کا سب سے اہم مرکز سمجھی جاتی ہیں، تقریبا خالی پڑی ہیں۔ایک سینئر سرکاری اہلکار کے مطابق ملک میں تقریبا 75000 مساجد میں سے تقریبا 50000 کو بند کر دیا گیا ہے۔

ایسی رپورٹس بھی ہیں جن کے مطابق حالیہ برسوں میں مذہبی اداروں کے طلبا کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ رہائش اور ٹیوشن فیس کے زیادہ اخراجات اس کمی کی وجہ بتائے جاتے ہیں۔حالیہ برسوں میں ریاست نے مدرسوں میں پڑھنے والے طلبا کو سکولوں اور دیگر اداروں جیسا کہ بینکوں میں ملازمتیں فراہم کی ہیں تاکہ وہ انھیں مدرسوں میں ہی رہنے کی ترغیب دے سکیں۔حکومت نے پیسے اور اثر و رسوخ سمیت مختلف ذرائع سے مذہبی اداروں کو اپنے زیر اثر لانے کی بھی کوشش کی ہے اور مذہبی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے مالی امداد میں بھی اضافہ کیا ہے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ علما کی کارکردگی ایران میں مذہبی رسومات کے زوال اور معاشرے کے مختلف گروہوں بالخصوص نوجوانوں میں سیکولرازم کے فروغ کی بنیادی وجہ ہے۔
ایسے میں ایرانی عوام کومسعودپزشکیان سے کافی امیدیں ہیں انہوں نے اعلان کررکھا ہے کہ وہ مغرب سے تعلقات بہتر کریں گے اور جوہری مذاکرات کو بحال کریں گے تاکہ ملک کی معیشت کو کمزور کرنے والی عالمی پابندیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔اس کے علاوہ مسعودپزشکیان خواتین کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے والی ایران کی اخلاقی پولیس کو غیر اخلاقی قرار دے چکے ہیں۔ 2022 میں پولیس حراست میں جاں بحق ہونے والی نوجوان لڑکی مہسا امینی کی موت کے بعد مسعود پزشکیان نے کہا تھا کہ حجاب نہ پہننے پر لڑکی کو گرفتار کرنا اور پھر اس کی لاش اس کے گھر والوں کو واپس کرنا اسلامی ملک میں ناقابل قبول ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ اگر مخصوص کپڑے پہننا گناہ ہے تو خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ اختیار کیا جانے والا یہ رویہ 100 گنا بڑا گناہ ہے۔ مذہب میں کسی کے لباس کی وجہ سے ان سے سختی کی اجازت نہیں۔

مسعودپزشکیان کی پیدائش 29 ستمبر 1954 کو شمال مغربی ایران کے ماہآبادمیں ہوئی ان کے والدآذری اورماں کردتھی ، ارمیا میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایرانی انقلاب سے پہلے تبریز یونیورسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کی۔وہ تبریز کی میڈیکل یونیورسٹی میں پروفیسر بھی ہیں۔وہ ایک ہارٹ سرجن کے ساتھ ساتھ دوسری اصلاحاتی حکومت میں صحت اور طبی تعلیم کے وزیر بھی رہے چکے ہیں وہ5بار پارلیمنٹ کے رکن اور ایک بارایران کے نائب صدر بھی رہے ہیں۔مسعود پزشکیان 2008 میں ایرانی شہر تبریز سے رکن اسمبلی منتخب ہوتے آرہے ہیں، وہ 2016 سے 2020 کے درمیان ڈپٹی اسپیکر بھی رہے جبکہ 2021 کے صدارتی الیکشن میں انہیں نااہل قرار دیا گیا تھا۔1994 میں ان کی اہلیہ، فاطمہ مجیدی اور ایک بیٹی کی ایک کار حادثے میں موت ہوجانے کے بعد انہوں نے دوسری شادی نہیں کی اور انہوں نے بقیہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی تنہا پرورش کی۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مسعودپزشکیان کو بامعنی تبدیلی لانے کے لیے انھیں کتنی سیاسی آزادی دی جائے گی۔یاصرف ایرانی عوام کاغم وغصہ ٹھنڈاکرنے کے لیے ایک اصلاح پسندچہرہ سامنے لایاگیاہے ۔

واپس کریں